’’ اتحاد ملت کانفرنس‘‘ سے ملت کی توقعات۔ کس نے کیا لکھا؟

گزشتہ دنوں دلی میں ہوئی اتحاد ملت کانفرنس کے سلسلے میں ویب پورٹلس اور سوشل میڈیا پر بعض حضرات نے کچھ اشکالات ظاہر کیے اور بعضوں نے تجاویز و مشورے بھی دیے ۔ ذیل میں کانفرنس سے متعلق سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمس پر ہوئی گفتگووں کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے ۔
کچھ لوگوں نے یہ اشکال ظاہر کیا کہ ’کانفرنس کی اطلاع اخبارات میں پہلے کیوں نہیں دی گئی ۔ کسی کے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اخبارات میں اشتہار دے کر اس کی تشہیر کیوں نہیں کی گئی ۔ کسی کا اعتراض ہے کہ میڈیا کو کیوں دور رکھا گیا۔ کسی کا اعتراض ہے کہ بغیر میڈیا کے خاموشی کے ساتھ ملی قائدین کو میٹنگ کرنے کا حق کس نے دیا ہے۔ کسی کا یہ بھی اعتراض ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرگرم ہم رہتے ہیں لہٰذا ہمیں اطلاع دیے بغیر کیسے خاموشی کے ساتھ اتنی بڑی کانفرنس منعقد کردی گئی۔-
عجیب بات ہے کہ اس طرح کے اعتراضات وہ لوگ کررہے ہیں جو کبھی اس بات پر معترض رہتے تھے کہ ملت کے قائدین آپس میں ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے ہیں۔ مختلف مسالک، تنظیموں اور طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھ اسٹیج شیئر کیوں نہیں کرتے ہیں ۔ ۔ کبھی ان کا اعتراض ہوتا کہ اخبارات میں ملی قائدین اشتہار کیوں چھپواتے ہیں۔ اپنے کاموں کی تشہیر کیوں کرتے ہیں، کوئی بھی میٹنگ خفیہ کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ مثال دی جاتی ہے کہ آر ایس ایس کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہوجاتی ہیں لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ میڈیا میں کوئی خبر لیک نہیں ہوتی جبکہ مسلمان کام کم اور تشہیر زیادہ کرتے ہیں ۔
( شمس تبریز ، ملت ٹائمز، نئی دہلی)
اتحاد امت ایک اعلیٰ مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے اخلاص ضروری ہے۔لازم ہے کہ جو لوگ اس کے لیے سرگرم ہوں وہ پھر کسی اور تمنا کو دل میں نہ بسائیں۔ امت کی قیادت کرنے کا شوق اور امت کو متحد کرنے کا جذبہ ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والی چیز قیادت کا شوق ہی ہوا کرتا ہے۔ اس شوق نےامت کے اندر بہت سے جسموں کو دولخت کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انتشار وافتراق امت کی خطرناک بیماری اور بہت بڑی کم زوری ہے۔ہندوستان کی مسلم امت تو اس انتشار وافتراق کی ذرا بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ تعلیمی ومعاشی پسماندگی اور سیاسی بے وزنی جیسے امراض اسے زمانہ دراز سے لاحق ہیں۔ فسطائیت کا خطرہ اس کے پورے وجود کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایسی صورت حال کا سامنا ٹکڑوں میں بٹے ہوئے جسم سے تو ہرگز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
(محی الدین غازی، ایڈیٹر، ماہنامہ زندگی نَو)
کانفرنس میں ہندوستان کے ایک موقر عالم دین نے اپنے مدرسے سے دوسرے مکاتب فکر سے ہر قسم کے اختلاف کو ختم کرنے کی بات پر مولانا سلمان حسینی نے فیس بک کی اپنی ویڈیو میں سوال کیا کہ کیا ہندوستان کے بعض مدارس میں ملت کے بعض حلقوں کے ’رد‘ کے لیے قائم شعبوں کو ختم کر کے دوسرے مسالک یا مکاتب فکر کے ساتھ ہاتھ ملائیں گے؟
