اداریہ: وہ صبح کبھی تو آئے گی

 

 

بر صغیر ہندوپاک میں تقسیمِ ملک کی ذمہ داری اور تحریک آزادی میں حصہ داری ہمیشہ ہی بحث کا موضوع رہی ہے۔ بعد کے دور میں فرقہ وارانہ فسادات کے عنوان سے ملک کی اقلیت آئے دن پولیس، حکومتوں اور فرقہ پرستوں کی زدپر رہی ہے۔ پڑوسی مسلم ملکوں سے روابط، ملک سے وفاداری و غداری، کشمیر کا معاملہ، مسلمانوں کے مذہبی وسیاسی حقوق، ملک کے ذرائع وسائل پر ان کا استحقاق، تاریخ کا بوجھ، ملک میں ان کی شبیہ اور مجموعی طور پر مسلمانوں کی شراکت داری کا اعتراف یا اس سے چشم پوشی نیز ان کی اپنی ترقی یا پس ماندگی کے عوامل جیسے تمام ایشوز تقسیمِ وطن کے بطن ہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت آج جبکہ وہ اپنی آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو چکا ہے سیکولرزم، ہندو ثقافت و تہذیب کا دائرہ اور اقلیت و اکثریت کی بحثوں کو کسی حتمی نتیجے تک لے جانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔
١١/ مئی ١٩٥١ کو گجرات کے سومناتھ مندر کی تقریب سے لے کر ٥/ اگست ٢٠٢٠ کو اتر پردیش کے اجودھیا میں منعقدہ مندر کے سنگ بنیاد کی تقریب تک کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بس یہی کہا جائے گا کہ ’پُل کے نیچے پانی کافی بہہ چکا ہے‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گنگا نہ تو صاف رہی اور نہ کنارے کی گندگی کو بہا لے گئی بلکہ وہ جتنی آلودہ ہوتی رہی اس سے زیادہ اس کے بھکتوں اور عقیدت مندوں میں ہیجان برپا ہوتا گیا۔ گنگا جمنی تہذیب کی ڈینگیں مارنے والے اور گنگا جل اور آب زمزم کو ملا کر وضو کرنے کی باتیں کرنے والے ان سب کے لیے آج اسی دریا کے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام آپہنچا ہے۔ کیونکہ ایک ’پارٹی وتھ اے ڈیفرنس‘ کا مکھوٹا اتر چکا ہے اور اس نظریے کے حاملین کے ہاتھوں زمین میں فساد برپا ہو چکاہے۔ حتیٰ کہ گائے اور گنگا کی باتیں کرنے والوں نے گاندھی کو بھی فکری و تاریخی حوالوں سے اتنا بونا کر دیا ہے کہ ڈنڈا تھامے دھوتی والے اس حقیقی رام بھکت کے قاتلوں کے مندر بنائے جا رہے ہیں جن میں دھڑلے سے نفرت، تشدد، نا انصافی، لاقانونیت، انسان دشمنی اور آمریت و بربریت کا پرشاد تقسیم کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں سیکولرزم، اکثریت کے جذبات و عقیدوں کا احترام، ملک کے وسائل پر اول استحقاق کا دعویٰ اور اکثریت کے رحم و کرم پر یہاں کی اقلیت اور مول نواسیوں، آدی باسیوں، بہوجنوں کے زندہ رہنے کے سوال پر آئینی و انسانی بنیادوں پر نہیں بلکہ فسطائی نظریے کے مطابق سوچا اور عمل کیا جا رہا ہے۔ درآنحالیکہ بھارت کی٧٥ فی صد آبادی ان طبقات پر مشتمل ہے جو بوجوہ، ہندوازم کے دائرہ سے خود کو باہر گردانتے ہیں۔ اس کے بعد ٢٠ تا ٢٢ فی صد مذہبی اقلیتوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برہمنوں، ٹھاکروں اور چند دیگر ’’اعلیٰ ذات‘‘ کی آبادی جو اصلاً قریب ساڑھے تین سے پانچ فی صد ہی بنتی ہے وہ خود کو عظیم بھارت کی تقدیر کا مالک بنا کر پیش کر رہی ہے اور آیسا محسوس ہوتا ہے کہ باقی سب اس طبقے کے آگے سرنگوں ہو گئے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آر ایس ایس کے مکھیا موہن بھاگوت اعلان نہ کرتے کہ ’’رام مندر کا ایشو ایک مندر کی تعمیر تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ‘کہیں بڑا’ ہے۔‘‘وزیر اعظم اجودھیا میں سنگ بنیاد رکھنے کے بعد یہ نہ کہتے کہ یہ رام مندر ’’بھارتی عقائد اور ثقافت کی جدید علامت ہے۔‘‘ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے لفظ ’ماڈرن‘ کو دُہرایا اور کہا کہ رام مندر بھارتی روایات کی ماڈرن نشانی بنے گا۔