اداریہ: ہاتھرس سے ہیتھرو تک
بھارت کے معاشرے میں نہ تو ظلم و جبر اور زیادتی نئی ہے اور نہ ذات اور جنس کی بنیاد پر ہونے والے جرائم نئے ہیں۔ اسی لیے شاید چھ سال نہیں، چھ صدیاں نہیں بلکہ چھ ہزار سال سے جاری سماجی تفریق اور اس نظام زندگی سے پیدا ہونے والے کڑوے کسیلے پھل کھانے کو ملک کا ایک قابل لحاظ طبقہ آج بھی اپنی مجبوری سمجھتا ہے یا اپنی کہتری اور پسماندگی کو اپنی ازلی تقدیر مان کر زندگی گزارتا آیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ زمانے کی ترقی اور کچھ پسماندہ عوام کو ملے خصوصی تحفظات کے سبب ان میں تعلیم اور معاش کے اعتبار سے کسی قدر بہتری آئی ہے لیکن ہندی میں کہاوت ہے کہ ‘جو نہ جائے وہ جات’ مطلب یہ کہ ہمارے سماج میں ”ذات“ کا تصور اور اس کی جڑیں اس قدر گہرائی تک پیوست ہیں کہ اس کے خاتمے کا کوئی خیال ہی نہیں کر سکتا۔ آج سے تقریباً بیس سال قبل ہاتھرس کی انیس سالہ دلت مظلومہ کے دادا اور اس کی عصمت دری کے ایک ملزم کے دادا کے بیچ ذات کے تنازعے کے حوالے سے ایس سی۔ایس ٹی ایکٹ کیس ہو چکا تھا۔ ہاتھرس کے اس گاؤں میں پسماندہ والمیکی سماج سے تعلق رکھنے والے گنے چنے چار چھ خاندان ہیں جو برہمنوں اور ٹھاکروں سے گھرے رہتے ہیں۔ ایک معروف ٹی وی چینل کی نامہ نگار کو ہاتھرس پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملک بھلے ہی ہائپر سونک ٹکنالوجی کے میزائل آسمان میں بھیج رہا ہو لیکن اکیسویں صدی کے ”سَشَکت“ یعنی مضبوط بھارت میں کمزور دلت طبقوں پر طاقتور اعلیٰ ذاتیں ایسی حکمرانی کرتی ہیں کہ اگر کرانے کی دکان میں رکھے کسی بسکٹ کو کسی دلت کا ہاتھ بھی غلطی سے چھو جائے تو انہیں چاہے اَن چاہے وہ پیکٹ قیمتاً خریدنا پڑتا ہے کیوں کہ پھر کوئی برہمن یا ٹھاکر اسے نہیں خریدے گا۔ حد تو یہ ہے کہ سودا سلف لینے کے بعد دلت کے ہاتھ سے ادا کی گئی رقم پر بھی دکان دار پانی چھڑک کر اسے’’پَوِتر‘‘کرتا ہے۔ دراصل منو اسمرتی کے شاستروں میں برہما کے مختلف اعضاء سے پیدا ہونے والی نسلوں کی بنیاد پر ایک مخصوص طبقاتی نظام وجود میں آنے کی بات کہی گئی ہے۔ جس کے تحت ’ورن‘ اور ’ذات‘ کی بنیاد پر ان کا ہندو سماج تشکیل پاتا ہے۔ معروف معنیٰ میں اسی کو برہمن واد سے تعبیر کیا جاتا ہے جو برہمن، چھتریہ، ویشیہ اور شودر جیسے چار ’ورن‘ پر مشتمل ہے۔ اس سماجی نظام کے دائرے سے باہر ایک پانچواں طبقہ ہے جسے فی زمانہ دلت کہا جاتا ہے جو اصلاً پانچواں، آؤٹ کاسٹ، اتی شودر، اسپرشیہ، انتیج (Outcaste, अतिशूद्र, अस्पृश्य, अंत्यज) جسیے ناموں سے معنون ہے. حیرت کی بات نہیں کہ اس پانچویں پسماندہ دلت طبقے کے اندر بھی مزید اَچھوت طبقے پائے جاتے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔ اس پیچدہ نظامِ ذات پات میں ہر ایک پائیدان پر رہنے والی ذات اپنے سے نچلے پائیدان کی ذات کو اپنے سے حقیر سمجھتی ہے۔ لفظِ دلت کے معنیٰ ہی ہوتے ہیں کچلا ہوا، پِسا ہوا یا زیرِ قدم! اس طرح برہمن کے نیچے تمام ذاتیں اور ان کے نیچے دیگر ذاتیں بھی کسی نہ کسی مرحلے اور شکل میں اپنے سے نچلوں کے لیے اعلیٰ یعنی کسی درجہ ’برہمن‘ ہی کے رول میں برتاؤ کر رہی ہوتی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہندی علاقے میں مہا دلت طبقہ بھی پایا جاتا ہے حالانکہ ان طبقون کے لیے ماضی میں چمار، بھنگی، مَہار وغیرہ الفاظ استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن ایک پارلیمانی قانون کے ذریعے اس طرح کے الفاظ پر اب پابندی عائد ہے۔ معروف دلت مفکر و صحافی چندربھان پرساد نے اس تاریخی و نظریاتی تناظر میں حالیہ ہاتھرس کی واردات پر جو تبصرہ کیا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
ہاتھرس معاملہ ظالم اور مظلوم قوم کے بیچ محض ایک علامتی واقعہ ہے۔ جب جب دلت کو کچلا جاتا ہے تب تب اعلیٰ ذات کا ’موڈ‘ خوش گوار ہو جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں ذات پات پر مبنی نظام کسی نہ کسی دیگر حکمرانی کے نظام کے اندرون میں چل رہا تھا۔ چندربھان کی رائے میں تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب بی جے پی یا آر ایس ایس کے زیرِ انتظام، سیاست اور ذات پات کے نظام ایک دوسرے میں ضم ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زنا بالجبر اور قتل کا واقعہ ہاتھرس کے دلتوں کے خلاف بدلے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس عمل میں کلکٹر اور ایس پی وغیرہ بھی ایک جزو بن گئے ہیں جو کہ کھلم کھلا مقتولہ کے خلاف اور ٹھاکروں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہونے کو بھی غلط خیال نہیں کرتے بلکہ اس پر فخر جَتاتے ہیں۔ اسی لیے مظلوم لڑکی کی لاش کو نصف شب میں نذرِ آتش کرنے کے دوران انتظامیہ کی جانب سے جائے واردات پر موجود نمائندوں کے لبوں پر مسکراہٹ دیکھی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ اس رسم ادائیگی کی والدین سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت تک نہیں ہوتی۔ خاص کر تب جب کہ منو کے شاستروں کے مطابق غروب تا طلوع کے دوران کسی لاش کی آخری رسومات انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ گویا کہ اپنی ’ذات کا فرض‘ نبھا کر انہوں نے دلت انقلاب کے خلاف اپنی ڈیوٹی ادا کی ہے۔ حالانکہ پولیس اور سرکاری عملے میں قابل لحاظ تعداد میں دلت اسٹاف اور افسران موجود ہیں لیکن عملاً وہ حاشیے پر ہیں اور بے اثر بنا دیے گیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب کہ بھیم آرمی کے بانی سربراہ و دلت رہنما چندر شیکھر آزاد راون مقتولہ کے اہل خاندان سے ملنے ہاتھرس پہنچے تبھی ٹھاکر سماج نے بچی کے مکان کے باہر انھیں دھمکی دی۔ چاروں گرفتار ملزمین کی حمایت میں درجنوں گاؤں کی اعلانیہ پنچایت منعقد کی گئی اور بائیس گاؤں میں آبروریزی و قتل کے ملزموں کی حمایت میں باضابطہ ریلیاں نکالی گئیں سو الگ۔ یہی سوچ ہے جو کمزور کو انصاف سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ شمال سے لے کر جنوب کے چینئی میں آج بھی بسوں میں پہلے اعلیٰ ذاتوں کو بیٹھنے دیا جاتا ہے اور دلتوں کو ان سے دور علاحدہ قطار میں کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ یعنی میٹروپولیٹن شہروں کی سرکاری بسوں میں آج تک یہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔
