اداریہ
بی جے پی نے اپنے سب سے مضبوط گڑھ اور ترقی کے ماڈل کے طور پر پیش کی جانے والی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ وجے روپانی کو بھی اچانک قصرِ وزارت سے چلتا کر دیا جب کہ معیاد کی تکمیل اور اسمبلی انتخابات میں صرف ۱۴ ماہ باقی تھے۔ توقع کے مطابق ریاست کے طاقتور پاٹیدار طبقے سے تعلق رکھنے والے بھوپیندر پٹیل کو گجرات کا نیا وزیر اعلیٰ مقرر کردیا گیا ہے۔ وجے روپانی گزشتہ چھ ماہ کے دوران بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں سے بے دخل کیے جانے والے پانچویں وزیر اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل سربانندا سونووال (آسام)، تری ویندر سنگھ راوت اور تیرتھ سنگھ راوت (اتراکھنڈ) اور یدی یورپا (کرناٹک) کو بھی اپنی معیاد کی تکمیل سے قبل ہی وزارت کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ وجے روپانی نے اپنی پیشرو آنندی بین پٹیل سے اس وقت گجرات حکومت کی کمان حاصل کی تھی جب ریاست میں پٹیل ریزویشن کوٹہ کے لیے مطالبے اور ریاست کے ساحلی قصبے اونا میں چار نوجوانوں کی ہجومی تشدد میں موت کے بعد دلت ایجی ٹیشن کے پیش نظر یکم اگست ۲۰۱۶ کو انہوں نے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آنندی بین پٹیل کے برعکس وجے روپانی کی بے دخلی ریاست میں کسی احتجاجی یا اشتعال انگیز صورت حال کا نتیجہ نہیں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں ناکامی کے خدشے کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔ کووڈ-۱۹ کی دوسری لہر کے دوران گجرات حکومت کی بد انتظامی اور ریاست کی ابتر معاشی صورت حال کے سبب پارٹی پر عوام کا اعتماد ڈگمگانے لگا ہے اور ریاست کے عوام نے بی جے پی کی خوشنما باتوں اور دل فریب نعروں کے سحر سے آزاد ہونا شروع کر دیا ہے۔ ماہ اپریل ۲۰۲۱ میں گجرات ہائی کورٹ نے کووڈ-۱۹ کی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی اور اموات کی تعداد کے سلسلے میں گمراہ کن بیانات دینے پرحکومت کو کافی سرزنش کی تھی۔ ریاست کے عوام کووڈ-۱۹ کے قہر اور معاشی ابتری کی مار سے بد حال حکومت کو کوسنے لگے ہیں۔ چنانچہ اس صورت حال میں بی جے پی کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اگلا اسمبلی انتخاب وجے روپانی کی قیادت میں لڑا گیا تو ریاست میں ان کی شکست یقینی ہے، کیوں کہ گزشتہ اسبملی انتخابات میں تو ان مسائل کے بغیر بھی نتائج پارٹی کے لیے نہایت مایوس کن رہے تھے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران گجرات کے بشمول بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ کی یہ تبدیلی دراصل بی جے پی کی غیر ذمہ دارانہ طرز حکمرانی، انتظامی نا اہلی، کرپشن اور پارٹی کے اندرونی خلفشار کو ظاہر کرتی ہے۔ کرناٹک کے سابق چیف منسٹر یدی یورپا پر خود اپنی پارٹی کے لوگوں نے کرپشن اور اقرپا پروری کے سنگین الزامات لگائے جس کے بعد پارٹی کی اندرونی ناراضگیوں کے سبب مرکزی قیادت کو انہیں ہٹا نے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ تری ویندر سنگھ راوت کا بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان پر ۲۰۱۶ کے دوران کی گئی مالی بے قاعدگیوں کے الزام کے تحت عدالت میں مقدمہ دائر ہوا اور ان کے بعض متنازعہ فیصلوں کے سبب داخلی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب گجرات جیسی طاقتور ریاست میں حکومتی بد انتظامی پر عوام کے غیظ وغضب کے خوف سے وزیر اعلیٰ کو ہی گھر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ اس طرح چند ہی برسوں میں
’’اے پارٹی وتھ ڈیفرینس‘‘ (A Party With A Difference)کے نعرے کا بھرم کھل گیا ہے۔ شخصیت پرستی یا اصول یسندی؟
واقعات سے ایک اور حقیقت بھی واضح ہو کر سامنے آئی کہ ملک میں آر ایس ایس کی تنظیمی قابلیت اور صلاحیت کے متعلق جو پُرعظمت کہانیاں بیان کی جاتی ہیں وہ در اصل دور کے سہانے ڈھول ہیں۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پچھلے چھ مہینوں میں جن پانچ چیف منسٹروں کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا ہے ان میں چار آر ایس ایس کے تربیت یافتہ سویَم سیوک (رضاکار) یا اس کے پرچارک (مبلّغ) تھے۔ یدی یورپا صرف پندرہ سال کی عمر میں آر ایس ایس سے وابستہ ہوئے اور اس میں ایک طویل عرصے تک تربیت پاتے رہے۔تریویندر سنگھ راوَت بھی آر ایس ایس کے پرچارک تھے۔ وجے روپانی بیس سال کی عمر میں آر ایس ایس سے وابستہ ہوئے اور اس کے پرچارک بنے۔ گویا یہ تمام لوگ ملک کی ‘عظیم سنگھٹن’ کے تربیت یافتہ ہیں لیکن ان لوگوں نے اپنی بد عنوانی، بد انتظامی اور غیر ذمہ دارانہ طرز حکومت سے ملک کے عوام کو سنگین مسائل کی ایسی وادی میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ بی جے پی کے حکمرانی کے سلسلے میں ہونے والے مسلسل تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلند بانگ دعووں، دلفریب نعروں اور لچھے دار تقریروں سے عوام کو متاثر تو کیا جا سکتا ہے یا ان کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر کے عارضی طور پر اقتدار حاصل تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے سہارے ایک بہترین، پرامن اور ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے والی حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ اس کے لیے کچھ دوسری ہی صلاحیتوں اور لیاقتوں کی ضرورت ہوتی ہے جس سے مذکورہ تنظیم بالکل ہی محروم ہے۔ اس موقع پر آر ایس ایس کو اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنے بنیادی افکار اور طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ محدودیت اور تنگ نظری کی بنیاد پر کوئی تنظیم تو چلائی جا سکتی ہے اور مذہبی منافرت ،میڈیا منیجمنٹ اور دولت کے بل پر الیکشن جیتے بھی جا سکتے ہیں لیکن متنوع افکار و خیالات کے حامل ملک پر حکومت نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے وابستگان کو وسیع النظری، کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی جیسی خصوصیات سکھائی جائیں۔ دوسری جانب یہ عوام کے لیے بھی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا مقام ہے کہ جب وہ حقائق کو جانے بغیر محض چند دلکش نعروں سے متاثر ہوکر بعض افراد کے ہاتھوں میں اپنے ملک کا مستقبل سونپتے ہیں تو اس کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اسی لیے عوام کو اپنے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہوئے شخصیت پرستی سے بالاتر ہو کر نہایت ہی دانش مندی کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021