اداریہ

اداروں کی ناکامی ؟

 

 

راجستھان کے سیاسی تنازعہ کی سماعت کے دوران جسٹس ارون مشرا نے ایک نہایت اہم بات کہی کہ ’’رکن اسمبلی عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، کیا عوامی نمائندوں کو مخالفت کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے؟ جمہوریت میں اختلاف کو دبایا نہیں جاسکتا‘‘۔
بزرگ تلگو شاعر وراورا راؤ، اَربن نکسل جیسے توہین آمیزکلمات سے پکارے جانے والے سماجی و حقوق انسانی سے وابستہ سُدھابھاردواج، پونے کے قریب دلتوں کی تاریخی نشانی بھیما کوریگاؤں میں 31 دسمبر 2017 کو منعقدہ یَلگار پَریشد سے وابستہ مشہور دلت مفکر و مصنف ڈاکٹر آنند تیل تُمبڑے، صحافی و شہری حقوق کے عَلَم بردارگوتم نولکھا جیسے متعدد کارکنان کو حکومت کے عتاب کا شکار صرف اسی وجہ سے بننا پڑ رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے نظریات کو ملک کے حق میں بہتر خیال نہیں کرتے۔ ملک میں صحافیوں کے خلاف قریب 22 مقدمے چل رہے ہیں جو حکومتوں پر نقد و تبصروں سے لے کر کورونا وائرس سے متعلق زمینی رپورٹوں کے ذریعے سچائی کو منکشف کرنے کے لیے حکم رانوں کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر جے این یو اور دیگر یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کے خلاف محض اسی بنا پر کیس درج کیے گیے کہ ان کو حکومت کے کسی متنازعہ فیصلے سے اختلاف تھا۔ ان حالات میں جسٹس ارون مشرا کا بیان ایک اہم نظیراور دلیل کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ فی الحال عیدالاضحٰی اور ایودھیا میں رام مندر کے لیے منعقد شدنی تقریب کے معاملے میں بھی شہریوں اور حکمرانوں کے اپروچ میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے۔ بھوپال سے کانگریس کے ایم ایل اے عارف مسعود نے ایم پی کے وزیراعلیٰ سے مل کر قربانی اور نمازِ باجماعت کی اجازت دینے کی گزارش کی جب کہ ایک اور بزرگ سیاست داں سنبھل سے رکن پارلیمان و سماج وادی قائد شفیق الرحمان برق نے بھی قربانی کی اہمیت کے پیش نظرعید گاہ میں نماز کی اجازت طلب کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ کو مکتوب سونپا ہے۔ جس پر بی جے پی کے ایک تیز طرار رکن اسمبلی نے نہایت قبیح الفاظ میں ایم پی برق کے خلاف بیان بازی کی۔ میرٹھ اور مظفر پور کی پرتشدد وارداتوں میں سنگیت سوم کا نام بہت آیا تھا۔ سنگیت سوم نے دعویٰ کیا کہ یوگی حکومت ضابطوں کے مطابق چلتی ہے اور برق کو اعظم خان کی مانند جیل میں عید منانی ہوگی کیونکہ برق کے خیال میں قربانی اور عیدگاہ میں اجتماعی نماز سے کورونا کو شکست دی جا سکتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ کہ مدھیہ پردیش کے پروٹم اسپیکر رامیشور یہ دعویٰ کرنے میں رَتّی بھر نہیں شرمائےکہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر شروع ہوتے ہی کورونا بھی بھاگ جائے گا۔ جن لوگوں کو مسلمانوں کے موقف میں خامی نظر آرہی ہے ان کو غیر سائنسی اور توہمات پر مبنی بیانات اور روایات کا نہایت بے باکی کے ساتھ دفاع کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔
مانا کہ برصغیر ایک مذہبی سماج ہے۔ عقائد و روایات کو یہاں کے عوام وخواص بڑی اہمیت دیتے آئے ہیں۔ نیز یہ کہ مغربی ممالک کی طرح سیکولرازم سے مراد یہاں اقتدار اور مذہب کی دوری نہیں ہوتی بلکہ باہمی احترام اور دستوری ضمانتوں کے تحت ہر مذہب کے ساتھ مساویانہ سلوک کو روا رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عملاً اکثریت کی رائے ہی غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔ دستور و ضابطے کا پاس و لحاظ ہی کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل کی بنیاد بن سکتا ہے ورنہ اکیسویں صدی جیسے ترقی یافتہ دور میں رہتے ہوئے بھی جنگل راج اور خانہ جنگی سے انسانی معاشروں کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ اگر جسٹس ارون کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے تو لازم آتا ہے کہ منتخبہ عوامی نمائندوں میں احساس ذمہ داری پیدا ہو جس سے کہ وہ معاشرے میں نفرت، انتشار اور خلفشار پیدا کرنے والے قول وعمل سے احتراز کریں گے۔ لیکن فی زمانہ اپنے ووٹ بینک کو پختہ کرنے یا خوش رکھنے کی خاطر جس طرح کا طوفان بدتمیزی برپا ہے اس ماحول میں یہ لازم ہے کہ ’’نفرت انگیزی والے بیانات‘‘ (Hate Statements)
کے خلاف سخت قوانین وضع کیے جائیں۔ بھولنا نہیں چاہیے کہ دراصل ماب لنچنگ اور گؤ آتنک بھی اسی سوچ کی ایک منظم عملی شکل ہے جس کو انتظامیہ اور سماج کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکام کے باوجود ماب لنچنگ کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا کیا عدالتوں کی توہین نہیں ہے؟ کیا عوامی نمائندوں کے عمل جمہوریت کو خطرے سے دوچار کرنے کا سبب نہیں بن رہے ہیں؟ اسی سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا جانا چاہیے کہ متنازعہ شہریت قانون سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بالخصوص یوپی اور دلی پولیس نے جس انتقامی کارروائی کو وبائی حالات میں بھی جاری رکھا ہے وہ بھی دستور اور عدالتوں کے منشا کے خلاف ہی ہے۔ ایسے میں جسٹس ارون مشرا کے سامنے اگر محبوس نوجوانوں یا سرکردہ سماجی کارکنوں کی ضمانت کا معاملہ آتا ہے تو وہ ایسے غیر ذمہ دار عوامی نمائندوں بلکہ بزعمِ خود قانون کو اپنی جیب میں رکھنے والے حکم رانوں کے خلاف کوئی اصولی موقف اپنا سکیں گے یا نہیں جو کہ محض نظریاتی اختلاف کی بنیاد پراپنے ہی باشندوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں؟
عدلیہ کی بات نکل آئی تو یاد آیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نے بھی بدنام زمانہ غنڈے وکاس دوبے کے معاملے کی سماعت کے دوران نہایت سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اترپردیش حکومت سے سوال کیا تھا کہ مجرمانہ سرگرمیوں کے پانچ درجن سے زائد کیسوں میں ملزم رہے وکاس دوبےکو اس سے قبل مقدموں میں آخر ضمانت پر چھوڑا کیسے گیا؟ چیف جسٹس بوبڑے نے دو ٹوک الفاظ میں اس معاملے کو ’’حکومتی اداروں کی ناکامی‘‘ سے تعبیر کیا اور اس طرح کے ضمانتی احکامات پر ایک رپورٹ بھی طلب کرلی۔ نیز اس انکاونٹر کی جانچ پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایک سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کو اس تفتیشی ٹیم کا حصہ بنایاجائے۔
گاہے بہ گاہے عدالتوں کے ذریعےاس طرح کے مثبت اور حوصلہ افزا اشارے ملک میں نظم و قانون کی بالادستی کے بحال ہونے کی امید کہے جا سکتے ہیں۔ دراصل ملک کے نچلے پائیدان پر کھڑے عوام عدالت اور بالخصوص سپریم کورٹ ہی کو اپنی آخری امید خیال کرتے ہیں تب ہی یہاں تک پہنچتےہیں جب جمہوریت کے دیگر ستون، حکومت و انتظامیہ، مقننہ نیز فی زمانہ میڈیا نے بھی عوام سے منہ موڑ لیا ہو۔ ایسے ہی موقعوں پرگھٹاٹوپ اندھیروں کے بیچ حالات کو کوسنے کی بجائے اپنی سی کوششوں کو جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت کا احساس بھی ایک نئی تازگی فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا عدالتیں اگراپنا وقار پھر بحال کرتی ہیں تو اسی میں جمہوریت کے بقا کی ضمانت ہے اوراسی میں ملک کی صحت و سالمیت کی بھی بقا ہے۔