اداریــــہ

عدم اعتماد کا ٹیکہ

 

وبائی حالات چیلینجوں سے بھرے ہوتے ہیں لیکن ان میں مواقع کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ جاریہ کووِڈ۔۱۹ نے دنیا کے سامنے نوع بہ نوع حالات پیدا کر دیے ہیں اور ان میں فرد، معاشرہ اور مملکت سب نے اپنے اپنے طور پر خدمت سے لے کر سیاست تک کے ’مواقع‘ دیکھے ہیں۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ ہمارے ملک کے سائنسدانوں اور دوا ساز کمپنیوں نے ویکسین بنانے میں پہل کی۔ ’’ہنگامی استعمال‘‘ اور محدود طور پر ہی کیوں نہ ہو لیکن کووِشیلڈ اور کوویکسین نامی دو ٹیکوں کو منظوری مل گئی ہے۔ ڈرگس کنٹرولر جنرل آف انڈیا کی منظوری کے بعد ان کے استعمال سے قبل ’’ڈرائی رَن‘‘ کیا گیا اور اس کی مزید خوراکیں ۱۶؍ جنوری کو ملک گیر پیمانے پر دی جائیں گی۔ کووِشیلڈ کی تیاری پونے کی سِیرم انسٹی ٹیوٹ کمپنی آکسفورڈ کی قیادت میں کر رہی ہے جو ویکسین بنانے والی دنیا کی دوسری سب سے بڑی کمپنی مانی جاتی ہے۔ جب کہ حیدرآباد کی دوا ساز کمپنی بایوٹیک نے کوویکسین نامی ٹیکہ تیار کیا ہے۔ اس کی خوراکیں سب سے پہلے ان لوگوں کو دی جا رہی ہیں جو اسپتالوں اور نظامِ صحت سے وابستہ ہیں۔ اس کے بعد کے مرحلے میں مزید ۳۰ کروڑ لوگوں کو ویکسین دینے کا منصوبہ ہے۔ حالانکہ ملک میں پہلے سے یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام جاری ہے جس کے تحت پولیو اور ٹی بی وغیرہ کے ٹیکے لگایے جاتے ہیں اور ان کا سابقہ تجربہ اس بار بھی کارآمد ہوگا۔ ساتھ ہی انتخابی عمل کی شکل میں بوتھ کی سطح تک کی حکمت عملی ویکسین کے لیے بھی تیار کی گی ہے۔ بھارتی طبی تحقیقاتی کونسل (ICMR) کے مطابق دس جنوری ۲۰۲۰ تک بھارت میں ٹیکوں کے ۱۸ کروڑ ۱۷ لاکھ ۵۵ ہزار ۸۳۱ نمونوں کی جانچ کی جا چکی تھی۔ دیگر ملکوں میں کورونا ویکسین کی شروعات ہو چکی ہے اور ان ملکوں کے سربراہوں نے سب سے پہلے خود یہ ٹیکہ لیا تاکہ عوام میں اعتماد بحال ہو جائے۔ ہمارے ملک میں اب تک اکا دکا ریاستوں سے کسی وزیر نے تو کہا ہے کہ وہ کھلے طور پر کورونا ویکسین لگوائیں گے لیکن کسی وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم یا صدر جمہوریہ کے بارے میں ایسا کوئی بیان تاحال پڑھنے کو نہیں ملا ہے۔ ہمارے ملک میں توہّم پرستی اور افواہوں کا بازار اور جعل سازی کی بَنیا گیری جس بڑے پیمانے پائی جاتی ہے اس کے تناظر میں شہریوں کے اعتماد کی خاطر ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز حکمرانوں کو آگے آنا چاہیے نہ کہ سیاسی کریڈیٹ کی ہوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔
اب تک ان سوالوں کا بھی اطمینان بخش جواب نہیں مل پایا ہے کہ کیا بھارت اپنی ایک ارَب ۳۰ کروڑ آبادی کو ویکسین مہیا کرانے کی اہلیت رکھتا بھی ہے؟ کیا اس کی قیمت عام آدمی سے وصول کی جائے گی یا ’پی ایم کیئر فنڈ‘ اس کے کام آیے گا؟ دوسرا چیلنج یوروپ میں کورونا کے نئے ’’اسٹرین‘‘ کے سامنے آنے سے پیدا ہو گیا ہے۔ چناںچہ موجودہ ویکسین اگر کووڈ کی ایک شکل کو روکنے کی اہلیت رکھتا ہوگا تو سائنسدانوں کو کووڈ کی بدلتی شکلوں کے مقابلے کی راہیں بھی تلاش کرنے کا کام جاری رکھنا ہوگا۔ اس کے لیے عالمی اشتراک و تعاون اور انسانی خدمت کو مد نظر رکھنا ہے نہ کہ منافع خوری اور سیاست۔