( مولانا سید سلمان حسینی ندوی )
ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اتحاد ملت کا موضوع کبھی بھی ایک سنجیدہ موضوع نہیں رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملت کے مسائل کے حل لیے کسی حد تک اتحاد ملت ہی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملت کو جہاں صحت مند اختلاف، صحت مند تنقید اور صحت مند مباحثہ کی ضرورت ہے وہیں اتحاد ملت کا نعرہ ملت کے لیے بے حد نقصان دہ بھی ثابت ہوا ہے۔ آخر وہ کون سا اتحاد ہے جس کی تلاش ستر سالوں میں بھی پوری نہیں ہوئی ہے۔ وہ ایک سراب ہے جس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور سراب کو حقیقت سمجھنا دونوں ہی اول درجے کی لایعنی فکر ہے۔ عموماً کہا جاتا ہے کہ اس کا اصل مقصد سیاسی قوت کا حصول ہے، یعنی سارے مسلمان ایک طریقے سے اور ایک ہی پارٹی کو بلکہ ایک ہی نمائندے کو ووٹ دیا کریں، چاہے وہ اویسی صاحب ہوں یا "مولانا” ملائم سنگھ، یا پھر کانگریس پارٹی، مسلمانوں کو ایک ہی قسم کا سیاسی شعور رکھنے اور سیاسی عمل کرنے کی امید رکھنے والا یہ تصورِ اتحاد حد درجے کی غیر حقیقت پسندی ہے۔ مسلمان ایک ایسی جمہوری ریاست کے شہری ہیں جس کا دستور انہیں ایک فرد اور شہری ہونے کے درجے میں وہ سبھی حقوق دیتا ہے جو کسی بھی شہری کو حاصل ہیں۔ فیس بک پر موجود ان کی تحریر کے مطابق بعض تنظیمیں ایسی ہیں جن میں نوجوانوں کو قیادت کے مواقع نہیں دیے جاتے۔ (محقق و مصنف، ڈاکٹر عمیر انس)
اتحاد ملت کانفرنس میں جس نو نکاتی عہد نامے پر دستخط لیے گئے ہیں ان سے منحرف ہونے والوں سے کیسے نمٹا جائے گا؟ جب تک ہم اپنی پاس کردہ قرار دادوں پر عمل آوری کی مانیٹرنگ میکانزم نہیں بنائیں گے اس کا ششماہی، سالانہ، پانچ سالہ جائزہ لینے نہیں لیں گے یہ اور اس طرح کی کوششیں دم توڑتی رہیں گی۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اب اتحاد ملت کے اس چارٹر پر دستخط کرنے والے اپنے اپنے حلقوں میں اب مسلکی بنیادوں پر جلسے منعقد کرنے کے بجائے ’اتحاد ملت‘ کے جلسے شروع کریں گے جس میں کوئی کسی کے مسلک کو نشانہ نہیں بنائے گا؟( اشرف بستوی ، ایشیاء ٹائمز، نئی دہلی)
اتحاد کے لیے گفتگو، تقریریں، خطابات، سمینار اور کانفرنسوں سے آگے بڑھ کر اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ’اتحادِ ملت کے پس منظر میں علماء کرام کی طرف سے اتحاد کا عملی مظاہرہ مطلوب ہے‘ یہ کانفرنس اگر نشستن گفتن خوردن اور برخاستن تک محدود رہے تو بے فائدہ اور وقت کا ضیاع ہے۔ اگر کوئی عملی شکل اختیار کر لے تو یہ وقت کی ضرورت ہے۔
(ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، سکریٹری اسلامی معاشرہ جماعت اسلامی ہند)
ان حضرات کے علاوہ سوشل میڈیا اور اخبارات وغیرہ میں بھی کچھ نوجوانوں نے اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں جو بڑی خوش آئند بات ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی سطح پر مشترکہ لائحہ عمل بنے اور لوگ مل جل کر کام کریں اور یہ کہ ہمارے نوجوان اب بھی ملت کی قیادت سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ اب اگر یہ کانفرنس ان توقعات کو پورا کرنے کا ذریعہ بن جائے تو اس کا حاصل کہا جاسکتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021