اداریــــہ

جمہوریت کی محافظ عدلیہ کی فعالیت خوش آئند مگر۔۔۔

 

گزشتہ دنوں ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ذریعے دیے گئے بعض فیصلوں اور تبصروں نے ایک بار پھر عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ یکم جون کو حکومت کی ٹیکہ اندازی سے متعلق ایک مقدمے کی سنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ نئی آزاد ٹیکہ پالیسی پر مختلف سوالات کھڑے کیے۔ سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے میں مرکزی حکومت کی ٹیکہ اندازی کی نئی آزاد پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’بادی النظر میں حکومت کے اس فیصلے کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے کہ ۱۴ سے ۴۴ برس کے افراد کو کوویڈ کے ٹیکے کے لیے رقم ادا کرنی ہوگی‘۔ ٹیکہ اندازی کے ابتدائی دو مرحلوں میں اس کام کی ذمہ داری مرکزی حکومت نے اپنے اوپر لی تھی اور ۴۵ سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے مفت ٹیکوں کا نظم کیا تھا لیکن کوویڈ کی دوسری لہر کے بعد مرکزی حکومت کا موقف تبدیل ہو گیا اور اس نے آزاد ٹیکہ پالیسی اختیار کر لی جس میں ریاستوں اور نجی اسپتالوں کو یہ چھوٹ دے دی گئی کہ وہ اپنے طور پر ٹیکوں کی خریداری کر کے قیمتاً لوگوں کو فراہم کریں۔ سپریم کورٹ کا خیال ہے کہ ‘حکومت کی اس پالیسی کے بعد عوام کے لیے مسابقتی قیمتوں پر ٹیکوں کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکے گی‘۔ حکومت کے کاموں میں عدالت کی جانب سے اس طرح کی مداخلت کو حق بجانب ٹھیراتے ہوئے جسٹس چندر چوڑ، ایل ناگیشور راو اور ایس رویندر بھٹ پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ’سپریم کورٹ اختیارات کی تقسیم کے اصول کی کوئی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہے بلکہ آئین کے ذریعے عدلیہ پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے اسی کو ادا کر رہا ہے۔ بنچ نے مزید کہا کہ ‘آئین نے عدلیہ کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے مطابق جب عاملہ (حکومت) کی پالیسیاں جب بھی عوام کے آئینی حقوق پر دست درازی کریں گی تو اس وقت عدلیہ خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی۔ دنیا بھر کی عدالتوں نے حکومتی پالیسیوں پر آئینی اعتراضات اٹھائے ہیں جو عوام کی آزادی اور ان کے حقوق کو راست یا بالواسطہ طور پر متاثر کرنے والی تھیں۔ عدالت نے کہا کہ ’حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی پالیسیوں پر عدالتی نظر ثانی اور ان کی آئینی توجیہ کی ذمہ داری آئین نے عدالتوں کے سر ڈالی ہے‘۔
ایک دوسرے مقدمے میں سپریم کورٹ نے آندھرا پردیش کی حکومت کی جانب سے دو ٹی وی چینلوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ آندھرا پردیش پولیس نے کنوموری رگھو راما کرشنا کی تقریر نشر کرنے پر ٹی وی 5 اور اے بی این آندھرا جیوتی نامی تلگو چینلوں کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر کے مقدمہ دائر کیا تھا۔ ٹی وی چینلوں نے اس ایف آئی آر کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے کسی بھی کارروائی پر روک لگا دی اور کہا کہ’اب وقت آگیا ہے کہ صحافت کی آزادی کے حوالے سے غداری کی دفعات کی از سرنو تشریح کی جائے، اور یہ کہ حکومت پر تنقید کو ملک سے غداری نہیں کہا جا سکتا‘۔
اسی نوعیت کے ایک اور تازہ ترین مقدمے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ہماچل پردیش کی حکومت کی جانب سے ونود دوا پر عائد غداری کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے آزادی اظہار رائے اور صحافتی آزادی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے اس موقع پر کہا کہ کسی بھی صحافی کو محض اس بنیاد پر غداری کے الزامات کے تحت گرفتار کر کے مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا کہ اس نے حکومت پر سخت تنقید کی ہے، الا یہ کہ اس کے اس فعل سے حکومت کے خلاف تشدد بھڑک اٹھا ہو یا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت و تنازعہ پیدا ہوا ہو‘۔
یقیناً عدلیہ کے یہ فیصلے کافی خوش آئند ہیں اور توقع ہے کہ ان کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا بھروسہ بڑھے گا اور اس کے ساتھ وابستہ توقعات میں اضافہ ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اقلیتوں، پس ماندہ طبقات، قبائلیوں، دلتوں اور مختلف احتجاجیوں پر ہونے والی زیادتیوں کی صورت میں بھی عدالت کا یہ اصول لاگو ہو گا؟ کیا عدالت ایسے واقعات کی صورت میں بھی اسی طرح سرگرمی اور فعالیت کا مظاہرہ کر کے ان کے حقوق اور ان کی آزادیوں کے لیے حکومت کو ہدایات دے گی؟ گزشتہ چند برسوں کے دوران حکومت کی مختلف معاشی پالیسیوں نے جس طرح ملک کے عوام بالخصوص غریبوں، اقلیتوں اور پس ماندہ طبقات کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے، مختلف صحافیوں، حقوق انسانی کے جہد کاروں اور احتجاجی طلبا پر جس طرح غداری کے مقدمات قائم کیے گئے اگر ان پر بھی عدالت کا رد عمل اسی طرح کا ہوتا تو حکومت اس قدر بے باکی سے پیش رفت نہیں کرتی۔ یہاں کے غریب عوام، اس ملک کی اقلیتیں اور دیگر مظلوم طبقات بھی عدلیہ سے بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے حقوق کی حفاظت اور بقا کے لیے بھی اسی طرح کی فعالیت کا مظاہرہ کرے گی اور خاموش تماشائی نہیں رہے گی۔ عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی کرن ہیں اور ایک اچھے مستقبل کی نوید ہیں۔ ہمیں ملک کی عدلیہ سے یہی توقع ہے کہ وہ مستقبل میں بھی اسی طرح چوکس رہے گی اور جمہوریت کے محافظ کا کردار ادا کرتی رہے گی۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 6 جون تا 12 جون 2021