آسام میں سی اے اے مخالف مظاہرے اسمبلی انتخابات سے قبل ایک نئی سیاسی جماعت کو جنم دے سکتے ہیں

گوہاٹی، اگست 9: آسام میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جاری احتجاج اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل ایک نئی علاقائی سیاسی جماعت کو جنم دے سکتا ہے۔

با اثر آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے سینئر رہنماؤں کا ایک گروپ، جو سی اے اے کے خلاف تحریک کی رہنمائی کر رہا ہے، تمام مقامی تنظیموں اور طلبا کے گروپس سے ملاقاتیں کر رہا ہے اور انتخابات سے قبل سیاسی جماعت کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

وہ حکمراں بی جے پی اور اس کے دو بڑے علاقائی حلیفوں آسام گانا پریشد (اے جی پی) اور بوڈولینڈ پیپلز فرنٹ کے خلاف امیدوار کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ سی اے اے مخالف رائے دہندگان کے جذبات کو راغب کیا جاسکے۔

اے اے ایس یو کے جنرل سکریٹری لورن جیوتی گوگوئی نے کہا ’’ہمیں لازمی طور پر متحد ہو کر بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو انتخابات کے ذریعے جواب دینا چاہیے۔ ہم ان تمام تنظیموں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، جنھوں نے یا تو ہمارے ساتھ یا الگ الگ سی اے اے کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ 2016 کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے شناخت اور ثقافت کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن انھوں نے شہریت ترمیمی بل کو منظور کرتے ہوئے اس کے برعکس کیا، جس میں 2014 تک ملک میں آنے والے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت کی پیش کش کی گئی ہے۔‘‘

گوگوئی نے مزید کہا ’’مقامی لوگ سی اے اے کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور چوں کہ بی جے پی نے ان کی آواز نہیں سنی لہذا وہ انتخابات کے ذریعے ایک مناسب جواب دیں گے۔‘‘

گوگوئی نے یہ اشارہ بھی کیا کہ نئی علاقائی پارٹی کانگریس کی حمایت نہیں کرے گی اور وہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنی شناخت بنانے کی کوشش کرے گی جو بی جے پی اور کانگریس دونوں کے خلاف اختلافی آوازوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

انھوں نے کہا ’’بی جے پی اور کانگریس دونوں ایک جیسے ہیں۔ انھیں دیسی شناخت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘‘

1985 میں اے جی پی اسی طرح 6 سال طویل غیر ملکی تحریک کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔ پرفلا کمار مہنتا اور بھریگو کمار فوکن کی سربراہی میں اے اے ایس یو کے رہنماؤں نے اے جی پی تشکیل دی تھی اور کانگریس کے خلاف انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔

مہنتا 1985 اور 1996 میں دو بار وزیر اعلیٰ بنے لیکن اے جی پی نے ’’غیر قانونی ہجرت‘‘ کے مسئلے کو حل کرنے میں مبینہ طور پر ناکامی کی وجہ سے کانگریس کے ہاتھوں ایک بار پھر اقتدار کھو دیا۔

اے اے ایس یو اور سی اے اے کی مخالفت کرنے والی دیگر تنظیمیں یہ چاہتی ہیں کہ 1971 کے بعد کے تمام تارکین وطن ان کے مذہب سے قطع نظر بنگلہ دیش بھیجے جائیں۔