اداریہ

وکاس کی چتا سے سلگے سوال

خونخوار غنڈے وکاس دوبے کے انکاونٹر کے ذریعے اتر پردیش پولیس کے دامن پر لگے داغ دھلے نہیں ہیں بلکہ مزید گہرے ہوئے ہیں۔ پولیس اور خصوصی تفتیشی دستے (ایس ٹی ایف) کے بھاری بندوبست میں اجین (ایم پی) کے تاریخی مہاکالی مندر سے پکڑ کر وکاس کو واپس اتر پردیش لایا جا رہا تھا۔ کانپور سے بارہ کلومیٹر دور گینگسٹر کو انکاؤنٹر میں مار دیا گیا۔ کسی بھی پولیس انکاؤنٹر کی جو کہانی ہوتی ہے وہی اسکرپٹ اور وہی کرائم سین وکاس دوبے کے سلسلے میں بھی بیان کیا گیا۔ فوری ردعمل تو یہ تھا کہ حکومتیں (ایم پی اور یو پی کی) اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی تھیں، بعض افراد اسے فوری انصاف (Instant Justice) تسلیم کر کے خوش ہو رہے ہیں تو قانون اور حقوق کی دہائی دینے والوں نے وہ تمام سوالات اٹھائے جو کسی اور مڈبھیڑ پر ہمیشہ اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ حزب اختلاف نے متوقع خطوط پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور اقتدار کو گھیرنے میں اپنی توانائی صرف کی، جب کہ ریاستی حکومت اور حکم راں پارٹی مقتول گینگسٹر سے دیگر تمام سیاسی روابط کے گڑے مردے اکھاڑ کر یہ بتا رہی ہے کہ ’تیرا دامن میرے دامن سے زیادہ داغ دار ہے‘۔ سن 1989 سے اب تک یعنی تیس برسوں سے اتر پردیش کے اقتدار سے باہر رہنے والی کانگریس پارٹی کو اتنی راحت کافی تھی کہ بی جے پی، ایس پی اور بی ایس پی جیسی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار پر آتی جاتی رہی ہیں اور اب ان میں سے کوئی کم از کم وکاس دوبے کے ’سیاسی وکاس‘ کے لیے کانگریس کو مورد الزام نہیں ٹھیرا سکتا۔
ایک طرف یہ تمام ردعمل معمول کے مطابق ہیں تو دوسری طرف اصل سوالات سے پردہ پوشی کا سیاسی و سماجی رویہ بھی معمول کے خلاف اور خلاف توقع نہیں ہے۔ ہزاروں برسوں سے انتہائی درجے کی بے رحمی وظالمانہ نظامِ ذات پات کی بندشوں میں جکڑے ہوئے معاشرے میں آج بھی ایسے عناصر زندہ بلکہ سرگرم ہیں جو ایک شاطر زمانہ بدمعاش اور پرلے درجے کے بربر انسان نما حیوان کی حمایت اور پشت پناہی کے لیے کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بحثوں پر ایک سر سری نگاہ ڈالنا کافی ہے کہ اس میں ہمارے بیمار سماج کا چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ مبینہ اونچی ذات کے برہمنوں کا خیال ہے کہ موجودہ ہندتوا وادی و فاسیوادی اقتدار ان کے گروہی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک تاریخی موقع بن کر آیا ہے۔ ہندو قوم پرستی کے گھوڑے پر سوار ہو کر حریت انسانی اور مساوات جیسی جمہوری اقدار کو کچلنے کا کام بے خوف و خطر کیا جا رہا ہے تاکہ ایک مخصوص ذات کی برتری پر مبنی برہمنی سماجی نظام کا از سر نو قیام عمل میں لایا جا سکے۔ مشہور دلت صحافی و دانشور وی ٹی راج شیکھر نے اس کو BSO یعنی براہمنکل سوشل آرڈر کا نام دیا تھا۔ جس میں آریائی نسل کے معدودے چند افراد (3.5 فیصد) کے تمام تر مفادات کو تحفظ حاصل ہوتا ہے اور باقی پورا معاشرہ ان لوگوں کے ماتحت بلکہ غلام بن کر جی رہا ہوتا ہے۔ ایک جملہ معترضہ میں قارئین کو یاد دلا‌ دیں کہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ایک بار کہا تھا کہ ملک کے ذرائع وسائل پر ہر شہری کا، بشمول مسلمان، برابری کا حق ہے، تب سے ہی برہمنی نظام کے علم برداروں نے واویلا مچانا شروع کر دیا تھا کہ ملک کے تمام تر وسائل ایک مخصوص سماج اور ایک سناتن آریائی نظام کے قیام کے حق میں استعمال کیے جانے چاہئیں اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ مبینہ حج سبسیڈی، وقف اور اردو اداروں، ائمہ و مؤذنین یا مساجد کے لیے معمولی امداد ہو یا پس ماندہ ذاتوں اور غریب عوام کے لیے راشن (پی ڈی ایس) نظام یا ملک میں چل رہے رفاہی کاموں پر مختص بجٹ، اس میں لگا تار کٹوتی کی جا رہی ہے اور اس رقم کو پوجا پاٹ، منادر ومٹھوں، نرمدا و گنگا صفائی، یگیہ، ہوم ہون کے نام پر سناتنی ثقافت کے مراکز پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ دراصل عدلیہ، پولیس، انتظامیہ اور سیاست و معیشت جیسے تمام شعبوں پر تسلط حاصل کیے بغیر یہ ایجنڈہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اقتدار پر قبضہ پانے سے قبل ان لوگوں نے ملک و معاشرے کے تقریبا ہر میدان میں اپنے کھلاڑی مختلف ٹیموں میں شامل کر رکھے تھے جو اپنے باہری کپتان کے منشا کے مطابق کھیل کھیل رہے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سرکاری محکموں سے لے کر پولیس اور فوج میں بھی اپنے ہمنوا بڑے پیمانے پر پیدا کیے گئے۔ ہفت روزہ دعوت کے صفحات میں پولیس میں در آنے والی زعفرانی فکر کا جائزہ ایک مستقل کالم سیریز کے ذریعے لیا جاچکا ہے۔
ویب میڈیا پر بعض سینئر صحافیوں نے باضابطہ مثالوں اور اعداد وشمار کے ساتھ اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ آزادی کے بعد سے جرائم پیشہ افراد میں ذات پات کا کردار کتنا اہم ہے۔ اس بات تک کا جائزہ لیا گیا کہ اگر کوئی برہمن جرم کی دنیا میں شامل ہوتا ہے تو بالعموم وہ طویل مدت تک سرگرم رہ سکتا ہے جب کہ پس ماندہ اور بالخصوص مسلمان غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتا ہے تو نوجوانی کی عمر میں ہی قانونی یا غیر قانونی طورپر ان سے زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ غیر برہمن غنڈے کو جلد پھانسی ہو سکتی ہے یا ان کے انکاؤنٹر یا حراست میں مارے جانے کے امکانات کئی گنا زیادہ پائے گئے ہیں۔ اس اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ اس کے پیچھے کار فرما عوام میں فرد کی ذات یا دھرم اور سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کا عمل دخل سب سے زیادہ پایا گیا ہے جس کے باعث اعلیٰ ذات کے مجرموں کو مختلف سطحوں پر ایک سپورٹ بیس فراہم ہوتا رہتا ہے اور جب جب اس سماجی سر پرستی میں کمزوری پیدا ہوئی ہے تب تب اس زمانے کے نظام یا اقتدار کے خلاف اعلیٰ ذاتوں نے بغاوت کی اور اس کا تختہ پلٹ دیا یا اس کو اپنے نظریہ میں ضم کیا یا حکمتاً کچھ عرصے کے لیے سمجھوتہ کرکے یہ قوم خاموش بھی رہی۔ جیسا کہ بعض دلت مصنفین و دانشوروں نے نشاندہی کی ہے کہ جین دھرم کو کیسے کچلا گیا اور سن 830 سے 966 کے درمیان ہندو ازم کی احیائی تحریک برپا کر کے بودھ مذہب سے وابستہ وہار، استوپا اور مورتیاں یا مجسمے بہت بڑے پیمانے پر تباہ کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہت کے خاتمہ کے بعد دور جدید میں جمہور کی رائے کو اہمیت حاصل ہوچکی ہے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور ان کو حقیقی علم اور حقوق و اختیارات سے محروم کرنا ضروری تھا، لہذا پروپگنڈے کا سہارا لیا جا رہا ہے اور اپنی اندرونی سماجی کمزوریوں کو ڈھانپنے اور ملک میں ہر خامی کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھیرانے کا طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ 22 مئی 1982 کے ہاشم پورہ کے قتل عام کے ذمہ دار فوج، پی اے سی اور اتر پردیش پولیس سب ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بنا پر بری کر دیے گئے تھے۔ آج کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے خود اپنی کابینہ کے ذریعے اپنے اوپر عائد مقدمات کو واپس لینے کا کارنامہ انجام دیا اور اقتدار سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ ’بولی سے نہیں تو گولی‘ سے مجرموں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ چنانچہ صرف مارچ 2017 سے مارچ 2018 تک ایک سالہ دور اقتدار میں اتر پردیش پولیس نے قریب 49 ملزمین پولیس انکاؤنٹر میں مار ڈالے گئے، 370 لوگ زخمی ہوئے اور گیارہ سو مڈبھیڑ کی کارروائیاں انجام دی گئیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں کون حقیقی اور کون جعلی تھے اس کی کوئی جانچ تو ہوئی نہیں تھی لہذا اکثر سیاسی اور سماجی حریفوں کو نمٹایا گیا۔ دوسری طرف یو پی اسمبلی کے 80 میں سے 44 ایم ایل اے مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں ان میں سے 30 پر نہایت سنگین جرائم کے الزامات عائد ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یوگی حکومت کے 45 فی صد یعنی قریب نصف وزرا داغدار کیٹگری میں آتے ہیں۔ ایسی حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے غنڈہ عناصر کا ساتھ لیے بغیر چل بھی سکے گی؟ یوں بھی بھارت میں سیاست داں کب مجرم اور مجرم کب سیاست داں بن جاتا ہے اس کو سمجھنا آسان نہیں۔ لہٰذا الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جسٹس اے این ملا نے نصف صدی قبل ایک مشہورِ زمانہ کمنٹ کیا تھا کہ ’’اتر پردیش کی پولیس مجرموں کا ایک منظم گینگ ہے‘‘۔ جنوری 2018 میں قومی حقوقِ انسانی کمیشن (این ایچ آرسی) نے اسی بیان کا اعادہ پھر ایک بار کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اقتدار کی کرسی بدلنے سے جرم کی دنیا کے سیاست اور پولیس کے روابط ختم ہوگئے؟ یہ وہ ’’وکاس‘‘ تو نہیں جس کا وعدہ موجودہ حکم رانوں نے انتخابی مہم کے دوران ملک سے کیا تھا؟ سب کے ساتھ کا عہد کرنے والوں نے صرف مجرموں کا ساتھ لیا اور دیا جب کہ مزدوروں، اقلیتوں اور قبائلیوں کو بے سہارا چھوڑ دیا۔ سوال یہ بھی ہے کہ پولیس ریفارم کی جتنی سفارشات مختلف رپورٹوں میں کی گئی ہیں ان پر عمل درآمد سے سب پارٹیاں کیوں پہلو تہی کرتی آئی ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک وکاس گولیوں سے بھون دینے کے بعد کتنے راز اس کی چتا کے ساتھ ’سواہا‘ (نذر آتش) کردیے گئے اس کے لیے آخر کوئی جوابدہ ہے کہ نہیں؟
ایک لامتناہی سلسلہِ سوالات کے بیچ اہم سوال یہ ہے کہ جس ملت کے پاس خالق کا بنایا ہوا نظام عدل موجود ہے اس کی حکمتوں اور برکتوں سے ملک کے مقہور و مجبور عوام کو واقف کرانے کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہیوں کا ہم کب اعتراف کریں گے؟ نیز اقامتِ دین کے ہمہ گیر تقاضوں کی تکمیل کے لیے سب مل کر کب کمربستہ ہوں گے؟ اگر یہ منصبی فریضہ انجام نہیں دیا گیا تو باقی جو کچھ بھی کیا جائے گا اس کی حیثیت محض لیپا پوتی کی ہوگی۔


ایک طرف یہ تمام ردعمل معمول کے مطابق ہیں تو دوسری طرف اصل سوالات سے پردہ پوشی کا سیاسی و سماجی رویہ بھی معمول کے خلاف اور خلاف توقع نہیں ہے۔ ہزاروں برسوں سے انتہائی درجے کی بے رحمی وظالمانہ نظامِ ذات پات کی بندشوں میں جکڑے ہوئے معاشرے میں آج بھی ایسے عناصر زندہ بلکہ سرگرم ہیں جو ایک شاطر زمانہ بدمعاش اور پرلے درجے کے بربر انسان نما حیوان کی حمایت اور پشت پناہی کے لیے کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ س