اداریہ

پڑھائی کورونا، آتم نِربھر بنو نا!

4 ؍اگست 2009 کو بھارت کی پارلیمنٹ نے حقِ تعلیم قانون منظور کیا تھا جس میں دستور کی دفعہ 21۔اے کے تحت 6 تا 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا نظم کرنا مطلوب ہے۔ آرٹی ای قانون کے تحت نجی وکارپوریٹ تعلیمی اداروں میں سماج کے کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ایک چوتھائی (25فیصدی) سیٹیں مختص کرنا لازم ہے۔ آج مزدوروں کی فکر تو کی جارہی ہے لیکن ان کے بچوں کی تعلیم کا جو نقصان اس دوران ہورہا ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہے جب کہ مفت اور لازمی معیاری تعلیم ملک کے تمام بچوں کا قانونی حق ہے۔ حتیٰ کہ سنہ 2002 کی 86 ویں دستوری ترمیم کے ذریعے بچوں کی تعلیم کا حق دستورکے ’’بنیادی حقوق‘‘ میں شامل کر دیا گیا ہے۔ گویا حکومت قانوناً پابند ہے کہ وہ 6 تا 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا معقول انتظام کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیفارم، کاپیوں، کتابوں، پڑھائی، ادارے کی کسی کیپیٹیشن فیس وغیرہ کی ادائیگی کرنے کے لیے بچے سے نہیں کہا جا سکتا۔ نیزاس قانون کے تحت تمام والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو لازماً (مکان سے ایک کلومیٹردائرہ کے اندر) اسکول میں داخل کرائیں۔
بچوں کے ’’تعلیم کے حق‘‘ کو بَھلا کیونکر نظر انداز کیاجاسکتا ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب کہ بھارت کو کورونا کے بعد کے زمانے میں ’’آتم نِربھر‘‘ اور ’’وِشوَگرو‘‘ بنانے کے خواب نیتاؤوں کے ذریعے باشندگان ملک کو دکھائے جا رہے ہیں، جب کہ ’بیٹی بچاؤ،بیٹی پڑھاؤ‘، گؤماتا اور بھارت ماتا جیسے نعروں کے ذریعے صنف نازک کی عزت و توقیرکے ڈنکے بجائے جا رہے ہیں تو ملک کی بیٹیوں کو اسکول و کالج سے باہررکھناکیاجرم نہیں ہوگا؟
ترک وطن کرنے والے مزدوروں کی تعداد سنہ 2010 کی مردم شماری کے مطابق 4 کروڑ تھی اور اب مختلف اندازوں کے مطابق شہروں میں آکربسنے والےمزدور 8 سے 12 کروڑ بتائے جا رہے ہیں جو واپس اپنے اپنے دیہاتوں کو لَوٹ رہے ہیں جہاں ان کی اولادوں کا تعلیمی مستقبل غیر یقینی حالات سے دوچارہوگا۔ تمل ناڈو سے اترپردیش لوٹ آئے ایک مجبور خاندان نے اناج کی خاطراپنے سونے کےزیورات کو محض 15 سو روپیوں میں فروخت کر ڈالا۔ ان خبروں کے بیچ کون خیال کر سکتا ہے کہ روزی روٹی سے محروم مزدوروں کی اولادیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کا سوچ بھی سکیں گی؟
اس دوران ملک کے تحقیقی اداروں سے کورونا وائرس سے احتیاط، حفظان صحت اور ادویہ نیز ایپ، ڈرون، مشینری، طبی آلات وغیرہ کی ایجادات کی خبریں آتی رہیں۔ ان سب سرکاری و غیر سرکاری کمپنیوں اور اسٹارٹ اَپ نے مُتموّل، آسودہ حال لوگوں ہی کو مرکزِ توجہ رکھا۔ اصلاً جن مزدوروں، بے روزگاروں پر لاک ڈاؤن کی زد سب سے زیادہ پڑی ان کی دشواریوں کو کم کرنے والے کہیں نظر نہیں آئے البتہ مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے ہر جگہ دکھائی دیے۔ یہاں مخلص خدمت گزاروں اور بے لوث قربانی پیش کرنے والوں کو نظر اندازکرنا مقصود نہیں ہے لیکن بالعموم پولیس، حکم رانوں، انتظامیہ اورافسروں کا رویہ اس بات کی گواہی دیتا رہا کہ ان کی سوچ اور ان کے فیصلوں میں ’’عام آدمی‘‘ کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے۔ ریل اور ہوائی مسافروں کے لیے الگ پیمانہ، طلبا اور مزدوروں کے لیے الگ طرح کے انتظامات اور حکم رانوں کے لیے جداگانہ ضابطے بنائے گئے۔ مزدوروں کے لیے ریل گاڑی چلائی بھی گئی تو ٹکٹ کی قیمت وصول کی گئی جبکہ راجستھان اور گجرات میں راجیہ سبھا کے لیے ووٹوں کی ضرورت آن پڑی ہے تو عوامی نمائندوں کی خاطرداری کرنے کا فائیو اسٹار ریزارٹ میں مفت انتظام کر دیا گیا۔ حالانکہ ان سب کو کورونا وائرس اور بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے اپنے انتخابی حلقوں میں عوام کے بیچ ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے اب تک کسی ریاست میں نظام تعلیم، امتحانات اور نئے سال کے لیے داخلوں کا کوئی کارگر منصوبہ نہیں بنایاہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے تیار کردہ 55 صفحات پر مشتمل ’نئی تعلیمی پالیسی‘ (NEP)کے تحت 3 سے 6 برس کے بچوں کی تعلیم پرزور تو دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے سرکاری فنڈ کے ذریعے لزوم اور ذمہ داری طئے کرنے کے بجائے بعض غیرتربیت یافتہ ’’مقامی رضاکاروں، سماجی کارکنوں اور کونسلروں‘‘ کا تقرر کرنے اور ان کے ذریعے تعلیم فراہم کرانے کے ایک نا معقول طریقے کی تجویز دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آر ایس ایس کے پرچارکوں کو شامل کرنے اور معصوم ذہنوں کومسموم کرنے کی ایک چال ہی ہے۔ برہمنی سوچ وفکر اور تعصب وتفریق پر مبنی نظام کے لیے راہ ہموار کر کے ’ہر ایک کےلیے تعلیم‘ (Universalisation of Education)کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ملک کی آبادی کے 85 فی صدی بہوجن (اکثریتی آبادی والے) سماج کے بچے، گنے چنے نچلے درجے کے یا شارٹ ٹرم پیشہ ورانہ کورسوں میں جبکہ برہمنوں کے بچے اعلیٰ تعلیم کی پائدانوں پر کھڑے نظر آئیں گے۔ پھر بھلا کیسے کورونا کی مار جھیلنے والا سماج نجی اداروں کی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے لائق رہ پائے گا؟ لا محالہ ان کو حکومت کے دل لبھانے والے ’’اسکِل انڈیا‘‘ اور ’’میک اِن انڈیا‘‘ جیسی اسکیموں کے تحت کم آمدنی والے پیشوں میں دھکیل دیاجائے گا۔ کورونا اور لاک ڈاؤن کے بعد آئی بدحالی کے نتیجے میں طلباء کے اسکول ڈراپ آؤٹ کی شرح میں زبردست اضافہ درج ہونے کا اندیشہ ہے۔ پھر ان ترک تعلیم کر چکے نوجوانوں کو کارپوریٹ اور سرمایہ داروں کے ذریعے ایک سستے لیبر فورس کی شکل میں استعمال کیے جانے کے سوا اور کیا کام بچے گا؟
اعلیٰ تعلیم سے کھلواڑاور ابتدائی تعلیم میں طبقاتی، لسانی، مذہبی اور اونچ نیچ پر مبنی نظام تعلیم کا نقشہ تیار کر لیا گیا ہے۔ گویا ملک کی ایک بڑی آبادی کو لازمی تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اولاً ان حالات سے متاثرہ بچوں کی تعلیم کے لیے ’’پی ایم کیئر فنڈ‘‘ سے مکمل انتظامات کرنے کی ضرورت تھی لیکن وزیر اعظم نے کورونا بحران کے دوران جب بھی خطاب کیا ہے یا جو معاشی پیکج بنایا گیا ہے ان سب میں کہیں تعلیم کی مد میں رقم کی فراہمی تو دور کی بات ہے اس ضرورت کا کوئی تذکرہ تک نہیں ہے۔ مثلاً وزیر اعظم نے ’خود مُکتفی بھارت‘ کے خواب دکھائے اور اس کو پورا کرنے کے لیے مَنتر بھی دیا لیکن اس میں تعلیم نام کی کوئی شئے نظر نہیں آتی۔ جبکہ اساتذہ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور بچوں کا مستقبل دن بہ دن تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس زیادہ پھیل رہا ہے تو مختلف ریاستوں میں اسکولی ویونیورسٹی امتحانات کے انعقاد کا اعلان کیا جارہا ہے جس سے طلبا کی جانوں کو خطرہ ہی لاحق ہوگا۔ان حالات میں یہی کیا جا سکتا ہے کہ مقامی سطح پر افراد، ادارے طلبا وطالبات کو مفت تعلیم فراہم کرانے کے منصوبے پر کام کرنے لگے ہیں، بعض گروپوں نے کتابوں، یونیفارم یا اسی طرح کے جزوی اخراجات کو برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، کچھ دیگر نے فیس نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کی سوچ کو دیہات کی سطح پر لے جانے کےلیے ایک تحریک کی شکل میں آگے بڑھانا ہوگاتاکہ قریہ قریہ بچوں کے مسقبل کوبچانے کا کام انجام دیا جاسکے۔ اسی میں ملک اور اگلی نسلوں کا مستقبل پنہاں ہے۔
اسی اثنا ایک مثبت خبر بھی آئی کہ وزارت فروغِ انسانی وسائل نے 11 جون کو نیشنل انسٹیٹیوشنل رینکنگ فریم ورک (NIRF) کے تحت ملک کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ دنوں اقتدارکے جبر کی شکار دونمایاں یونیورسٹیاں، جے این یو اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اس فہرست میں ٹاپ ٹین میں شامل ہیں۔