احوال عالم: ٹرمپ کا دورہ حکومت ہند کے لیے بے فیض
ایک طرح سےسفارتی سطح پراخلاقی سبکی درج ہوگی
ٹرمپ کے ہندوستان کے دورے میں وہی حالات پیدا ہوئے جو فلسطین میں پیدا ہوچکے تھے۔ ہندوستان ایک سیاسی ماہر نے اپنے ایک مضمون میں مودی اور ٹرمپ کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے صاف طور پر یہ لکھا تھا کہ دونوں سیاست دانوں میں متعدد باتیں مشترک ہیں۔ یہ دونوں قائدین جن باتوں کو نہایت ہی اعتماد ساتھ بیان کر دیتے ہیں ان پر کبھی عمل کرنا انہیں یاد نہیں رہتا۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ۵۰ بلین ڈالر کی تجارت کا ان دونوں نے دعویٰ کیا تھا۔ اس کی تفصیلات ٹرمپ نے اپنے دورے کے موقع پر ہندوستان کے کسی بھی مقام پر نہیں بتلائیں۔ ہندوستان کے ایک ماہر معاشیات نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرمپ امریکی صدر کم اور ایک چالاک تاجر زیادہ ہیں جنہوں نے ہندوستان سے وہ تجارتی وعدے کیے ہیں جن کا فائدہ صرف امریکہ کو حاصل ہوگا۔ ہندوستان، امریکہ سے اسلحہ اور ایم ایچ 60 ہیلی کاپٹر زیادہ خریدے گا جس کی قیمت 2.2 بلین ڈالر ہوگی مگر اپنی کوئی چیز امریکہ کو بڑے داموں پر فروخت نہیں کرسکے گا۔ امریکی صدر نے کہا کہ یہاں کوئی راست بڑا سودا نہیں ہوگا۔ لیکن انہوں نے اسلحہ کی خریداری کو ایک بڑی ٹریڈ ڈیل قرار دیا ہے۔ جبکہ ڈیل یکطرفہ نہیں ہوتی۔ امریکی صدر کا دورہ یکطرفہ امریکی مفادات کے تحفظات پر مبنی تھا۔ امریکہ نے اپنی منڈیوں میں مزید ہندوستانی اشیاٗ کے داخلے پر رعایتوں کو یکسر مسترد کر دیا۔ سفارتکاری سطح پر ہندوستان کسی بھی قسم کا دباؤ بنانے یا ٹرمپ کو قائل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ ایک طرح سے سفارتی سطح پر اخلاقی سبکی درج ہوگی۔ دہلی فسادات پر جب ٹرمپ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اسے ہندوستان کی داخلی سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا۔
ایک اور ماہر ہندوستانی صحیفہ نگار اور مبصر نے ٹرمپ کے ہندوستانی دورے کے بارے میں لکھا کہ ان کے اس دورے کا مقصد امریکہ میں رہنے والے ہندوستانی نژاد امریکی صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور شہریوں سے صدارتی انتخابات میں اپنے لیے ووٹ حاصل کرنا ہے کیونکہ امریکہ میں ٹرمپ کا سیاسی موقف مودی کے ہندوستانی سیاسی موقف کی طرح شدید تنازعات کا شکار ہوچکا ہے۔ اپنے سیاسی مقصد کی دستیابی کے لیے مودی اور ٹرمپ دونوں کو اپنی قوم کو بعض ایسے کارناموں سے واقف کروانا ہے جو ان دونوں کے سیاسی مستقبل کو روشن کرسکیں۔ ٹرمپ نے ہندوستان میں جو کارنامے انجام دیے ہیں ان کی اصل وجہ اس کے سوا کوئی اور نہیں ہے کہ امریکہ میں آباد ہندوستانیوں کو یہ بتایا جا سکے کہ مودی نے امریکی صدر کو ہندوستان کی تمام توقعات کو مکمل کرنے والا قرار دیا۔ حالانکہ ٹرمپ نے ہندوستان کو چین سے دور رہنے کے لیے جو باتیں کہی تھیں مودی انہیں پورا نہیں کرسکے اور روس کے ساتھ بھی ہندوستان کا رویہ ٹرمپ کی خواہش کے مطابق نہیں رہا اور نہ ہی ہندوستان نے ایران، افغانستان اور طالبان کے تعلق سے امریکی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کی کوشش کی۔ ایران اور روس کے طالبان کے ساتھ قریبی تعلقات کے پیش نظر ہندوستان بھی امریکی موقف میں اضافہ کے لیے طالبان کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل بن جائے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ، پاکستان کے ساتھ اپنے با اثر تعلقات کو ہندوستان کے فوائد کے لیے نمایاں طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن ہندوستان ہمیشہ اس بات سے فکر مند رہا کرتا تھا کہ طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور اثرات اس قدر زیادہ ہیں کہ ہندوستان انہیں اپنے لیے قابل عمل بنانے کی کوشش نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے کشمیر کی دستوری حیثیت کا خاتمہ کرکے بھی کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے وجود کو قابل اعتماد بنا ڈالا۔ اس واقعہ سے امریکہ میں جب ہندوستان کے خلاف سینیٹرز میں شدید مخالفت پیدا ہونے لگی تو بعض امریکی نژاد ہندوستانیوں کی مدد سے چند امریکی باشندوں کو کشمیر روانہ کردیا گیا جو خود کشمیر کے اصل حالات سے واقف نہیں تھے اس واقعہ نے ٹرمپ کے کشمیری موقف کو بھی ناقابل اعتبار بنادیا۔
۲۹ فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے میں دنیا کے ۲۴ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی جس میں ہندوستان بھی شامل تھا لیکن ہندوستان نے اس میں شریک ہونے کے لیے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے وفد کی شرکت کی شرط رکھی حالانکہ دنیا کے ۲۴ممالک نے اپنے وفود کی روانگی میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کے لیے بہت ممکن ہے کہ امریکہ نے یہ موقع پیدا کیا ہو ٹرمپ کی ۲۹ فروری سے چند ہی دن قبل ہندوستان میں آمد بے وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کے ہندوستانی دورے کے متعلق یہ تصور کیا جارہا تھا کہ اس سے ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی ، دفاعی صیانتی اور توانائی کے باہمی تعاون کا معاہدہ ہوگا لیکن اس کے بجائے انہوں نے احمد آباد، آگرہ اور نئی دلی کا دورہ کیا۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کا مقابلہ کرنے والے امیدوار برنئی سینڈرس نے امریکی ہتھیار کی ۳ بلین ڈالر کی ہندوستان کو فروخت کی سخت مخالفت کی۔ ٹرمپ نے ہندوستان کے دورے سے قبل صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ کسی تجارتی معاہدے پر اس موقع میں بات چیت نہیں کریں گے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ہندوستان کے ساتھ تجارتی باہمی تعاون پر اپنی بے اعتباری کا مظاہرہ کردکھایا۔ ٹرمپ نے دیگر تجارتی شراکت دار ممالک کے ساتھ ہندوستان پر بھی تجارتی سختیاں نافذ کردیں۔ ہندوستان کی گزارشات پر بھی انہوں نے انہیں گھٹانے سے انکار کردیا۔ ٹرمپ نے ہندوستان کی اسٹیل اور المونیم (Aluminium)کی تجارتی اشیا کی ڈیوٹی پر کمی کے طریقہ کار کو جون ۲۰۱۹ میں ختم کردیا تھا۔ اس کے انتقام میں ہندوستان نے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چیزوں کو مہنگا کر ڈالا تھا۔ ہندوستان نے ٹرمپ کی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے بعض غیر ترقی یافتہ ممالک کے مماثل رعایتوں کا مستحق قرار دے لیکن ٹرمپ کی حکومت نے اس کے برعکس ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک قرار دے کر تمام رعایتوں سے محروم کردیا۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ٹرمپ نے ہندوستانی دورے کی ابتدا یا اواخر میں اپنے بعض ہندوستان مخالف اقدامات سے انحراف نہیں کیا۔ البتہ دلی کے فرقہ وارانہ تشدد اور متنازعہ قانون پر امریکی صدر نے بڑی چالاکی سے شاطرانہ موقف اختیار کرکے ’’اپنے دوست ‘‘ مودی کی لاج رکھنے کی کوشش ضرور کی۔ لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ کیا کروڑوں روپیوں کی شعبدہ بازی امریکی جوڑے آئو بھگت نہ کی جاتی تو کیا ٹرمپ اپنے اسلحے ہندوستان کو بیچے بغیر واپس چلے جاتے اور کیا ہندوستان کو عالمی اسلحہ منڈی میں بہتر نرخ پر اسلحے فروخت کرنے والے ممالک میسر نہیں آتے؟