اداریہ: دہکتی دلی اور دمکتا گجرات
ایک طرف ہمارے دیس میں دنیا کا سب سے طاقتور پردیسی مہمان آیا ہوا ہے جس کا استقبال اور خاطرداری دلی کی بجائے گجرات کے احمدآباد میں کی جاتی ہے تو اس کے دلی پہنچنے سے قبل ہی دارالحکومت دہک اٹھتا ہے۔ امریکی صدر کے دورے سے ٹھیک ایک دن پہلے دلی میں کھلے عام دھمکیاں دیتے سیاستداں پولیس کے ساتھ بلکہ سینئر عملے کے ساتھ گھومتے اور متنازعہ ’’گولی مارو۔۔۔‘‘ جیسے نعرے دیتے بھی دیکھے گئے ہیں۔ اسمبلی الیکشن ہارا ہوا بی جے پی کا ایک امیدوار کپل مشرا جس پر انتخابی کمیشن نے اس کی اشتعال انگیزی کے لئے سزا بھی دی تھی پھرایک بارٹویٹ اور ویڈیو جاری کر کے اور بھی زیادہ زہر افشانی کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ شمال مشرقی دلی کے ڈی سی پی وید پرکاش سوریہ کے بغل میں کھڑے ہوکردَھڑلّے سے وہ پولیس ہی کو وارننگ دیتا ہے کہ ’’ٹرمپ کے دورہ ہند تک ہم اس علاقہ کو امن کے ساتھ چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس کے بعد اگر سڑک خالی نہیں کرائی گئی تو ہم آپ (پولیس) کو بھی سننے والے نہیں ہیں۔‘‘
دوسری طرف 24فروری کےانڈین ایکسپریس میں اَمیل بھٹناگر کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’چند سلامتی دستے کے اہل کاروں کو دیکھا گیا کہ وہ (متنازعہ) سی اے اے کے حامیوں کے ساتھ مل کرپتھربازی کر رہے تھے۔۔۔۔‘‘ بلکہ معاً بعد سوشل میڈیا پر پتھرائو کرتی ہوئی پولیس کے ویڈیو اور تصاویر بھی وائرل ہوگئے۔
لیکن دلی جب دہکنے لگی یہاں تک کہ تین اموات بھی ہو گئیں تو مملکتی وزیر داخلہ جی کشن ریڈی کس منھ سے یہ کہہ رہے تھے کہ صدر ٹرمپ کے دورہ ہند کے تناظر میں دلی میں تشدد منصوبہ بند تھا؟ اور اگر اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تو آخر اس کو روکنے کے لئے فاضل وزیر نے کیا اقدامات کئے تھے؟ کیا ایک عالمی مہمان کے دورے کے مد نظر ان کی ما تحت پولیس اور خفیہ ادارے سب کو ہاتھ دَھرے بیٹھنے کو کہا گیا تھا؟ یا حکومت ہی چاہتی تھی کہ ایسا کچھ ہو جائے تاکہ ستر (70) دنوں سے جاری پر امن مزاحمتی دھرنے کو بدنام کرنے اور پھر کریک ڈاؤن کرنے کا کوئی بہانہ تراشا جا سکے؟ سب سے اہم بات یہ کہ سوشل میڈیا پر مسلسل جاری اشتعال انگیزی کوکیوں نظرانداز کیا گیا؟
کیا اتنا سب کچھ ہو چکنے کے بعد موج پور اور بابر پور میں تشدد بھڑکانے کی سازش کو روکنا احتجاجیوں کی ذمہ داری تھی یا پولیس اور ان کی حکومت کی؟
حسب حال سیاسی بیان بازی اور الزام تراشی بھی چل رہی ہے۔ دلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال اور کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی اور سابق پارٹی صدر راہول گاندھی اور کمیونسٹ جماعتوں سے لے کر تمام سیاستداں متوقع خطوط پر رد عمل کا اظہار کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ البتہ دلی کانگریس کے سابق صدر اجئے ماکن نے فوری طور پر چند اہم تجاویز پیش کیں جن کو رو بہ عمل لایا جانا چاہئے۔ مثلاً فوری ایک ہیلپ لائن کا قیام، کل جماعتی اجلاس بلانا، مقامی امن کمیٹیوں کا قیام، لیفٹننٹ گورنر کے ساتھ ایک ہاٹ لائن قائم کرنا وغیرہ۔
دلی میں ہنگامہ آرائی کے بعد دفعہ144نافذ کردی گئی۔ ایک عقیدت گاہ کو نذر آتش کرنے، لوٹ مار اور پتھرائو نیز تشدد کی خبریں دن بھر آتی رہیں۔ سیاست دانوں اور حکم رانوں یہاں تک کہ پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم دینے والے بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے بھی امن بحالی کی اپیل جاری کردی۔ ڈی سی پی امیت شرمازخمی ہوئے اور پولیس نے عوام پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔
امریکی صدر کے دو روزہ دورہ کے پہلے دن گجرات میں چکاچوندھ ثقافتی وتفریحی شیڈول کے بعد دوسرے دن دلی میں جن دفاعی اور تجارتی معاہدوں کی جو امید ہماری حکومت نے لگا رکھی ہے ان کے سامنے اس طرح کی بدامنی سے منفی تاثر ہی قائم ہوگا۔ ایسے میں تجارت اور سرمایہ کاری کرنے والوں کو سازگار ماحول کی گیارنٹی دینا آخر ہماری حکومت ہی کی ذمہ داری قرار پاتی ہے۔
اب سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ فوری طور پر نظم و قانون بحال ہو، تشدد ختم ہو اور ساتھ ہی شہری اپنے قانونی و آئینی مطالبات کو لے کر جو احتجاج کررہے ہیں انہیں اپنی بات رکھنے کا مناسب موقع بھی میسر آئے۔
مسلم جماعتوں نے دارالحکومت دلی میں بگڑتی نظم و نسق کی صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور چاند باغ اور جعفر آباد علاقوں سے سی اے اے مخالف دھرنے کو ہٹانے کے لیے بی جے پی لیڈر کے تین دن کے الٹی میٹم کی مذمت کی ہے۔ احتجاجیوں پر پولیس کی بربریت متعدد خواتین اور لڑکیوں کا لاٹھی چارج اور بھگدڑ میں زخمی ہونا بھی تشویش کا باعث ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ تشدد پر ابھارنے کی کھلی کال دینے اور بھارتی شہریوں کو دھمکانے نیز قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کسی کو اجازت نہ دی جائے اور پولیس ہر طرح کے تعصب سے پاک ہوکر اپنے فرض کو نبھائے۔
یہ حالات شاید کسی نازک و سنگین صورت حال کی پیش گوئی بھی ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ملت اسلامیہ ہند کے سواد اعظم کو بھی چوکس و چوکنا رہنا ہوگا اور اجتماعی طور پر بلکہ ہم آواز ہوکر صرف دلی ہی نہیں بلکہ ملک کے چپے چپے میں صنف نازک نے صنف آہن بن کر جو مزاحمتی گھیرے بنا رکھے ہیں اس کی حفاظت کرنے پر غور کرے بلکہ آڑے وقت میں ان کے معاون و مدد گار بننے کے طریقوں پر کام کرناہوگا۔