اداریہ: شیر کی کھال میں بھیڑیے؟
جرائم پیشہ افراد اور غنڈہ عناصر سے سیاست دانوں کی ساز باز پر ان ہی سطور میں اس سے قبل بھی لکھا جا چکا ہے۔ اس گٹھ جوڑ کا ایک سرا پولیس اور سرکاری افسران سے بھی جا ملتا ہے۔ لیکن جس طرح بھارت میں شہریوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اس میں ہر کوئی اس متعصب فکر سے خود کو قریب تر بتانے کی ہوڑ میں شامل نظر آتا ہے۔ کسی کے انتقال پر اس کی اچھائیوں کا تذکرہ کرنا اور برا بھلا یاد کرنے سے گریز کرنا ہماری روایات کا حصہ ہے۔ اس کے بر خلاف ایک رویہ جنونی قسم کا ہے جس میں ہر حال میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی راہیں تلاش کرتے ہوئے لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں احترام کی نظر سے دیکھے جانے والے ہندوؤں کے آریہ سماجی فرقے کے رہنما سوامی اگنی ویش کا انتقال ہوا تو بجا طور پر ان کے بارے میں مختلف حلقوں کی جانب سے غم و افسوس کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن ایک بد بختانہ رد عمل نے سارے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا۔ اگنی ویش ایک سنیاسی اور سماجی جہد کار رہے۔ سماجی تحریکوں میں شامل ہو کر انہوں نے ستی، بچہ مزدوری، انگریزی کے تسلط، بت پوجا، منافقت اور بد عنوانی وغیرہ کے خلاف اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ہر مذہب کے ساتھ مل کر زبردست کام کیا۔ مخلتف ملکی معاملوں میں ان کی رائے جداگانہ ہی رہی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جولائی 2018 میں جھارکھنڈ کے پاکُڑ دورہ میں بی جے پی یُوا مورچہ کے کارندوں نے سوامی پر جان لیوا حملہ کیا تھا۔
’’اچھا ہوا سوامی اگنی ویش سے چھٹکارا مل گیا۔ آپ بھگوا (زعفرانی) لباس میں ایک ہندو مخالف شخص تھے۔ آپ نے ہندوازم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میں شرمندہ ہوں کہ آپ ایک تیلوگو برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ ’بھیڑ کی کھال اوڑھے شیر‘ بنے رہے۔ مجھے دکھ اور شکایت یَم راج (موت کے فرشتے) سے ہے کہ انہوں نے اتنے دن انتظار کیوں کروایا؟‘‘ ایک متنازعہ سابق سی بی آئی سربراہ ناگیشور راؤ کے اس مذموم بیان کو ٹویٹر پر پڑھنے کے بعد ملک کے با شعور و بیدار مغز ہندو بھی نہ صرف سکتے میں آگئے بلکہ اس دیدہ دلیری پر سب ہی ششدر رہ گئے۔ ایک وفات پا چکے شخص کے بارے میں اس قدر نفرت آمیز کلمات ادا کرنے والے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہ چکے فرد کی جانب سے اس قبیل کی گندی ذہنیت کا مظاہرہ اور بھی قابلِ مذمت ہے۔ حسبِ توقع ان توہین آمیز کلمات کی حمایت اور مخالفت میں رد عمل کا سلسلہ چل پڑا۔ لوگوں نے ان کو ہندوتوا کا علم بردار قرار دیا جو اصلی ہندوازم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
انڈین پولیس فاؤنڈیشن نے اس آئی پی ایس کو آئینہ دکھایا کہ اس نے پولیس یونیفارم کی توہین کی اور حکومت کو بھی شرم سار کیا ہے۔ پولیس اور شہریوں کے بیچ رابطہ کار اور ایک تھِنک ٹینک کے طور پر مصروف موجودہ مرکزی حکومت نے ایم ناگیشور راؤ کو 11 جنوری 2019 کو سی بی آئی کے کارگزار ڈائریکٹر جیسے اہم عہدہ پر فائز کیا تھا ان پر تب بھی شک ظاہر کیا گیا تھا۔ راؤ نے اپنے ٹویٹ سے یہ ظاہر کر دیا کہ ان کے ذہن میں ہندوتوا کا اتنا زہر بھرا ہوا ہے کہ ان کو بنیادی انسانی اقدار کی پاس داری کا لحاظ بھی نہیں ہے۔ یہ ان کا پہلا اور آخری ٹویٹ نہیں ہے اس سے قبل انڈین پولیس سروس میں سینئر افسر رہتے ہوئے ایم ناگیشور راؤ نے کہا تھا کہ موجودہ تعلیمی نظام بھارت کے شہریوں کو اسلاف کی روایات، تعلیمات اور فکر و فن سے دور کرتا جا رہا ہے جب کہ قدیم ہندو روایات پر مبنی تعلیم سے ہی معاشرے کی ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے مسلم وزرائے تعلیم کی شدید نکتہ چینی کی تھی کہ مولانا آزاد نے ملک کے نظام تعلیم میں مطلوبہ مقامی ثقافت و روایات کو فروغ نہیں دیا۔ حالانکہ حقوق انسانی کے علم بردار اور معروف سماجی کارکن سوامی اگنی ویش کی موت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کیے گئے اس متنازعہ ٹویٹ کو ٹویٹر نے ہٹا دیا ہے اور ناگیشور راؤ کے خلاف شکایت درج کرائی گئی ہے۔ لیکن چہار جانب سے مذمت اور تنقید کے بعد بھی راؤ کو اپنی حرکت پر کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ مرنے کے بعد بھی راون کی برائی اور اس کو نذرِ آتش کرنے کی روایت کی مثال پیش کر کے اپنی حرکت کا مسلسل دفاع کرتے رہے۔
دوسری جانب ایک نہایت قابل احترام اور بزرگ آئی پی ایس ریٹائرڈ افسر جولیو ریبیرو نے دلی کے پولیس کمشنر ایس این سری واستو کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے۔ جس میں 91 سالہ درد مند اور انصاف پسند پولیس افسر نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ ’’۔۔۔پولیس فورس اور آئی پی ایس سے آنے والی اس کی قیادت کا یہ فرض ہے کہ وہ کسی ذات، مسلک اور سیاسی میلان کو ملحوظ رکھے بغیر آئین و قانون کا احترام کرے۔ برائے مہربانی دلی میں آپ کی قیادت میں ہوئی کارروائی کا از سرِ نو جائزہ لیں اور طے کریں کہ کیا پولیس نے آئی پی ایس میں شامل ہونے کے دوران کیے جانے والے اپنے عہد سے وفاداری نبھائی؟‘‘ اپنی غیر جانب داری کے لیے معروف ریٹائرڈ پولیس افسر جولیو ریبیرو نے براہ راست دلی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھے ہوئے اپنے مکتوب میں معروف حقوق انسانی کارکن پروفیسر اپوروانند اور آئی اے ایس افسر رہ چکے سماجی کارکن ہرش مندر کو سچے محبان وطن کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ساتھ ہی کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پَرویش ورما جیسے سیاست دانوں کو قانون کے دائرے میں نہ لانے پر اپنی شدید بے چینی کا اظہار کیا ہے۔
ان کے ایک دن بعد انڈین پولیس سروس کے مزید 9 سابق افسران نے بھی سری واستو کو خط لکھ کر ریبیرو کے خدشات کی توثیق کی۔ دلی تشدد کی تحقیقات میں سیاسی مداخلت کی بات کہی اور فسادات کے تمام معاملوں کی منصفانہ اور غیر متعصبانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس پر دلی پولیس سربراہ سریواستو نے ریبیرو کو جواب دیا کہ فوجداری مقدمات میں پولیس کی تفتیش حقائق اور شواہد پر مبنی تھی نہ کہ کسی کے ’وقار‘ اور شخصیات سے متاثر۔ ہمارے ملک میں جہاں حکم رانوں کے پسندیدہ موقف کو اپنانے والے افسروں کی کبھی کمی نہیں رہی وہیں اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے آج بھی انصاف کے علم کو تھامے ہوئے ہیں۔ اتر پردیش کے ڈاکٹر سوریہ پرتاپ سنگھ ایک قابل اور نہایت دیانت دار آئی اے ایس افسر رہے ہیں لیکن اقتدار کو آئینہ دکھانے کی پاداش میں ان پر دو ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔ ریٹائر ہونے سے قبل ان کے 25 سالہ کیریئر میں انہیں 54 تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یعنی قریب قریب ہر پارٹی کی حکومت نے ایمان دار سرکاری افسروں کو کم و بیش اپنے اپنے انداز میں ستانے کا کام کیا ہے۔ مہاراشٹر کے ایک پولیس افسر عبد الرحمان، آئی اے ایس کنّن گوپی ناتھن اور کشمیر کے شاہ فیصل وغیرہ ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جو اقتدار سے لوہا لیتے رہے۔
دوسری طرف ممبئی میں پولیس کمشنر رہ چکے ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ نے انتخابات لڑنے کے لیے 2014 میں وی آر ایس لیا تھا اور اب وہ ایچ آر ڈی کے مرکزی وزیر ہیں۔ بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے تو سنہ 2009 کے انتخابات لڑنے کے لیے ہی مستعفی ہوئے لیکن جب بَکسَر لوک سبھا سے بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو 9 ماہ کے بعد نتیش کمار سے کہہ کر دوبارہ ڈیوٹی جوائن کر لی، جسے سرکاری سروس رول کی خلاف ورزی بھی خیال کیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے دہشت گردوں کے ساتھ ساز باز کے ملزم ڈی سی پی دیویندر سنگھ ضمانت پر باہر آچکے ہیں۔
اسی سماج اور سیاست کا ایک پہلو یہ ہے کہ افسران، پولیس، جج صاحبان، فلمی ہستیاں، کھلاڑی، کاروباری ہستیاں یہاں تک کہ فوجی وغیرہ بھی اپنی جان بچانے یا سیاست چمکانے کی غرض سے وقت کے حکم رانوں سے قربت جَتانے کی تگ و دو کرتے پائے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کی ہی قسمت چمک اٹھتی ہے۔ گزشتہ دنوں سنیما، صنعت، عدلیہ اور افواج سے اعلٰی عہدے داران جس طرح موجودہ حکم راں پارٹی میں شامل ہوتے دیکھے گئے ہیں اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے عام شہریوں کو ان کی قسمت کے حوالے کر کے محض اپنی یا اپنے خاندان کی قسمت کی خاطر ان شخصیات نے اپنی زبان بند کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔ جب کہ ایک دیگر آئی پی ایس افسر جو تعلیم و پیشے کے لحاظ سے آئی آئی ٹی انجنیئر تھے، آج کل پالن پور کی جیل میں بند ہیں۔ محض اس لیے کہ انہوں نے اپنی زبان اربابِ اقتدار کے خلاف کھولی تھی۔ ستمبر 2018 سے گرفتار ہوئے سنجیو بھٹ کا ماننا ہے کہ جب سے انہوں نے سنہ 2002 کے گجرات تشدد میں حکم رانوں یا حکم راں پارٹی کے ملوث ہونے کی باتیں کرنی شروع کیں تب ہی سے ان کو سرکاری عتاب کا شکار ہونا پڑ رہا ہے۔ سنجیو بھٹ کو ان کی ڈیوٹی سے برخواست کیا گیا، ان کا رہائشی مکان تہس نہس کر دیا گیا اور ایک 30 سالہ قدیم حراستی موت کے اس مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے جس میں 30 اکتوبر کو لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد بھڑک اٹھے فرقہ وارانہ تشدد کے وقت گجرات کے جام نگر میں کئی لوگ گرفتار کیے گئے تھے۔ ان کی بیوی کہتی ہیں کہ 2002 میں سابر متی جیل میں ایس پی کے عہدے سے سنجیو کا تبادلہ کرنے کے بعد 4 ہزار قیدیوں نے سنجیو کے حق میں بھوک ہڑتال کی تھی۔ کیوں کہ سنجیو بھٹ نے اپنے اچھے کاموں سے قیدیوں تک کا دل جیت لیا تھا۔ شاید عوام کا دل جیتنے پر سزا اور حکم رانوں کا دل جیتنے پر جزا ملنا ہی بھارت کے افسروں کا مقدر بن چکا ہے۔