مظفر نگر میں منعقدہ کسانوں کی عظیم الشان مہاپنچایت نے ایک بار پھر کسانوں کے مسئلے کو بھارت کے لوگوں کے سامنے اجاگر کردیا ہے۔ اترپردیش میں قریب دو درجن ریاستوں سے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں کا ایک کامیاب اجتماع کسان تحریک کے جوش میں اضافہ کا باعث بن گیا ہے۔ سنیوکت کسان مورچہ (متحدہ کسان محاذ) کی کال پر جمع لاکھوں کسانوں نے اس کی ہمہ گیریت اور ملک گیر وسعت کو پرزور انداز سے ثابت کر دیا ہے۔ جس کے ساتھ مرکزی حکومت اب تک محض دو ایک ریاستوں تک محدود تحریک کا نام دے کر تحقیر آمیز رویہ اختیار کیے ہویے تھی۔
ہندوستان کے کسان پچھلے ۹ ماہ سے دلی کی سرحدوں پر تین انتہائی متنازعہ زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے احتجاج کررہے ہیں، لیکن حکومت اور میڈیا دونوں ہی اس احتجاج کونظرانداز کرنے کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔حکومت نے احتجاجیوں کے مسائل کو حل کرنا تو دور، اس نے ماہ فروری کے بعد سے اب تک احتجاجی کسانوں کے ساتھ کوئی معنی خیز بات چیت بھی نہیں کی۔اس دوران ملک میں کوروناوبا، مغربی بنگال انتخابات اور حالیہ عرصے میں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی اور طالبان کا قبضہ جیسے موضوعات میڈیا پر چھائے رہے کیوں کہ حکومت نے اپنے پسندیدہ میڈیا ہاوزز کی مدد سے ان سارے واقعات کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ملکی میڈیا کے بڑے حصے نے مذکورہ واقعات کو ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے اور اکثریتی آبادی کو ان کے خلاف کرنے کے لیےانتہائی بے شرمی کے ساتھ استعمال کیا۔ کیوں کہ جب کسی فرد یا گروہ کے دل و دماغ پر اقتدار کی ہوس چھاجائے تو اسے نہ تو عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی دل چسپی رہتی ہے اور نہ ہی ان کے حقیقی مسائل کا خیال اسے بے چین کرتا ہے، بس وہی باتیں یا د رہتی ہیں اور انہی چیزوں پر اس کی توجہ مرکوز رہتی ہے جو اقتدار کے حصول اور اس کی برقراری میں معاون و مددگار بنتی ہیں۔
لیکن ۵ ستمبر کو اترپردیش کے ضلع مظفر نگر میں ہونے والی مہاپنچایت اور وہاں ہونے والی تقاریر کے ذریعے اترپردیش کی منافرانہ سیاست کے افق پر ایک نئی آواز سنائی دی۔ یاد رہے کہ مظفر نگر وہی علاقہ ہے جہاں 2013 میں حالیہ دور کے بدترین فسادات کروائے گئے جس میں تقریباً ستر لوگوں کی موت ہوئی اور بے شمار لوگ خوف کے مارے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اسی نفرت کے گرم توے پر بی جے پی نے اپنی سیاسی روٹیاں سینکی اور انسانی لاشوں اور تباہ و برباد گھروں و دوکانوں کے ملبے پر اپنی حکمرانی کی عمارت کھڑی کرلی۔لیکن آج اسی مظفر نگر کی مہا پنچایت میں ہندومسلم اتحاد کے نعرے لگائے گئے اور بی جے پی کی نفرت پر مبنی اور انتشار پسند سیاست سے کھلے عام برات کااعلان کیا گیا۔ اس مہاپنچایت میں منتظمین کے دعووں کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد کسان شریک تھے۔ کسان لیڈروں نے کھلے طور پر اعلان کیا کہ اگر حکومت ان زرعی قوانین کو واپس نہیں لیتی ہے تو ہم اترپردیش میں بی جے پی ہی کو ایوان حکومت سے واپس بھیج دیں گے۔ کسان لیڈروں نے اس بات کا بھی اعلان کیا ہے کہ ایسی مزید پنچایتیں ریاست کے مختلف مقاما ت پر رکھی جائیں گی اور ان کے ذریعےآنے والے اسمبلی انتخابات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے گی۔مظفر نگر مہاپنچایت کے اسٹیج سے اٹھنے والی ہندومسلم اتحاد کی یہ آواز یقیناً اترپردیش کے موجودہ حالات میں امید کی ایک ہلکی سی کرن ہی ہے۔ یہ آواز کتنی طاقت ور بنتی ہےاور اسمبلی انتخابات پر کس قدر اثر انداز ہوسکتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ کسانوں کو اس قدر نظرانداز کرنا بی جے پی کے لیےمہنگا ضرور پڑے گا۔