واضح ہے کہ مستقبل کے عزائم اور منصوبوں کے بارے میں نہایت ڈھٹائی سے کام لیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس فکر اور ایجنڈے کے حق میں ملک و سماج میں حمایتیوں کی بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے دام، درم، قدم، سخن جیسے تمام حربے روا رکھے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب سرپٹ دوڑتے اس ہندتوا گھوڑے سے کچلے جانے کا جن کو خوف ہے وہ اپنی جگہ اس کی تباہ کاریوں سے بچنے بچانے اور عوام و خواص کو آگاہ کرنے کی اپنی سی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ متعدد پسماندہ طبقات کے گروپ، بیدار ذہن دانشور، ایماندار صحافی اور مخلص سماجی کارکن وغیرہ ان میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ جدید بودھ عقیدت مند خود کو امبیڈکروادی (Ambedkarite) کہلواتے ہیں جو ملک کے وہ دلت ہیں جنہوں نے ریزرویشن کی مراعات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور معاشی بہتری کے ساتھ ساتھ سیاسی اثر بھی پیدا کر لیا ہے۔ لیکن میدان عمل میں وہ فسطائیت کے مقابلے میں ثابت قدم دکھائی نہیں دیتے۔ ترنگے سے منسوب اقدار و اصول یعنی شمولیت، سیکیولر جمہوریت، حقوق انسانی کی پامالیوں نے محبان وطن کو بھی بے چین کر دیا ہے۔ دلت سماج سے منسوب ترنگے کے اشوک چکر کا نیلا رنگ اپنی اہمیت منوانے میں لگا ہوا ہے۔ بائیں بازو کی طاقتیں دنیا میں اشتراکیت کے بکھر جانے کے بعد سے ہی ملک میں کمزور ہوتی چلی گئی ہیں اور ہندتوا واد کی فکری و حکومتی یلغار اس پر مستزاد ہے۔ ملک کے مختلف سرکاری اداروں اور قومی میڈیا کے بہت بڑے حصے کو جس طرح گھٹنے ٹیکے ہوئے آج دیکھا جارہا ہے اس سے ناقدین کی اس رائے سے اتفاق کئے بغیر چارہ نہیں کہ ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔اس بات کا نوٹس بھی لیا جانا چاہیے کہ اسی کیفیت میں ’آئیڈیا آف انڈیا‘ پر بحث ہونے لگی ہے۔ خدا بیزار دانشوروں سے لے کر ہندو راشٹر کے حامی و مخالف اور ملک کے اصل باشندے، جنہیں مول نِواسی کہا جاتا ہے وہ بھی اپنے خوابوں کے بھارت کی صورت گَری کے لیے اپنے نظریات و عقائد کے ساتھ میدان میں کھڑے ہیں۔ ان سب کو حالات پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ملک کی تقدیر میں شراکت داری کے مختلف دعویداروں کے بیچ مسلمانوں کی آواز اور ان کا پیغام کہاں ہے؟ وہ کونسا متبادل ’آئیڈیا‘ اہلِ وطن کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں؟ یا پھر وہ اپنے آپ کو اور اپنی تقدیر کو گنگا کے بہاؤ کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں یا انہیں بہتی گنگا میں ہاتھ دھو کر وقتی اور دنیوی فائدے حاصل کرنے میں عافیت تلاش کرنا چاہیے؟ جیسا کہ اس سے قبل ’دعوت‘ کے صفحات میں کہا گیا تھا کہ ’’جمہوریت کی سب سے بڑی طاقت گفتگو ہے، مذاکرات ہیں، افہام اور تفہیم کا عمل ہے۔ کسی اور نظام میں اس بات کی گنجائش نہیں ہوتی کہ عوام کا ہر طبقہ اپنی رائے دینے اور اپنا موقف سمجھانے کا حق رکھتا ہو۔ اسی لیے جمہوریت اپنے بہت سارے نقائص کے باوجود ماضی کے دیگر نظاموں کے مقابلے زیادہ پائیدار اور خوبصورت نظر آتی ہے۔۔۔‘‘ بنا بریں ہم کو دستیاب سوشل میڈیا سمیت مروجہ تکنیکی و روایتی نیز تمام معروف جمہوری طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے الٰہی نظامِ زندگی کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے میں جی جان سے لگ جانا ہوگا۔ ’’ستیہ میو جئتے‘‘ یعنی سچائی کی جیت کی خواہش مند قوم کے سامنے جب کبھی حق مکمل شکل میں آشکار ہوگا تو یہ متلاشیانِ حق ابرِ رحمت کے سایے تلے آکر رہیں گے۔ اور اس سفر کی مسافت (مکی و مدنی) ٢٣ سال کی بھی ہو سکتی ہے یا صدیوں پر محیط بھی ہو سکتی ہے۔ دیر یا سویر ان کو ’ہزار سجدوں سے نجات‘ صرف مسلمان ہی دلائیں گے انشاءاللہ!
ملک کے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آفاقی دین و شریعت کے امین ہیں۔ ان کا منصبی مقام ’داعی‘ ہونے سے وابستہ ہے۔ نصح و خیرخواہی ان کا فریضہ ہے۔ اعلائے کلمۃ الحق اور انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح و نجات ان کا نصب العین ہے۔ اتحاد و احترام، خدمت خلق، حکمت و مؤدت، صبر و ضبط نیز امن و سلامتی کے راستے سے ان‌ کو اپنی، ملک کی اور تمام عالم کے انسانوں کی تقدیر سنوارنے کا فریضہ سرانجام دینا‌ ہے۔ لہذا انہیں نہ ہتھیار ڈالنا ہے نہ غافل رہنا اور جال میں پھنسنا ہے اور نہ مایوس ہونا ہے بلکہ ہر آزمائش کو من جانب اللہ تصور کرتے ہوئے توکل کی راہ پر چل کر ظالم اور مظلوم دونوں کا مددگار بننا ہے۔ کسی قوم کی دشمنی ہمیں انصاف سے پھیرنے کا سبب نہیں بنے گی اور نہ بے بضاعتی و بے سامانی ہمیں استقامت کی راہ چھوڑ دینے کی وجہ بن سکتی ہے۔ ہمارے پختہ عزائم اور ہماری حسن تدبیر پھر ایک بار اقوامِ عالم کو ہم سے قریب لے آئے گی اور یہاں کے باشندے از خود مؤمن و مسلم قیادت کے ہاتھوں بیعت کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔ سنہ ۶۲۹ عیسوی میں تعمیر شدہ کیرالا کی چیرامن جمعہ مسجد کے مینار اپ بھی گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کیسے صنم خانے سے کعبے کو پاسبان میسر کراتا ہے۔ کوڈونگلور کے ہندو راجا چیرامن پیرومل سے تاج الدین بننے کا واقعہ ملت اسلامیہ ہند کے لئے ایک ماضی ہی نہیں بلکہ ایک روشن مستقبل کی راہ بھی ہے۔ مالک بن دینار اور دیگر صحابہ نے مالابار کے ساحلوں پر اسلام کے انمٹ نقوش اور داعیان اسلام کی اولین بستیاں قائم کیں۔ محمد بن قاسم کی فوج کے اعلیٰ ترین اخلاقی مظاہرے سے متاثر ہو کر سندھ میں ہندو عوام نے ان کو واپس جانے سے روکا۔ اس کے بعد صوفیا کرام کے وسیع اثرات برادران وطن پر ملک کے طول و عرض میں آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلمان اس ملک کی تقدیر کو سات آٹھ صدیوں تک سنوارتے رہے۔ پھر جب ضرورت پڑی تو انگریزی سامراج سے خلاصی حاصل کرنے میں سب سے زیادہ قربانیاں بھی انہوں نے ہی دی ہیں۔ محدث شاہ عبدالعزیز اور فضل حق خیرآبادی نے سنہ 1807 میں اعلان کیا تھا کہ اس وقت انگریزی اقتدار کے خلاف جہاد لازم ہے۔ اس فتوے کے بعد ہزاروں مسلمانوں نے شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاتھوں پر بیعت کی جس کے ساتھ ہی غیر ملکی قابضین کے خلاف جنگ آزادی کا بگل بجایا گیا۔ اس کے بعد 1857 کا غدر اور علماء کرام کی شہادتیں اور تمام واقعات آج بھی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ ایسی قوم وقتی مصائب و آلام سے دل برداشتہ کیسے ہو سکتی ہے؟
ہمیں اس مشہور غیر مسلم صحافی کی گواہی کو یاد رکھنا چاہیے جس نے دلی کی پرامن و پر عزم ’شاہین باغ‘ مزاحمتی تحریک کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’’مسلمان ہی اس ملک کو بچائیں گے کیونکہ اس سے پہلے بھی انہوں نے ہی بھارت کو بچایا تھا۔‘‘

ملک کے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ آفاقی دین و شریعت کے امین ہیں۔ ان کا منصبی مقام ’داعی‘ ہونے سے وابستہ ہے۔ نصح و خیرخواہی ان کا فریضہ ہے۔ اعلائے کلمۃ الحق اور انسانوں کی دنیوی و اخروی فلاح و نجات ان کا نصب العین ہے۔ اتحاد و احترام، خدمت خلق، حکمت و مؤدت، صبر و ضبط نیز امن و سلامتی کے راستے سے ان‌ کو اپنی، ملک کی اور تمام عالم کے انسانوں کی تقدیر سنوارنے کا فریضہ سرانجام دینا‌ ہے۔ لہذا انہیں نہ ہتھیار ڈالنا ہے نہ غافل رہنا اور جال میں پھنسنا ہے اور نہ مایوس ہونا ہے بلکہ ہر آزمائش کو من جانب اللہ تصور کرتے ہوئے توکل کی راہ پر چل کر ظالم اور مظلوم دونوں کا مددگار بننا ہے۔ کسی قوم کی دشمنی ہمیں انصاف سے پھیرنے کا سبب نہیں بنے گی اور نہ بے بضاعتی و بے سامانی ہمیں استقامت کی راہ چھوڑ دینے کی وجہ بن سکتی ہے۔ ہمارے پختہ عزائم اور ہماری حسن تدبیر پھر ایک بار اقوامِ عالم کو ہم سے قریب لے آئے گی اور یہاں کے باشندے از خود مؤمن و مسلم قیادت کے ہاتھوں بیعت کرنے کے لیے آگے آئیں گے۔