سپریم کورٹ نے ملک کے سرکردہ وکیل و جہد کار پرشانت بھوشن کو ججوں کے متعلق ان کے دو ٹویٹس پر توہینِ عدالت کا خاطی قرار دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے 22جولائی کو فاضل وکیل کے ٹویٹس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں ان سے عدالتی نظام کی توہین ہوتی ہے، جس پر پرشانت بھوشن نے اپنے تفصیلی حلف نامہ میں کہا تھا ’’اظہار کی آزادی سے عدالت کی اہانت نہیں ہو سکتی‘‘ لیکن عدالت نے ان کی تمام دلیلوں کے علی الرغم انہیں توہین عدالت کا قصور وار قرار دیا ہے تاہم ابھی سزا نہیں سنائی ہے۔ اس دوران پرشانت بھوشن کی جانب سے توہینِ عدالت کی سزا پر سماعت کو ملتوی کرنے کی گزارش کو سپریم کورٹ نے مسترد کردیا ہے اور انہیں اپنے موقف پر غور کرنے کے لیے دو تین دن کا وقت دیا ہے۔ سپریم کورٹ چاہتی ہے کہ فاضل وکیل معذرت خواہی کرتے ہوئے اپنے موقف سے رجوع کر لیں لیکن پرشانت بھوشن اس کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہوں نے یہ صاف طور پر کہدیا کہ ’’میں رحم کی اپیل نہیں کروں گا جو سزا بھی ملے بخوشی قبول کرلوں گا‘‘۔ انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں ہندوستانی جمہوریت کی تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے چار چیف جسٹسوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا ’’مستقبل میں مؤرخین جب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ گزشتہ چھ برسوں کے دوران ایمرجنسی کے باضابطہ اعلان کے بغیر ہی بھارتی جمہوریت کو کس طرح تباہ کیا گیا تھا تو وہ اس تباہی کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی خاص طور پر نشاندہی کریں گے۔ بالخصوص سپریم کورٹ کے چار سابق جسٹسوں کی‘‘۔ ایک دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے موجودہ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے پر یہ کہتے ہوئے نکتہ چینی کی کہ ’’چیف جسٹس آف انڈیا نے کورونا وبا کے دور میں ہیلمٹ اور ماسک کے بغیر ہی موٹر سائیکل کی سواری کی جبکہ عدالت کو لاک ڈاون کی حالت میں رکھ کر لوگوں کو انصاف جیسے حق سے محروم رکھا‘‘۔ خیال رہے کہ کچھ روز قبل چیف جسٹس کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں وہ بی جے پی کے ایک لیڈر کی شاندار ہارلے ڈیوڈسن موٹر سیکل پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پرشانت بھوشن نے اس سلسلے میں اپنی یہ غلطی تسلیم کی کہ انہیں ہیلمٹ پہننے کی بات نہیں کہنی چاہیے تھی کیونکہ موٹر سیکل کھڑی ہوئی حالت میں تھی، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ٹویٹ کے باقی حصہ پر قائم ہیں۔ جسٹس مشرا کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کہا ہے کہ یہ ٹویٹ مسخ شدہ حقائق پر مبنی ہیں جو توہینِ عدالت کی تعریف میں آتے ہیں۔ عدالت کے مطابق یہ ٹویٹ سپریم کورٹ کے طریقہ کار پر مفاد عامہ میں کی گئی کوئی مثبت تنقید نہیں ہے بلکہ بد نیتی پر مبنی گھٹیا الزامات ہیں جن سے عدلیہ بدنام ہو سکتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے کو بھارتی جمہوریت کے تحفظ کے لیے ضروری قرار دیا۔ اس کے مطابق ’’بھارتی عدلیہ نہ صرف ملک کی جمہوریت کے مختلف ستونوں میں سے ایک ہے بلکہ اس کا مرکزی ستون ہے۔ آئینی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلانے کی کوشش سے آہنی پنجوں سے نمٹنا ضروری ہے۔(بھوشن کے) ٹویٹس ہندوستانی جمہوریت کے اس اہم ستون کو متزلزل کر سکتے ہیں۔
