اداریہ: ماحول سازی یا قانون سازی؟

 

’’میں اشتعال انگیز بیان نہیں چاہتاہوں، جوہواہےاس کامجھے گہرادکھ ہے لیکن میں مسلمانوں کےخلاف نفرت کاماحول نہیں چاہتا۔ میری کسی دھرم سےکوئی شکایت نہیں ہے۔ ہاں، جنہوں نےمیرے بیٹے کاقتل کیا وہ مسلمان تھے لیکن سبھی مسلمانوں کوقاتل نہیں کہا جاسکتا ہے۔ آپ میرا استعمال فرقہ وارانہ تناؤ پھیلانے میں نہ کریں، مجھے اس میں نہ گھسیٹیں۔ میں سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ اسے(بیٹے انکت سکسینا کے قتل کو) ماحول خراب کرنے کےلیے دھرم سے نہ جوڑیں۔‘‘ دلی کے یشپال سکسینا نے فروری 2018 میں اپنے بیٹے کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے والوں کو تنبیہ دیتے ہوئے مذکورہ بالا بیان دیا تھا۔ دراصل انکت سکسینا اور ایک مسلم لڑکی کے بیچ محبت پروان چڑھی تھی اور لڑکی کے خاندان والوں نے اس پر جان لیوا حملہ کیا تھا۔ لڑکی نے اپنے ماں باپ کے خلاف گواہی دی تھی اور لڑکے کے والد قتل کی اس واردات کو محض ایک جرم کی شکل میں دیکھ رہے تھے جبکہ ایک مخصوص طبقہ پورے معاملے کو تعصب کی عینک سے دیکھ کر ووٹ بینک بنانے کے لیے ماحول سازی میں مصروف ہوگیاتھا۔ حالانکہ مغربی بنگال کے آسنسول میں ایک مسجد کے امام امداداللہ رشیدی کے سولہ سالہ بیٹے کا فرقہ وارانہ تشدد میں سر عام قتل ہو گیا تھا۔ بیٹا گنوا دینے کے باوجود وہ بھی امن کی اپیل کرتے دیکھے گئےتھے کہ ’’میں تیس سال سے امامت کر رہاہوں میرے لیے ضروری ہے کہ میں لوگوں کوصحیح پیغام دوں اور وہ پیغام ہے امن کا! مجھے ذاتی خسارہ سے اُبھرنا ہوگا۔ میرے بیٹے کےچلےجانے کےبعدمیں نہیں چاہتا کہ کوئی دوسراخاندان اپنابیٹا کھوئے یا کسی کاگھر جلے۔ اگر میرے بیٹے کی موت کابدلہ لینے کے لیے کوئی کاروائی کی گئی تو میں شہر چھوڑ کرچلا جاؤں گا‘‘۔ ایک طرف مقتولوں کے خاندانوں کا یہ حقیقت پسندانہ رویہ اور دوسری طرف حکمراں بی جے پی کے زیراقتدار ریاستوں میں مبینہ ’لَو جہاد‘ کے نام پر نئے قوانین بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، فرق واضح ہے۔ اترپردیش میں وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے’مشن شکتی‘ اور ’رام نام ستیہ‘ مہم چلانے کی آڑ میں ایک نیا قانون بنا کر شادی کے لیے مذہب تبدیل کرنے پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیاہے۔ معاً بعد کرناٹک، مدھیہ پردیش اور ہریانہ نے بھی ایک غیر مرئی و تصوراتی ’لَوجہاد‘ کے خلاف قانون بنانے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔ واضح رہے کہ خود وزارت داخلہ نے پارلیمنٹ میں وضاحت کی تھی کہ ’لَوجہاد‘ جیسی کوئی چیز مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کونہیں ملی تھی۔ جاریہ سال فروری میں ایوانِ پارلیمان میں یہ بھی بتایاگیا کہ ’لَوجہاد‘ کی اصطلاح کا قانونی دائرہ میں کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ اس کے باوجود بی جے پی زیراقتدار حکومتوں کے ذریعے ’لَوجہاد‘ کے ایک غیر حقیقی اور خیالی تصورِکی لکیر پیٹتے رہنا اور اس کے نام پر معاشرے میں تفریق اور تعصب کی آگ بھڑکاتے رہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ محض اپنے ووٹ بینک کی تسکینِ کے لیے مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کی سیاست کو جاری رکھنا، کیا ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لیے مفید ہو سکتاہے؟