این سی آر بی کے تازہ ترین (٢٠١٩) کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں روزآنہ ٨٨ خواتین جنسی تشدد کی شکار ہو جاتی ہیں ان ملزمان میں سے ٢٨ فی صد ہی سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے دعوؤں کے مطابق دلتوں کی عصمت دری کی وارداتوں میں کموبیش نوے فی صد برہمن، ٹھاکر یا ان کی ہم پلہ اعلیٰ ذاتوں کے درندے ہی ملزم یا مجرم قرار دیے گیے ہیں۔ گجرات میں ٣-٤ اکتوبر کے دو دنوں میں تین خواتین و لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری کی گھناؤنی وارداتیں انجام دی گئی ہیں۔ یوپی کی مختلف مقامات پر تب بھی عورتوں پر مظالم بدستور جاری تھے جب قومی و بین الاقوامی میڈیا ہاتھرس پر نگاہیں مرکوز کیے ہویے تھا۔
دسمبر ٢٠١٢ کے بدنام زمانہ دلی آبروریزی و قتل کے بعد منموہن سنگھ نے بجٹ میں ایک ہزار کروڑ روپے نربھیا فنڈ کی مد میں ٣٢ پروجیکٹوں اور اسکیموں کے لیے مختص کیے۔ اب اس بجٹ کی رقم ٧ ہزار ٧٣٦ کروڑ ٦٦ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ متعلقہ وزارتوں نے سابقہ سات برسوں میں محض ٢ ہزار ٦٤٦ کروڑ روپے جاری کیے۔ ریاستوں کے لیے ون اسٹاپ سینٹر سے پولیس، طبی امداد، ذہنی کونسلنگ، سنگل ونڈو انصاف رسانی سسٹم جیسے اقدامات اس میں شامل ہیں۔ ان اقدامات اور خطیر فنڈنگ کے باوجود حالات ناگفتہ بہ بنے ہوئے ہیں۔ سن ٢٠٠١ء میں نسل، نسلی تفریق، نفرت انگیزی اور عدم برداشت کے خلاف جنوبی افریقہ کے ڈربن میں ایک عالمی کانفرنس ہوئی تھی جس میں مختلف نمایاں شخصیات اور حقوق انسانی کے دفاع میں سرگرم عمل کارکنوں کی جانب سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ نسل پرستی جتنی نقصان دہ ہے اتنی ہی غیر قانونی، غیر انسانی، انصاف دشمن ذات پات بھی ہے جو خالصتاً بھارتی سماج اور ثقافت کا خاصہ ہے۔ ساتھ ہی یہ عمل اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے چارٹر اور بین الاقوامی معاہدوں کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا ذات کو بھی تفریق پر مبنی قبیح عمل مانا جائے اور اقوام متحدہ اس غیر انسانی تفریق کے وجود کو تسلیم کرے اور غیر قانونی قرار دے۔ یہ روایت خود آئینِ ہند کی دفعات ١٤، ١٥، ١٦ اور ١٧ سے بھی متصادم عمل ہے۔ ستی، دیوداسی، چھوت چھات کی آڑ میں سوشل ڈسٹینسنگ کی قدیم ترین روایات کی بھی مہذب اور ترقی یافتہ سماج میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ان دلائل کے باوجود اس وقت کی بھارتی حکومت نے اس ورلڈ کانفرنس اگینسٹ ریشیزم (WCAR) میں انصاف پسندانہ موقف اپنانے کے بجائے یہ جواب دیا تھا کہ ’’اس قدر قدیم روایت کو اتنی تیزی کے ساتھ ختم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ بھارت نے یہ موقف پیش کیا کہ ’ذات پر مبنی تفریق نسلی تفریق‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کا موقع اگر پھر آئے تو سوچا جا سکتا ہے کہ موجودہ ہندوتو وادی حکومت کا موقف سابقہ روایت سے مختلف نہیں ہوسکتا تو کیا یہ تفریق بھارتی سماج کا مقدر بنی رہے گی؟ چونکہ تمام قانونی اقدامات اور طویل سماجی مزاحمت کے باوجود قومی سطح پر اس روایت کو ختم نہیں کیا جاسکا لہٰذا بین الاقوامی سطح پر دباؤ بنانے کا متبادل راستہ خود قومی اور بین الاقوامی دلت ادارے اور تنظیمیں اختیار کرتی جا رہی ہیں۔امبیڈکر انٹرنیشنل مشن اور کئی برطانوی اور امریکی گروپوں نے برطانوی ممبران پارلیمان افسانہ بیگم، جون میکڈانل، کِم جانسن، بیل ریبیرو۔ایڈی اور پاؤلا پارکر نے اقوام متحدہ کو مکتوب روانہ کیا ہے جس میں تیس سے زائد خواتین و دلت گروپوں نے ہاتھرس عصمت دری وقتل کے ساتھ ساتھ موجودہ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں بالخصوص دلت خواتین کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمشنر میچیل بیچیلیٹ کو لکھا ہے کہ ہاتھرس اکلوتا اور علیحدہ کیس نہیں ہے بلکہ خواتین اور پسماندہ طبقوں کے خلاف منظم حملوں کی ایک کڑی ہے۔ لہٰذا اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر دباؤ ڈالے کہ وہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو برطرف کر دیں۔حالانکہ وزیر اعلیٰ فی الحال تو اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں الٹے ملک اور ریاست میں بدامنی پھیلانے کی سازش رچنے کا الزام حزبِ اختلاف کے سر تھوپ رہے ہیں۔ بقول ان کے اپوزیشن کو ان کا وکاس وترقی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ حد تو یہ کہ ہاتھرس کی آڑ میں ذات و طبقات کے تصادم کی بین الاقوامی سازش کے الزام میں ایک شکایت یوپی پولیس نے درج کر دی ہے۔ درآنحالیکہ ہاتھرس کی بدنامی کا جہاز یو پی سے نکل کر لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے پر اتر چکا ہے لیکن’جمہوریت کی آبروریزی‘ سے تعبیر اس واردات سے پیدا شدہ مشکل حالات میں بھی ہمارے حکمراں فرعونی اور نمرودی رویے نیز ’اخلاقی بدعنوانی‘میں غرق ہیں۔ شاید ہاتھرس پر اٹھے غم و غصے کے وبال سے سبق لے کر ہمارے معاشرے میں آئی یہ بیداری پائیدار تحریک کی شکل اختیار کر لے تو مقتدر طبقہ کچھ ہوش کے ناخن لے۔
اقوام متحدہ کو چاہیے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر دباؤ ڈالے کہ وہ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو برطرف کر دیں۔حالانکہ وزیر اعلیٰ فی الحال تو اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں الٹے ملک اور ریاست میں بدامنی پھیلانے کی سازش رچنے کا الزام حزبِ اختلاف کے سر تھوپ رہے ہیں۔ بقول ان کے اپوزیشن کو ان کا وکاس وترقی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ حد تو یہ کہ ہاتھرس کی آڑ میں ذات و طبقات کے تصادم کی بین الاقوامی سازش کے الزام میں ایک شکایت یوپی پولیس نے درج کر دی ہے۔ درآنحالیکہ ہاتھرس کی بدنامی کا جہاز یو پی سے نکل کر لندن کے ہیتھرو ہوائی اڈے پر اتر چکا ہے لیکن’جمہوریت کی آبروریزی‘ سے تعبیر اس واردات سے پیدا شدہ مشکل حالات میں بھی ہمارے حکمراں فرعونی اور نمرودی رویے نیز ’اخلاقی بدعنوانی‘میں غرق ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020