اب کی بار ٹرمپ کی ہار ، اگلی بار نمستے سرکار

بڑے بے آبرو ہوکر قصر ابیض سے ہم نکلے

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

 

جو بائیڈن کی 48 سالہ تپسیا سپھل ہوئی اور وہ امریکہ کے صدر بن ہی گئے ۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1972 میں سینیٹ کے انتخاب کی کامیابی سے ہوا جو بالآخر کرسی صدارت تک جا پہنچا۔ اس سے قبل دو مرتبہ انہوں نے صدارتی امیدوار بننے کی ناکام کوشش کی مگر حوصلہ نہیں ہارا۔ 32 سال قبل 1988 میں بائیڈن نے صدارت کا خواب دیکھا تھا مگر ایک برطانوی سیاستدان نیل کینوک کی تقریر کے اقتباس کو اپنے نام سے پیش کرتے ہوئے والدین کو کان کن کہہ دیا۔ اس جھوٹ کے سبب وہ دوڑ سے باہرکر دیے گئے۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا ایک بے ضرر سا جھوٹ انہیں مہنگا پڑگیا اور اب یار دوستوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جن دس ہزار جھوٹ کی فہرست تیار کی ہے اس میں بھی کئی چھوٹ گئے ہوں گے۔ بائیڈن نے 2007 میں دوسری مرتبہ صدارت کے لیے قسمت آزمائی کی مگر فال اوباما کے نام نکلا۔ اس پر جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے کے بجائے نائب صدارت کے عہدےپر اکتفا کر لیا اور صدر براک اوباما کے ذریعہ صدارتی میڈل آف فریڈم سے نوازے گئے۔ اس وقت لوگوں نے سوچا کہ یہ اختتام ہے لیکن ابھی دو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بائیڈن نے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کیا اور بالآخر فیض کے اس شعر کی مصداق کامیاب ہو گئے؎
آخر تو ایک روز کرے گی نظر وفا
وہ یار خوش خصال سر بام ہی تو ہے
کورونا کے سبب امریکی انتخاب کے نتائج میں بڑی تاخیر ہوئی اور بعد از انتظار بسیار جو بائیڈن کی کامیابی کے غیر حتمی اور غیر سرکاری اعلان کے بعد ان کو مبارکباد دینے کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر انتخابات میں اپنی کامیابی کا احمقانہ دعویٰ کردیا۔ انہوں ٹوئٹ کیا کہ وہ بہت بڑے فرق سے الیکشن جیت چکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے اور بعید نہیں کہ انہیں قصر ابیض سے سیدھے پاگل خانہ لے جانا پڑے۔ اس سے بڑی رسوائی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ امریکی صدر کے اس ٹوئٹ کے ساتھ ٹوئٹر کو انتباہ جاری کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جانے والے کے بارے میں اچھی باتیں کہنی چاہئیں اس لیے یہ کہنا پڑے گا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جن کے ساتھ بہت جلد سابق کا سابقہ لگنے والا ہے اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود کم ازکم اس معنیٰ میں منافق نہیں ہیں کہ ان کے دل میں کچھ اور زبان پر کچھ ہوتا ہے۔ صبرو ضبط سے بے نیاز وہ جو سوچتے ہیں اس کا برملا اظہار فرما دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں ووٹ کی گنتی کے دوران وہ سب کہہ دیا جس کا تصور محال تھا۔ اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے جمہوری نظام کے چہرے پر پڑی ہوئی خوبصورت نقاب کو ازخود نوچ کر پھینک کر امریکی دیو استبداد کو بے نقاب کردیا۔ بقول اقبال ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
صدر ٹرمپ کے لیے شکست کا ڈراؤنا خواب جس وقت حقیقت میں بدل رہا تھا وہ احمقوں کی جنت میں مست اپنی فتح کا اعلان کر رہے تھے۔ انتخابی نتائج سے متعلق ان کا موقف بہت دلچسپ ہے یعنی اگر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے بہ صورت دیگر ان کا حریف انتخابات میں دھاندلی اور ووٹوں کی چوری کا ملزم ہے۔ ٹرمپ فرماتے ہیں انتخابات میں ’دھاندلی ہوئی ہے یہ ہمارے ملک کے ساتھ بڑی بے ایمانی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس بارے میں قانون کا صحیح استعمال ہو اس لیے ہم سپریم کورٹ جائیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ووٹوں کی گنتی کو روک دیا جائے‘۔ یہ عجیب بات ہے اگر ای وی ایم سے ان کے حق میں ووٹ آتے ہیں تو انہیں شمار کیا جائے لیکن پوسٹل بیلٹ سے خلاف رائے آئے تو اس پر روک لگائی جائے؟ ٹرمپ کو دھاندلی کا الزام لگاتے وقت کسی ثبوت کی ضرورت نہیں پیش آتی کیونکہ بزعم خود وہ اس کیفیت میں مبتلا ہیں کہ؎