دراصل الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک مسلم لڑکی کی عرضی پر ہی عدالت نے سرزنش کی تھی کہ محض شادی کی خاطر تبدیلی مذہب کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مسلم لڑکی ہندودھرم قبول کرکے پریانشی بن گئی تھی۔ اور یوپی حکومت نے اس کے بعد ہی جبری شادی روکنے کے لیے قانون بنانے کی بات کہہ ڈالی۔
کانپور میں چند بین مذہبی شادیوں کے منظرِ عام پرآنے کے بعد سنگھی ٹولیوں نے حسبِ عادت میڈیا، سوشل میڈیا اور معاشرے میں تعصب اور فرقہ پرستی کازہر گھولنا شروع کردیاتھا۔ ایک سرپرست کی گزارش پر یوگی حکومت نے ان شادیوں میں مبینہ ’لَوجہاد‘ کا زاویہ ڈھونڈ نکالنے کے لیے باضابطہ ایک خصوصی تفتیشی دستہ(SIT) تشکیل دے ڈالا۔ صحافی مریم علوی کی ایک تفتیشی رپورٹ نے اس ایس آئی ٹی اور مبینہ بین مذہبی شادیوں کو جہاد سے جوڑے جانے کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ کُل چودہ معاملوں میں سے نصف معاملے توبوگس نکل چکے ہیں۔ باقی بھی دم توڑ رہے ہیں۔ جوہی کالونی میں ہندو لڑکیوں کی مسلم نوجوانوں سے ’محبت کی شادی‘ کی ایف آئی آر پورے ملک میں زیر بحث رہی۔ خود وزیراعلیٰ کے میڈیا مشیر نے شالنی یادو کی محمد فیصل سے شادی کو جہاد سے جوڑ کر پیش کیااور بیس اگست کودونوں کا ایک فرضی وائرل ویڈیو بھی ٹویٹر پر پوسٹ کیا۔ ریالٹی چیک نامی پروگرام میں شالنی سے فضا فاطمہ بنی لڑکی نے بتایا کہ اس نے دلی کے سیشن اور ہائی کورٹ میں اپنی رضا مندی سے مذہب تبدیل کرنے کی بات کہی ہے۔ فضا کے ساتھ کھڑے اس کے شوہر فیصل نے رپورٹر کوکیمرے پربتایا کہ دراصل وہ خوداپنامذہب تبدیل کرکے ہندو کے طور پر شادی رجسٹر کرنے گیاتھا لیکن شالینی نے آگے بڑھ کراپنے نام اور مذہب کی تبدیلی رجسٹرار کے دفتر میں درج کرائی۔ دوسری لڑکی نے تو انکشاف کیا کہ اس کو ڈرانے، دھمکانے کے لیے وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے کارکنان پہنچے تھے لیکناس نے ان کی بات خاطر میں نہیں لائی اور مسلم لڑکے سے شادی کر لی۔ایک تازہ ترین اور دلچسپ مثال بھوپال کے ایک جوڑے اور شوہر کی محبوبہ کی ہے۔ تین سال شادی میں رہنے کے بعد بیوی پرمنکشف ہواکہ اس کا شوہر کسی اور لڑکی کے دام میں گرفتار ہے۔ بیوی نے خود سے شادی توڑنے کی پیش کش کردی۔ فیملی کورٹ کی کونسلر وکیل سریتا راجانی کے مطابق شوہر بیوی کے اس رویہ اور’سمجھداری‘ سے متاثر ہوگیا یہاں تک کہ وہ دونوں لڑکیوں کوشادی کے بندھن میں رکھنا چاہتا تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی ہندو کو قانوناً ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ لہذا پہلی بیوی نے شوہر سے ملنے والے مکان اور نان نفقے کی پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے رشتہ ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور دوسری معشوقہ کے ساتھ اپنے شوہر کی شادی کی راہ ہموار کردی۔ بالفرض اگر یہ تینوں رشتہ ازدواج میں برقرار رہنے کے لیے ہندودھرم چھوڑ کراسلام قبول کرلیتے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا ردعمل دیکھنے کوملتا؟ یاد دلادیں کہ مشہور بالی ووڈ اداکار دھرمیندر نے بھی اپنی پہلے سے موجود پَتنی کے رہتے ادکارہ ہیمامالنی سے شادی کرنے کے لیے محض دستاویزوں کی حد تک اپنے اپنے مذہب تبدیل کرلیے تھے۔ عائشہ بی اور دلاور خان کے ناموں سے یہ نکاح 21اگست 1979 کو ہوا۔ البتہ دھرمیندر کی ’’دھرم پَتنی‘‘ پرکاش کَور نے اپنے پتی سے علیحدگی اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا۔