منتظمین میں سے ایک بھارتیہ کسان یونین لیڈروں کی جانب سے اسٹیج پر ’’اللہ اکبر’’ اور ’’ہَر ہر مہادیو‘‘ کے نعروں کے علاوہ جو نعرے لگے ہیں وہ منافرانہ سیاست پر چوٹ ہیں۔ ’اس سرکار کو ووٹ کی چوٹ ملنی چاہیے۔‘ کسان لیڈر ٹکیت نے کہا کہ نو ماہ کی تیاری کےبعد ’آج‘ نئی تحریک نے جنم لیا ہے۔ حکمراں بی جے پی کو ٹکڑے کرنے والی پارٹی کہنا اور یوپی کی ۴۰۳ نشستوں میں سے ۱۲۰ سیٹوں پر ‘‘مشن یوپی‘‘ کے تحت سیاسی چیلینج کھڑا کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اب سے کسانوں نے حکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اس موقع پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ 2014 اور 2019 کے پارلیمانی انتخابات کی کامیابی میں جہاں بی جے پی کی منافرانہ اور انتشار پسند پالیسی کا اہم رول تھا وہیں ملک کے سرمایہ دار طبقے نے بھی اسے اقتدار پر فائز کروانے میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا، چنانچہ بدلے میں حکومت نے بھی ان سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے لیےبے شمار اقدامات کیے۔ بلکہ حکومت کی پوری معاشی پالیسی اور بطور خاص زرعی اصلاحات کے نام پر کیے جانےوالے اقدامات کے علاوہ ملک کے خزانےکو بھرنے کے لیے عوامی ملکیتوں کو نجی سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی اسکیم کا اصل مقصد اپنے کرم فرماوں کو فائدہ پہنچانا ہی ہے۔ چنانچہ ملک کے کسان پچھلے نو ماہ سے جن زرعی قوانین کی منسوخی کے لیے احتجاج کررہے ہیں ان قوانین کے بارے میں احتجاجی کسانوں کا دعویٰ یہی ہے کہ یہ بالواسطہ طور پر کسانوں کے لیے نقصان دہ ہیں اوردراصل ان سرمایہ داروں کوفائدہ پہنچانے کےلیے ہی وضع کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ آج بھی بھارت کی تقریباً نصف آبادی کی معیشت کا انحصار زراعت اور اس کی متعلقہ سرگرمیوں پر ہی ہے، اس لیے ایسا ہر اقدام جو زراعت کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کرے اس کا براہ راست اثر ملک کی نصف آبادی پر پڑے گا۔ اسی اثنامیں، جب کہ کسان پہلے ہی سے متنازعہ قوانین کے ذریعے زرعی امور میں نجی اداروں کے متوقع عمل دخل میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج پر ہیں، مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومرنے ۲ستمبر کو دنیا کی سب سے بڑی آن لائین تجارت کی کمپنی امیزان کےتحت امیزان کسان اسٹور کا افتتاح کیا۔ اس کے ذریعے اب تک اشیائے صَرف اور دیگر چیزوں کی آن لائین فروخت کرنے والی یہ کمپنی اب کھاد، بیج اور دواوں کی بھی آن لائین فروخت کرے گی۔ مختلف کسانوں اور ماہرین معاشیات نے مرکزی حکومت کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کھاد، بیج اور جراثیم کش دواوں پر حکومت کا کنٹرول بتدریج ختم ہوجائے گا، حالانکہ حکومت اس بات کو تسلیم نہیں کررہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کسانوں کو گھربیٹھے بیج اور کھاد وغیرہ کی خریداری کی سہولت حاصل ہوجائے گی۔ لیکن خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسانوں اور ماہرین کا اندیشہ درست ثابت ہورہا ہے اور جو یوریا عام دوکانوں پر چھ روپے فی کلوخریدا جاسکتا تھا وہ امیزان کسان اسٹور پر ۱۳۰ روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ ایک امریکی کمپنی کو زرعی اشیا کی آن لائین فروخت کی اجازت دے کر موجودہ حکومت کس ’ آتم نربھر بھارت‘ کی تعمیر کررہی ہے؟ یہ اقدام کسانوں کے لیے زرعی قوانین کے بعد ایک اور بڑی ضرب ہے جس سے سنبھلنا شاید کسانوں کے لیے ممکن نہ ہو۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021