امریکہ میں جس طرح سیاسی تبدیلی کی ایک اہم وجہ وہاں کے حکم رانوں کی وبا سے مقابلے میں لاپروائی کو قرار دیا جا رہا ہے، ہمارے حکم رانوں کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ شاید اسی لیے اس کا سیاسی کریڈیٹ لینے کا تنازعہ یہاں بھی جنم لے رہا ہے۔ حکومتیں آئے دن مبہم بیانات کے ذریعے عوام میں مغالطہ پیدا کر رہی ہیں کہ کیا سچ مچ ملک کے ایک سو پچیس کروڑ باشندوں کو جلد اور مفت میں ویکسین مل سکے گا یا پہلے سے ہلکی ہو چکی ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جایے گا؟ انفوسیس کے بانی نارائن مورتی نے کورونا سے مقابلے کے لیے نئی حکمت عملی کی وکالت کرتے ہوئے ہر شہری کو بلا معاوضہ ویکسین فراہم کرانے پر زور دیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ اتر پردیش اکھیلیش یادو نے کہا تھا کہ وہ ’’بی جے پی کا ٹیکہ نہیں لیں گے‘‘ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنی ریاست میں تمام لوگوں کو بلا معاوضہ ویکسین فراہم کرائیں گی۔ حسب توقع بی جے نے دونوں بیانات کو اپنے حق میں بھنانے کے لیے مہمات چھیڑ دی ہیں۔ ظاہر ہے نتیجہ کیا ہوگا کہ سیاست اول، عوام آخر! جلد ہی ملک یوم جمہوریہ کے جشن میں ڈوبنے والا ہے لہٰذا ملک میں جمہور کے مفادات میں کام کرنے اور خود معاشرہ میں سائنسی بنیادوں پر بیداری لانے کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اس وبا نے اگر کسی کو نفع پہنچایا ہے تو وہ ہیں فارما کمپنیاں۔ حالانکہ ملک کے بعض بڑے تجارتی گھرانے عالمی سرمایہ کاری حاصل کر کے دنیا کو اپنی مٹھی میں کر رہے تھے لیکن ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ نے ایک جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق طب اور صحت سے متعلق مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں اور ان کے پروموٹروں کی جائیدادوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ملک اور دنیا کے اَرب پَتیوں میں اچانک اضافے میں دوا ساز کمپنیوں کے مالکوں کے نام خاصی تعداد میں شامل ہو گیے ہیں۔ گزشتہ دنوں ارب پتیوں کی تعداد دس تھی اب صرف دوا ساز کمپنیوں میں ۱۷ ارب پتی پیدا ہو گئے ہیں۔ جن کی مجوعی دولت ۴ لاکھ ۳۵ ہزار کروڑ روپیے بتائی جا رہی ہے۔ قوتِ مدافعت میں اضافے کی دوائیاں، سینیٹائزنگ کی بوتلیں اور بہت کچھ بیچنے والے پتنجلی کے مالک رام دیو بھی اسی دوڑ میں شامل دکھائی دیے۔ لیکن عوام بھی جانے انجانے ان مصنوعات کے جال میں پھنستے چلے گیے۔حالاں کہ اسی دوران ہمارے نظام نے وہ مناظر دکھائے جب سڑکوں پر مئی کی تپتی دھوپ میں ننگے پاؤں پیدل ہی ہزارہا مزدور بے روزگار و بے گھر کر دیے جانے کے باعث شہروں کو خیرباد کہہ کر وطن واپسی کے لیے مجبور ہو گئے تھے جبکہ دوسری طرف حکومتِ وقت نے عدالت سے حلفیہ جھوٹ کہا کہ سڑک پر کوئی مزدور نہیں پایا جاتا اور حکومتیں تمام شہریوں کا خیال رکھ رہی ہیں۔ حد تو تب ہو گئی جب سوشل ڈسٹنسنگ اور حفظانِ صحت کے نام پر معاشرہ کے ایک بڑے طبقے کو مزید ’اَچھوت‘ بنانے کے لئے جواز پیدا کیے گئے۔ دوسرا منظر وہ تھا جب اسی ملک میں خدا کے کچھ بندے اسی چلچلاتی دھوپ میں روزوں کے ساتھ اپنے برادرانِ وطن کے لیے کھلانے، پلانے کا سامان فراہم کر رہے تھے۔ چھوٹی موٹی امداد دے کر بڑی بڑی تصویریں چھاپنے والوں کے مقابلے میں مخلصانہ کام کرنے والے اپنی آخرت کا سامان کر کے چلے گئے۔
کوئی دنیا کما رہا ہے تو کوئی آخرت!

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021