ظاہر ہے کہ مذکورہ دونوں معاملوں میں ایک بھی فرد مسلم نہیں ہے۔ لیکن دوسری مثال میں مذہب کو اپنی محبت کی شادی کے لیے ایک سیڑھی کے طور پر استعمال کیاگیا۔ آج بھی سنیما، سیریل یا معاشرے میں جو بین مذہبی رشتوں کے واقعات دیکھے جاتے ہیں، وہ اکثر یا تو شریعتِ اسلامی کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہوتا ہے یا قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش! سماجی و سیاسی کارکنان اس جانب توجہ دلاتے رہے ہیں کہ سنگھی ٹولیوں کی جانب سے تصورِ جہاد کومسخ کرنے کے پیچھے دراصل پولرائیزیشن اور سیاسی ایجنڈہ کی آبیاری مقصود ہوتی ہے۔ ساتھ ہی اس کے پیش نظر یہ ہوتا ہے کہ نوجوانوں اور بالخصوص ہندو لڑکیوں کے اختیار وآزادی پرقدغن لگایا جاسکے۔ مشہورِ زمانہ ہادیہ۔شفعین جہاں کیس میں عدالت نے کہاتھا کہ ’’عقیدہ فرد کے اختیار اور دستوری آزادی کی بنیاد میں شامل ہے۔ ہر فرد کو عقیدہ رکھنے اور نہ رکھنے کا حق حاصل ہے‘‘۔ واضح ہو کہ بھارتی سماج میں پہلے سے ’آنر کلنگ‘ یا عزت ووقار کے نام پر قتل جیسی روایتوں کا چلن بھی موجود ہے جو کہ بنیادی طور پر ذات پات سے وابستہ معاملہ ہواکرتاہے۔ اس کو جہاد کی جانب موڑنے کی ایک مذموم کوشش نے اب زور پکڑ لیا ہے اور اقتدار کے زور پر جابرانہ قوانین بنوائے جارہے ہیں۔ پولیس اور انتظامیہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے لگے ہاتھوں مسلم نوجوانوں کو بھی نشانہ بنایاجاتا ہے حالانکہ لالچ اور جبری تبدیلی مذہب کوروکنے کے لیے ریاستوں میں پہلے سے قوانین موجود ہیں پھر بھی جہاد اور محبت کی شادیوں کو ہم پَلّہ دکھانے کی کوشش جاری ہے۔ دھاندلی اور ایک فرضی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے نت نئے قوانین بنانے کے لیے بی جےپی کی حکومتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگی ہوئی ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں بھائی چارہ کی فضاکو آلودہ کرنا اور قانون کے غلط استعمال کے ذریعے مخصوص طبقےکی زندگی کادائرہ تنگ کرنا مقصود ہے۔ مسلم معاشرے کو جہاں قانونی اور سیاسی جنگ میں اتر کر ان حالات کا مقابلہ کرنا ہے وہیں اپنے گھروں کے اندر مناسب دینی و اخلاقی شعور کی بیداری پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ آج کل اعلیٰ تعلیم اور کھلی فضا اور میڈیا و سوشل میڈیا کےذریعے شخصی فاصلے ختم ہوگئے ہیں، رابطے کے وسیلے بآسانی دستیاب ہیں جن سے پہلوتہی نہیں کی جاسکتی لیکن خوفِ خدا اور خاندانی نظام کے شرعی اصولوں پر نوجوانوں کی ذہنی و فکری آبیاری کے ذریعے ہمیں اپنے قلعوں کو محفوظ کرنا ہوگا۔ کیا یہ بات تشویشناک نہیں ہے کہ کانپور کامحمد فیصل اپنے محلے کی شالینی سے شادی کرنے کے لیے آگے بڑھ کر از خود اپنے مذہب سے دست بردار ہونے کے لیے تیار تھا اوراپنی معشوقہ کے ساتھ کھڑے ہوکر کیمرے کے سامنے برملا اس بات کا ذکر بھی فخریہ انداز میں کررہاتھا؟ اگر مسلم خاندان اور معاشرے کو ہم اسلامی خاندان اور اسلامی معاشرہ بنا کر رکھ سکیں گے تو حکومتیں چاہے جتنے قوانین بنا لیں، فسادی چاہے جتنا شر پھیلائیں، ہماری اولادوں پر ہمارا یقین برقرار رہ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومتیں پہلے سے ایک غیر قانونی اور غیر شرعی عمل کو روکنے کے لیے قانون بنانے کا ارداہ کر چکی ہیں۔ گویا قانوناً غیر قانونی کام کیا جارہاہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020