اداریہ: گلا گھونٹتا قانون
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سب سے پرانی حلیف شیو سینا نے این ڈی اے کا ساتھ کیا چھوڑا، بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے ’اچھے دن‘ ہی لَد گئے۔ شیو سینا کے بعد بی جے پی کی سب سے قدیم حلیف پارٹی شِرومنی اکالی دل بھی اس اتحاد سے اپنا رشتہ توڑ لینے کو بے تاب نظر آرہی ہے یا شاید مودی میجِک کے ماند پڑنے کے اندیشوں اور بدلتے حالات کے دباؤ کے تحت اکالی دل کی مرکزی وزارت میں اکلوتی نمائندہ ہرسمرت کور بادل نے وزارت سے استعفیٰ دینے میں اپنی عافیت سمجھی ہے۔ اتر پردیش کے بعد این ڈی اے کو مضبوط بنانے میں ہریانہ، پنجاب اور بہار جیسی ریاستوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ امسال بہار کے بعد 2022 میں پنجاب میں اسمبلی انتخابات متوقع ہیں اور ”شت پرتیشت“ (صد فیصد) بھاجپا کا نعرہ بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو ہمیشہ اپنے وجود کے بارے میں تشویش میں مبتلا کرنے والا ثابت ہوگا۔ پنجاب میں بی جے پی، اکالی دل سے زیادہ حصہ داری طلب کرنے کے فراق میں تھی۔ لہٰذا اکالی دل نے مودی کابینہ سے علیحدگی اختیار کر کے ایک تیر سے دو نشانے سادھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف احتجاجی کسانوں کے غیظ و غضب سے بچنے کا راستہ ہموار کر لیا اور دوسری طرف پنجاب میں بی جے پی کے بڑھتے عزائم کو بھی لگام دینے کا کام کیا ہے۔
بھارت جیسے ملک میں جہاں 80 فیصد سے زائد کسانوں کے پاس شاید ایک ایکڑ یا اس سے بھی کم رقبے کی زمین ہے اور ان کسانوں کو بھی سال کے تمام مہینوں میں روزگار یا آمدنی میسر نہیں۔ زرعی شعبے کا ملک کی جی ڈی پی میں قریب ایک چوتھائی حصہ تو ہے لیکن ملک کے مجموعی روزگار میں دو تہائی سے زیادہ روزگار اس شعبے سے جڑا ہوا ہے پھر بھی یہ غیر منظم شعبہ بنا ہوا ہے جنہیں اناج، روزگار، تعلیم و صحت یہاں تک کے متعدد سرکاری اسکیموں سے استفادہ کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہوتی ہے۔ اُن کو اقل ترین امدادی قیمت (ایم ایس پی) ایک سہارا تھا لیکن ماہ جون میں کورونا راحتی پیاکیج کے ساتھ ’’زرعی اصلاحات‘‘ کے خوشنما الفاظ میں جو آرڈیننس لائے گئے تھے اب وہ پارلیمان میں ہنگامہ آرائی کے ماحول میں باضابطہ قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس اقدام کو وزیر اعظم، وزیر زراعت، وزیر دفاع اور حکمراں جماعت ’’انقلابی‘‘ نیز ’’تاریخ ساز‘‘ اقدام قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب خود کسان برادری اس کو شعبہ زراعت کے تابوت میں آخری کیل اور حزب اختلاف جسے ’’کسانوں کے خلاف موت کا فرمان‘‘ یہاں تک کہ ’’کالا قانون‘‘ تک کہہ چکا ہے۔ ان کسان قوانین سے پہلے اپنی خصلت کے مطابق مودی حکومت نے نہ تو حزب اختلاف کو اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش کی اور نہ کسانوں سے اس کی ترمیمات اور تجاویز پر کوئی صلاح و مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ یہاں تک کہ پارلیمان میں ووٹنگ سے قبل زرعی بلوں کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے پر بھی حکومت آمادہ نہ ہوئی۔ راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کو عددی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود حکمراں جماعت نے جمہوری اقدار اور دیانت داری کی تمام روایات کا گلا گھونٹ کر صوتی ووٹوں کے بل پر یہ انتہائی متنازعہ زرعی بل پاس کروا لیے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے ہریانہ، پنجاب اور اتر پردیش کے کسان دلی کی سرحدوں پر ڈیرہ جمانے کی کوشش میں رہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ عوام نے ٹی وی اسکرین پر کسانوں کو پیاز جلاتے ہوئے اور دودھ سڑکوں پر بہاتے ہوئے دیکھا تھا، درآں حالیکہ کورونا وبا کی مار جھیلتے لاکھوں خاندان کھانے کے لیے ایک ایک دانے کو محتاج ہیں، ان کی بھوک نہیں مٹائی جا سکی، چنانچہ آج کسان کو بھی ایک نئی جنگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ خود بھارت کے مِڈل کلاس کے قریب 60 لاکھ روزگار بری طرح متاثر ہونے کے جائزے سامنے آ رہے ہیں۔ CMIE یعنی ہندستانی معیشت کی نگرانی کے مرکز کے مطابق اپریل تا جولائی تک ایک کروڑ 89 لاکھ ملازمتیں چھینی جا چکی ہیں لیکن ہماری حکومت کو مزدوروں، ڈاکٹروں اور کسی کی اموات کی بھی خبر نہیں ہے تو ایسی صورت میں وہ کسانوں کی خود کشیوں کے اعداد و شمار کیوں کر اجاگر کرنا چاہے گی؟
کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنا تو دُور حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود وہ حزب اختلاف اور برہم کسانوں کو قائل نہیں کر سکے۔ تبھی تو 17ستمبر کو سوشل میڈیا نے وزیر اعظم مودی کے یوم ولادت کو ’قومی بے روزگار دن‘ کے طور پر منایا اور اب ’کسان مخالف نریند رمودی‘ اور ’کسان کی آواز‘ جیسے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ کروایا گیا۔ اس سے قبل ناراض طلبہ برادری کی جانب سے من کی بات کو منفی ریٹنگ مل چکی تھی۔ پھر بھی حکومت ہوش کے ناخن نہیں لے رہی ہے۔ زرعی بل کی مخالفت میں اور سرمایہ داروں کے چنگل میں کسانوں کو دیے جانے سے بچانے کے لیے 25 ستمبر کو ملک گیر پیمانے پر بھارت بند و احتجاج کا منصوبہ ہے۔ حالاں کہ حسب عادت بی جے پی اور اس کے حواریوں نے اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے بڑھتی آبادی کا شوشہ سوشل میڈیا پر چھوڑ دیا ہے۔ سیاست میں ہر روز اداکاری کے نئے نئے جوہر دکھانے والی کنگنا رنوت نے احتجاجی کسانوں کو ویسے ہی ’’دہشت گرد‘‘ کے لقب سے نوازا ہے جیسے سی اے اے مخالف تحریک سے وابستہ لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا۔
آزادی کے وقت جس کسان کی آمدنی ایک روپیہ تھی اس کی آمدنی آج بمشکل تمام 21 روپے تک پہنچ پائی ہے جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ان کے مقابلے میں سیکڑوں گنا زیادہ ہو چکی ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسان خود کشی پر مجبور ہے کیوں کہ کسی بھی حکومت نے ایمان داری سے کسانوں اور زرعی شعبے کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں ہاں! انتخابات میں ’’جئے جوان، جئے کسان‘‘ جیسے نعرے ضرور دیے جاتے رہے۔ اب موجودہ قوانین کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایم ایس پی برقرار رہے گا۔ کسانوں کو منڈی (بازار کمیٹی) کے باہر بھی فصل فروخت کرنے کا کھلا موقع حاصل ہوگا نیز، آنے والے دنوں میں کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ممکن ہے۔ دوسری جانب کسانوں کو اندیشہ ہے کہ ان بلوں کے بعد زرعی شعبہ بڑے کاروباریوں کے لیے کھل جائے گا، اے پی ایم سی اور منڈی نظام کمزور ہونے کے نتیجے میں اقل ترین امدادی قیمت سے بھی کسان محروم ہو جائے گا، ذخیرہ اندوزی کا دروازہ کھلے گا جس سے بڑے کارپوریٹ کمپنیوں کو ہی فائدہ پہنچے گا۔ کسان کھلے مارکٹ کے رحم و کرم پر رہنے کو مجبور ہو جائیں گے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ زراعت ریاستی موضوع ہے نہ کہ مرکزی۔ لہٰذا یہ بل وفاقی (فیڈرل) نظام کے بھی خلاف ہے۔ کُل ملا کر زرعی مصنوعات اور مارکیٹ کو نجی کاری کی راہ سے چنندہ کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں میں سونپنے کی راہ ہموار ہو گی۔ حکومت یہ کہہ کر اپنا پلہ کیسے جھاڑ سکتی ہے کہ حزب اختلاف کسانوں کو بہکانے اور ورغلانے میں لگا ہوا ہے؟ یہی منطق حکومت نے نوٹ بندی، جی ایس ٹی، شق 370 اور بالآخر متنازعہ سی اے اے مخالف تحریک یہاں تک کہ کورونا وائرس کے دور میں NEET امتحانات کے مخالف طلبہ کے خلاف بھی استعمال کی تھی۔ کیا سڑکوں پر اترے ہزاروں لاکھوں کسان کسی لیڈر کے بہکاوے میں آسکتے ہیں؟ دراصل انہیں تو ان قوانین میں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ حالاں کہ بھارت میں یہی وہ شعبہ ہے جو بازار میں مانگ سے زیادہ پیداوار عطا کرتا ہے اور ایف سی آئی کے اناج سے بھرے گوداموں پر خود حکومت بھی فخر جتاتی ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ کسانوں کی آمدنی کو مہنگائی کی شرح سے مربوط کرنے پر غور کیا جائے۔ زرعی شعبے سے منسلک دیگر صنعتوں کے ساتھ روزگار اور آمدنی میں اضافہ کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اطلاعاتی تکنیک اور ڈیجیٹل نیٹ ورکنگ کا استعمال کسانوں کے حق میں کیا جائے۔ کنٹریکٹ کسانی سے چھوٹے کسانوں کی حفاظت کی جائے۔ سرمایہ داروں اور سود خوروں کے چنگل سے نکالا جائے اور سب سے اہم یہ کہ یکطرفہ فیصلے اور جانب دارانہ سوچ پر مبنی قوانین بنانے کے نتیجے میں حکومت کی نیت پر جو عدم اعتماد پیدا ہوا ہے اس کو دور کیا جائے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب حکومت بھی اپنے محدود دائرے میں بند صلاح کاروں اور غیر مصدقہ ذرائع سے نکل آنے والے مشوروں سے باہر نکل کر زمینی حالات سے جڑے افراد نیز، ملک و سماج کے سچے بہی خواہوں سے ایمان دارانہ روابط استوار کرے اور حکمرانی و اکثریت کے غرور سے نکل کر حزب اختلاف کو بھی وفاقی جمہوری نظام کا ایک اہم اور لازمی جُز خیال کرے، ورنہ تکبر سے زیادہ تباہ کن ہتھیار اور کوئی نہیں ہوتا۔