خواتین دنیا بھر میں ظلم و استحصال کا شکار
۵۲ فیصد خواتین کبھی نہ کبھی رفیق حیات کے تشدد کانشانہ بنیں۔۳۵ممالک میں کروائے گئےسروے میں نشاندہی
محمد جرجیس کریمی
ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ
قتل کی چالیس سے پچاس فیصد وارداتوں کا جہیز سے تعلق۔ بھارت میں سسرالی تشددکے سب سے زیادہ واقعات
دنیا میں سماجی ومعاشی ظلم واستحصال کا شکار ایک طبقہ عورتوں کا ہے، بلکہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ایک مصیبت کی شکل میں ہمیشہ سے رہا ہے۔ بعض قدیم مذاہب نے عورت کو روح سے عاری مخلوق اور تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں عورت کو محض جنسی کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین کی قدر نہیں ہے۔ تمام سماجی طبقات معاشروں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں خواتین قتل کی جارہی ہیں، ان کی عزت وآبرو لوٹی جارہی ہے۔ انہیں ٹارچر کیا جارہا ہے۔ رپورٹ میں بوسنیا، روانڈا اور میکسیکو کے حوالے سے یہ بات کہی گئی ہے۔ عام طور پر تنازعات کے دوران خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود دنیا کی حکومتیں عورتوں کے خلاف جرائم اور ان کے حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے سلسلے میں خاموش ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں خواتین اوسطاً ۱۲ گھنٹے کام کرتی ہیں جبکہ مردوں کے لیے اوسطاً دس گھنٹے کام کے اوقات ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ کام لینے کے باوجود مردوں سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
عورتوں کا مالی استحصال صرف چین ہی میں نہیں ہوتا بلکہ پوری دنیا میں ان کا یہی حال ہے۔ وہ ہر جگہ زرعی شعبہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں بلکہ دنیا کے ہر تیسرے گھر میں خانگی اخراجات عورتیں چلاتی ہیں اور غذائی اجناس کے پیدا کرنے میں ان کا قابل لحاظ حصہ ہے۔ یہی کھانا بناتی اور کھلاتی بھی ہیں اور اکثر عورتیں سب سے اخیر میں اور سب سے کم کھاتی ہیں۔ وہ پہلے اپنے شوہر اور بچوں کو کھلاتی ہیں اور آخر میں جو بچ جاتا ہے وہ خود کھاتی ہیں۔ عورتیں مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں ہر طرح سے نظر انداز کی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۵ سال سے زائد عمر کی سات سو چھتیس ملین خواتین یعنی تین میں سے ایک خاتون اپنوں یا غیروں کی طرف سے جنسی وجسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ ۱۵ سے ۲۴ سال کی عمر کی ۱۶ فیصد خواتین نے تشدد کا سامنا کیا۔ روزانہ ۱۴۷ خواتین اپنے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ قتل ہوئی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ۳۷ فی صد اور ترقی پذیر ممالک میں ۲۲ فی صد خواتین اپنے قریبی متعلقین کے ذریعہ قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
سسرال والوں کی طرف سے عورتوں پر ظلم وجبر بھی ایک تلخ حقیقت ہے بلکہ ہندوستانی اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی آگے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں رواں سالوں میں ان میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے دوران میں ہندوستانی عورتوں پر ظلم وزیادتی کی چار لاکھ پانچ ہزار آٹھ سو اکسٹھ واقعات رونما ہوئے جو ۲۰۱۸ء کے مقابلے میں سات اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں اکثریت تیس فیصد شوہر اور قریبی رشتہ داروں کی طرف سے زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ باقی اغوا اور چھیڑ خانی کے واقعات ہیں۔ (نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو، وزارت داخلہ ،٢٠١٩)