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
ٹرمپ کے ناقدین نے اس بیان کو اشتعال انگیزی اور امریکیوں کے جمہوری حق کو غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ عدیم المثال سانحہ ہے کیونکہ امریکہ کی تاریخ میں کبھی بھی کسی بھی صدر نے امریکیوں کو ایک قومی الیکشن میں اپنے حق کے استعمال کی آزادی سلب کرنے کی کوشش نہیں کی ہے‘ صدر ٹرمپ کو اس کی مطلق پروا نہیں ہے کہ پہلے والوں نے کیا کیا۔ وہ اس کو بھی اہمیت نہیں دیتے لوگ ان کی بیان کو ’غیر قانوی خطرناک اور آمرانہ‘ کہہ کر یہ گہار لگا رہے ہیں کہ ’ووٹوں کی گنتی ہونے دو اور نتائج کا احترام کرو‘ ۔ ٹرمپ حالیہ غیر ذمہ دارانہ بیانات کی توجیہ کرنا ان کے نائب مائیک پینس کے لیے بھی ناممکن ہو رہا ہے اور وہ لیپا پوتی کرنے کے لیے مجبور ہوگئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بار اگر صدر ٹرمپ فتح حاصل کرلیتے تب بھی انہوں نے انتخابات پر شک اور شبہات کا سایہ ڈال کر امریکہ کی جمہوریت کے پورے نظام کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اب یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا اس شکست کے بعد صدر ٹرمپ شرافت سےاقتدار منتقل کریں گے یا ان کو بزورِ قوت ہٹانے کے لیے فوج، خفیہ ادارے اور پولیس کی مدد لینی پڑے گی اور ان یہ شعر (مع ترمیم) صادق آجائے گا؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر قصر ابیض سے ہم نکلے
صدر ٹرمپ نے پولنگ کے فوراً بعد جو اوٹ پٹانگ پیشن گوئی کی تھی ان کا دفتری عملہ نتائج کے واضح ہو جانے پر بھی اسے دوہرا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ جن ریاستوں میں ووٹوں کا فرق بہت کم ہے، وہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور عدالتی کارروائی کے بعد بالآخر صدر ٹرمپ ہی کامیاب ہوں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق اپنے الزامات کا اعادہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف اپنی مزاحمت کبھی ترک نہیں کریں گے۔ اس بیان کے بعد اس کا احمقانہ جواز بھی قابل توجہ ہے۔ ٹرمپ کے مطابق ان کا موقف اور جدوجہد امریکہ کے پورے انتخابی نظام کی ساکھ بچانے کے لیے ہے جس سے وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے قریبی ریپبلکن سینیٹرز نے بھی ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد جو بائیڈن کی برتری میں اضافے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے دھاندلی سے متعلق صدر کے الزامات کی تائید کر دی ہے۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے وکلا اور ریپبلکن رہنماؤں نے ریاست پینسلوانیا میں ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی میں بے ضابطگی کی شکایت کرتے ہوئے گنتی کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا لیکن نا کام رہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ڈاک کے ووٹ سے قدیم مخاصمت ہے۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کو اندیشہ تھا ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے سے کورونا سے خائف ڈیموکریٹ بھی انتخابات میں شریک ہو جائیں گے اور یہی ہوا۔ امریکہ میں اس سال لگ بھگ 10 کروڑ رائے دہندگان نے کورونا کی وبا کے باعث پیشگی رائے دہندگی کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تین نومبر یعنی انتخابات کے دن سے پہلے ہی اپنا ووٹ دے دیا اور یہی ووٹ ٹرمپ کے گلے کی ہڈی بن گئے۔ اس انتخاب کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ پولنگ شروع ہونے سے پہلے ہی قانونی جھگڑوں کا آغاز ہو چکا تھا اور جب پولنگ شروع ہوئی تو 44 ریاستوں میں پوسٹل بیلٹ کے حوالے سے 300 مقدمات دائر ہو چکے تھے۔ ان مقدمات میں پوسٹل بیلٹ کو روانہ اور موصول کرنے کی ڈیڈ لائن، بیلٹ پوسٹ والے لفافے اور ان پر گواہ کے دستخط وغیرہ کے حوالے سے اعتراض کیا گیا تھا ۔