اگرچہ دائیں بازو کے حامی گوشوں کی جانب سے پرشانت بھوشن کو توہینِ عدالت کا قصور وار قرار دینے کے فیصلہ کی تحسین کی جا رہی ہے لیکن ان کی حمایت و یکجہتی میں ملک کے دانشوروں اور اہم شخصیات سے لے کر مختلف اخبارات کے تجزیوں اور سوشل میڈیا کے گلیاروں تک جو زبردست رد عمل سامنے آیا ہے اسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایمنسٹی انڈیا نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ’’ہندوستان میں توہینِ عدالت کے فرسودہ قوانین کا استعمال عدلیہ پر تنقید روکنے کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ سینئر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڈے نے کہا ’’پرشانت بھوشن کیس کا فیصلہ وکلا کی جانب سے بے باکانہ اظہار خیال کی حوصلہ شکنی کرے گا ایک خاموش بار ایک مضبوط عدالت نہیں بنا سکتا‘‘۔ تاریخ داں رام چندر گوہا نے ٹویٹ کیا ’’اس اقدام کے ذریعے سپریم کورٹ نے نہ صرف اپنا مقام گرالیا ہے بلکہ ایک جمہوریت کو بھی گرنے دیا ہے۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک سیاہ دن ہے‘‘۔ بار اسوسی ایشن آف انڈیا نے بھی سپریم کورٹ کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’’اسوسی ایشن کا خیال ہے کہ کورٹ اس معاملے میں جس انداز سے توہینِ عدالت کا حکم لگا رہی ہے اس سے ادارہ کے وقار کی حفاظت کا مقصد حاصل کرنا تو کجا الٹا اسے نقصان ہی پہنچے گا۔ الغرض اس سارے معاملے میں بعض ایسے قابل تشویش امور بھی سامنے آئے ہیں جن کا ازالہ عدلیہ پر عوام کے غیر متزلزل اعتماد کی برقرار ی کے لیے ضروری ہے۔
سپریم کورٹ میں شہریوں کے بنیادی جمہوری حقوق سے متعلق کئی معاملات عرصہ دراز سے زیرِ التوا ہیں جن پر وہ توجہ نہیں دے پا رہی ہے۔ مثلاً آرٹیکل 370 کی منسوخی کا آئینی جواز، سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی قانونی و دستوری حیثیت وغیرہ۔ لیکن تین دہوں سے قانون و نظام انصاف کی خدمت میں مصروف اپنی ہی برادری کے ایک رکن کے خلاف جس تیزی کے ساتھ عدالت از خود نوٹس لیتے ہوئے حرکت میں آئی ہے اور جس طرح آناً فاناً فیصلہ بھی سنا دیا ہے اس سے انہی اندیشوں کو تقویت ملتی ہے جن کا اظہار ان ٹوئٹس میں کیا گیا ہے۔ حج لویا، رافیل ڈیل، بابری مسجد اور پی ایم کیر فنڈ جیسے کئی معاملات میں عدلیہ کے فیصلے تنقیدوں کی زد میں ہیں اور ملک میں اب یہ احساس عام ہو رہا ہے کہ عدالت کے فیصلے حکومت کی منشاء و مرضی کے تابع ہونے لگے ہیں۔ معزز عدالت نے زیر بحث کیس میں ایک شخص کے محض دو ٹوئٹس کو جمہوریت کے مرکزی ستون کو عدلیہ کے لیے تباہ کن سمجھا ہے حالانکہ اظہارِ خیال کی آزادی اور صحت مند تنقید سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے جبکہ مخالف آوازوں کو دبانے سے یہ کمزور ہوتی ہے۔ الغرض یہ اپنی نوعیت کی ایک بے نظیر حساسیت ہے جس کا اظہار اس کیس میں ہوا ہے۔ اگر اسی طرح کی حساسیت کا اظہار ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مظلوموں کو جلد سے جلد انصاف دلانے کے لیے کیا جاتا تو بھارت کا شمار آج دنیا کی بہترین جمہوریتوں میں ہو سکتا تھا جو آج اکنامسٹ انٹلی جنس یونٹ کے ’گلوبل ڈیموکریسی انڈیکس 2019‘ کے مطابق 10ویں مقام سے گِر کر 51 ویں پائدان پر آ چکا ہے۔ وطنِ عزیز میں جمہوریت کی اس حالتِ زار کے لیے حسب حیثیت ومرتبہ جمہوریت کے تمام ہی ستون مقننہ، عاملہ، عدلیہ اور میڈیا ذمہ دار ہیں۔
ہماری عدلیہ کی قانونی حیثیت اور اختیار انصاف کا خوف پھیلانے پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ آئینی اقدار پر عمل پیرا ہو کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے والا ہونا چاہیے۔ آزاد جمہوریت میں اختلاف رائے اور آزادی اظہار کے نظریات ناگزیر حقوق ہیں۔نظامِ عدل پر حکومتِ وقت کا اثر ورسوخ انصاف، آزادی اور جمہوریت کی اساس کو ہی ختم کر دیتا ہے جس سے ملک کے مختلف اداروں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ جمہوری اور آئینی عدالت کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی بقاء اور نشو ونما کے لیے تنقیدی کلچر کو گوارا کرے۔ تنقید کی جمہوری روایت کی راہ کھوٹی کرنے کی کوشش ملک کو قرون وسطیٰ کی ذہنیت کے ساتھ پیچھے دھکیل دے گی جو بھارت اور بھارتیوں کے مستقبل کے لئے نہایت خطرناک ہے۔ ملک کے تمام دانشوروں اور ذی شعور وصاحبِ اختیار شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فساد کی اس جڑ پر کاری ضرب لگائیں جہاں سے یہ سارا بگاڑ پھیل رہا ہے۔