ایک دوسری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کی وجہ سے ملک میں یومیہ ۵۹ خواتین خود کشی کر لیتی ہیں۔یہاں ہر گھنٹہ عصمت دری کے دو واقعات اور فی گھنٹہ جہیز کے لیے ایک عورت قتل کردی جاتی ہے۔ فی الجملہ ہر گھنٹہ خواتین کے ساتھ تشدد کے ۱۷ واقعات پیش آتے ہیں۔
ہندوستان میں ۲۰۱۴ء میں ۳ لاکھ ۳۹ ہزار چار سو ستاون واقعات صرف خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے تھے۔ جبکہ ۲۰۱۵ء میں ۳ لاکھ ۲۶ ہزار دو سو تینتالیس واقعات رونما ہوئے اور ۲۰۱۶ء میں ۳ لاکھ ۳۸ ہزار ۹ سو چون جرائم کے واقعات ہوئے۔ ۲۰۱۶ء میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی تعداد ۳۳۸۹۵۴ تک جا پہنچی۔ ان میں سسرال والوں کے ظلم کی شکار خواتین کی تعداد ۱۱۵۳۷۸ ہے اور ان کے خلاف چھیڑ خانی کے واقعات ۸۴۴۷۶ ہوئے اور اغوا کے ۶۴۵۱۹ معاملے درج ہوئے۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے ۳۸۹۴۷ واقعات رونما ہوئے۔ ۲۰۱۹ء اور ۲۰۱۸ء کی تفصیلات سابقہ سطور میں گزر چکی ہیں۔
عورتوں پر ظلم وستم کا ارتکاب دنیا کے ہر خطے میں ہو رہا ہے لیکن جہیز کے لیے ان کے قتل کی لعنت ’سارک‘ ممالک میں خصوصاً ہندوستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۸ء کے دوران ملک میں چار ہزار نو سو پچاس خواتین کو جہیز کے لالچ میں مار ڈالا گیا جبکہ ۲۰۱۲ء میں آٹھ ہزار دو سو تینتیس اور ۲۰۱۳ء میں آٹھ ہزار تراسی خواتین کو جہیز کے لالچ میں قتل کردیا گیا۔ یہاں ہر نوے منٹ پر ایک خاتون کو جہیز کے لیے قتل کر دیا جاتا ہے۔ (نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو، وزارت داخلہ ،٢٠١٩)
مجموعی طور پر عورتوں کے قتل کے واقعات میں چالیس سے پچاس فی صد جہیز کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ رجحان ۲۰۱۱ سے ۲۰۱۶ء تک کا ہے۔ (نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو، وزارت داخلہ ،٢٠١٣)
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں لڑکیوں کی شرح پیدائش ایک کروڑ پچاس لاکھ سالانہ ہے۔ ان میں سے ایک تہائی یعنی پچاس لاکھ بچیاں اپنی عمر کی ۱۵ویں سالگرہ سے پہلے ہی مار دی جاتی ہیں۔ ان اموات میں سے ایک تہائی اموات ان کی زندگی کے پہلے سال ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کا سبب بچیوں کے درمیان تفریق وامتیاز ہے۔
رحم مادر میں بچیوں کو مار ڈالنا (اسقاط حمل) بھی اس سلسلے کی ایک ہولناک حقیقت ہے۔ ۱۹۸۴ء میں چالیس ہزار لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے مار دیا گیا۔ ایک مخصوص اسپتال میں اسقاط حمل کے دس ہزار واقعات میں صرف ایک ایسا تھا جو لڑکے کی وجہ سے کیا گیا، باقی تمام صورتوں میں حمل گرائے جانے کی وجہ ماں کی پیٹ میں پل رہی بچی تھی۔ لندن کی ایک میڈیکل جرنل لنسٹ (Lencet) نے ایک مطالعاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان میں سالانہ پانچ لاکھ بچیوں کو پیدائش کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے اور گزشتہ بیس برسوں کے دوران تقریباً ایک کروڑ مادہ جنین کو تلف کردیا گیا گویا انہیں بیٹیاں بننے سے پہلے ہی رحم مادر میں درگور کر دیا گیا۔
امریکہ میں ایک سرکاری سروے رپورٹ کے مطابق پچھلے برسوں کے مقابلے میں زنا بالجبر اور اقدام زنا بالجبر کے واقعات میں تقریباً ساٹھ فیصد اضافہ ہوا۔ وہاں پر سالانہ جنسی زیادتی کی تعداد ۲ لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ میں طرفین کی رضامندی سے قائم کیے گئے جنسی تعلقات جرائم میں شمار نہیں ہوتے۔ امریکہ میں ہر ڈھائی منٹ میں کوئی نہ کوئی عورت جبری عصمت دری کا شکار بنتی ہے اور ۸۰ فیصد لڑکیاں ۲۰ سال کی عمر تک کبھی نہ کبھی جبری عصمت دری کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔ دس لاکھ کمسن بچیاں ہر سال زنا بالرضا سے حاملہ ہوتی ہیں جن میں تقریباً آدھی تعداد اسقاط کراتی ہیں۔