یہ سارا ہنگامہ انہیں ریاستوں میں ہو رہا تھا جہاں ریپبلکن پارٹی کی حکومت ہے۔ وہ بیچارے ووٹ کی ہیرا پھیری روکنے کے لیے پابندی عائد کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ جارجیا میں ریپبلکن پارٹی کے چیئرمین ڈیوڈ شیفرڈ نے ایک ٹویٹر پیغام میں الزام لگا دیا کہ ان کے لوگوں نے ایک عورت کو 50 غیر حاضر ووٹوں کو ڈھیر میں شامل کرتے دیکھا لیکن عدالت نے اس بلاثبوت درخواست کو مسترد کر دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس شور شرابے کو عوام کے حق رائے دہی میں نقب زنی مانتی ہے۔ ماہرین قانون میں سے کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ جو بیلٹ پولنگ کے روز ڈاک کے ذریعے بھیجے گئے ہیں اور جمعہ تک موصول نہیں ہوئے انہیں مسترد کر دیا جانا چاہیے کیونکہ ریاستی حکام نے پولنگ سے ایک دن پہلے ووٹروں کو تاکید کی تھی کہ وہ اپنا پوسٹل بیلٹ ڈاک کے ذریعے بھیجنے کے بجائے پولنگ اسٹیشن تک پہنچائیں لیکن ایسے ووٹ بہت کم تعداد میں ہیں۔ بالآخر تاخیر سے آنے ووٹ الگ سے گنے گئے اور چونکہ جو بائیڈن ان کے بغیر بھی جیت رہے ہیں اس لیے انہیں مسترد کر دینے سے بھی کوئی فرق پڑے گا۔
یہ عدالتی جنگ چونکہ اب ریاستوں سے نکل کر سپریم کورٹ کی جانب قدم بڑھا رہی ہے اس لیے معروف قانون داں میتھو ویل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس ووٹوں کی گنتی کے قانونی عمل کو روکنے کا کوئی خصوصی اختیار نہیں ہے۔ پروفیسر بریفالٹ کے خیال میں حریف جماعتوں کے اس اختلافات کو سپریم کورٹ تک لے جانے کے لیے کسی آئینی حق کی خلاف ورزی کا جواز پیش کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق انتخابی تنازعات کو سپریم کورٹ میں لے جانے سے متعلق کوئی حتمی طریقہ کار موجود نہیں ہے لیکن اگر معاملہ بہت غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو تو عدالت عظمیٰ اس میں دلچسپی لے سکتی ہے۔ اس میں ایک پیچیدگی یہ ہے کہ براہِ راست سپریم کورٹ میں رجوع کرنے سے پہلے فرداً فرداً انتخابی نتیجے کو ریاستی عدالتوں میں لے کر جانا ہوگا اور اس کے بعد ہی ریاستی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ میتھو ویل کے مطابق ایک طرف تو اس موضوع پر سپریم کورٹ کی رائے منقسم ہے، دوسرے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی جسٹس ایمی کونی باریٹ کو تعینات کرکے ویسے ہی تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ایسے میں اگر انہوں نے ریپبلکن کے حق میں رائے دے دی تو اس کو الگ معنیٰ پہنا دیے جائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے چونکہ اپنے دوست نریندر مودی کی مانند مسلمانوں سے نفرت کو اپنا ایجنڈا بنایا تھا اس لیے مسلمانوں نے اس بار زیادہ جوش و خروش کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیا اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے مسلمانوں کو زیادہ نمائندگی دی اور اس بار 5 سیاہ فام مسلمان امیدواروں نے وسکونسن، فلوریڈا اور ڈیلاویر کے قانون ساز ایوان کا انتخاب جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ ان میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ 2018 کے وسطی انتخاب میں 134 مسلمانوں نے شرکت کی تھی اس بار یہ تعداد بڑھ کر 170 ہوگئی، ان میں سے 110 کو قسمت آزمائی کا موقع ملا اور مختلف حیثیت سے 57 نے اپنی کامیابی درج کرائی جو 2016 کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان 57 میں سے 7 کی یہ پہلی کامیابی ہے۔ جو بائیڈن نے وسیع تر حمایت حاصل کرنے کی غرض سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو اپنی انتظامیہ میں شامل کریں گے اور ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں پر غیر اعلانیہ پابندیوں کا پہلے ہی دن خاتمہ کردیں گے۔ مہم کے دوران جو بائیڈن نے 7 مسلم ممالک کے تارکین وطن کی امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکمنامہ ختم کرنے کی بات بھی کی ہے کیونکہ وہ امیگریشن کی اس پابندی کو اختیارات کا ناجائز استعمال سمجھتے ہیں۔جو بائیڈن نے اپنے ایک ویڈیو پیغام ٹرمپ پر یہ الزام لگایا تھا کہ ملک میں سیاہ فام لوگوں سے قبل مسلم سماج صدر ٹرمپ کے حملے کا شکار ہوا تھا۔ یہ (ٹرمپ) انتظامیہ اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ ان کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اسلامو فوبیائی نظریات کی وجہ سے اسکولوں میں مسلم بچوں کے ساتھ بد سلوکی کے ساتھ ساتھ ملک میں مسلمانوں کی مخالفت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کے مسلم مخالف نظریات کو نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا تھا کہ وہ اس کے ذریعے دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ان کے مطابق عالمی سطح پر امریکی قوم کو اپنی طاقت کے بجائے حسن سلوک کا پیغام دینا چاہیے۔ بائیڈن نے اپنی کابینہ میں مسلم اراکین کو شامل کرکے انتظامیہ کا حصہ بنانے کا وعدہ تو کیا ہے اب دیکھنا ہوگا کہ وہ اسے کس طرح وفا کرتے ہیں؟ اسی کے ساتھ انہوں نے فلسطینی اور اسرائیلی ریاستوں کے حقوق کی خاطر لڑنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے جو نیتن یاہو کے لیے بری خبر ہے۔
ایک طرف ٹرمپ کی بوکھلاہٹ انہیں جارحیت پر مجبور کر رہی ہے اس کے برعکس جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ’ہم مخالف ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ہم دشمن نہیں ہیں، ہم امریکی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہماری سیاست کا مقصد بے لگام جنگ نہیں ہے‘۔ ویسے امریکہ عالمی سطح پر تو بے لگام جنگ کا قائل رہا ہے لیکن جب وہ جنگ خانہ جنگی میں بدلنے لگی تو انہیں ہوش آیا۔ جوبائیڈن تو خیر محتاط انسان ہیں مگر سابقہ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے ٹرمپ کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ’ہمیں وائٹ ہاؤس سے جھوٹ بولنے کا خاتمہ کرنا ہے اور ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو بحال رکھنا ہے۔ خدا کا شکر ہے، ہم نے یہ کر دکھایا ہے‘ اس طرح سینڈرز نے اسے ووٹ اور جھوٹ کی جنگ بنا دیا۔ ٹرمپ کی شکست میں وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے یہ پیغام ہے کہ نفرت کے دریا میں کاغذ کی کشتی چل نہیں پاتی وہ بہت جلد سپردِ خاک ہو جاتی ہے۔ مودی جی کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ رویہ درست کریں ورنہ ان کا انجام ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی زیادہ عبرتناک ہوگا۔ ٹرمپ کی رعونت کے خاتمہ پر حبیب جالب کا شعر صادق آتا ہے؎
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
***

صدر ٹرمپ نے چونکہ اپنے دوست نریندر مودی کی مانند مسلمانوں سے نفرت کو اپنا ایجنڈا بنایا تھا اس لیے مسلمانوں نے اس بار زیادہ جوش و خروش کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیا۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے مسلمانوں کو زیادہ نمائندگی دی اور اس بار 5سیاہ فام مسلمان امیدواروں نے وسکونسن، فلوریڈا اور ڈیلاویئر کے قانون ساز ایوان کا انتخاب جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020