روس میں اقوام متحدہ کی طرف سے ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ہر چھ منٹ پر ایک عورت زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے۔ ان میں ہر چوتھی ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکی ہوتی ہے۔ چین میں عورتوں پر جنسی حملوں اور تشدد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں گھریلو تشدد کے ۷ء۲۴ فی صد واقعات ۲۰۰۶ء تا ۲۰۱۰ء کے درمیان رونما ہوئے۔
تھامسن رائٹرس فاونڈیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے تئیں جنسی تشدد، ہیومن اسمگلنگ (بردہ فروشی) اور جنسی کاروبار میں دھکیلے جانے کی بنیاد پر ہندوستان کو خواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے جہاں سب سے زیادہ جنسی زیادتی اور جبری مشقت کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ افغانستان، کانگو اور سیریا دوسرے اور تیسرے نمبر پر جبکہ صومالیہ چوتھے اور سعودی عرب پانچویں مقام پر ہیں۔ اس سروے میں خواتین کے تئیں جنسی تشدد کے خطروں کے لحاظ سے واحد مغربی ملک امریکہ ہے۔
یہ سروے رپورٹ ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۶ء دس سال کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں تراسی فی صد اضافہ ہوا ہے۔
مغربی ممالک میں بنیادی حقوق، انسانی حقوق، مساوی حقوق، حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا خوب غلغلہ بلند ہوا اور بعض پہلووں سے عورتوں کو مغربی ممالک میں حقوق مل بھی گئے لیکن اس کے باوجود عورتوں کی مظلومیت ختم نہیں ہو سکی۔ تحریک آزادی نسواں کی وجہ سے خواتین جب مردوں کے برابر کھڑی ہوئیں تو دونوں کی رفیقانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور اب وہ دونوں حریفانہ جذبات میں مبتلا ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ مردوں کو فطری طور پر تمام انسانی سماجوں میں تفوق اور تسلط حاصل ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا میں بھی مردوں نے عورتوں کی برابری کو دل سے قبول نہیں کیا اور مختلف پہلووں سے عورتوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشرتی طور پر زد وکوب اور تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔
یورپی ممالک میں گھریلو تشدد کی خراب صورت حال کے مد نظر ۲۰۰۲ء میں کونسل آف یوروپ نے گھریلو تشدد کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ڈکلیر کردیا تھا۔ بیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد اب کیا صورت حال ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ پوری دنیا میں گھریلو تشدد کے جتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں ایک تہائی تعداد امریکہ اور برطانیہ کی ہوتی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ہر سال تیرہ لاکھ عورتیں اپنے رفقاء (شوہر یا پارٹنر) کے ذریعہ جسمانی تشدد اور ایذا رسانی کا شکار ہوتی ہیں۔
۱۹۹۹ء میں ۳۵ ممالک میں کرائے گئے ایک سروے سے واضح ہوتا ہے کہ ۵۲ فیصد خواتین زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے رفیق حیات کی جانب سے تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔(تھامسن رائٹرز فاونڈیشن کرائم اگینسٹ وومن، ۲۰۱۸ء)
بر صغیر ہندوستان اور پاکستان میں عورتوں کی حالت بہت زیادہ بہتر نہیں ہے۔ پاکستان میں نوے فیصد عورتیں اپنے گھروں میں جسمانی، جنسی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں ستر فیصد شادی شدہ عورتیں پندرہ سے انچاس سال کی عمر میں گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں یومیہ چودہ خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتی ہیں۔
نیشنل کرائم ریکار بیورو کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق ہر تین منٹ میں ایک عورت مجرمانہ فعل کا شکار ہوتی ہے اور ہر چھ گھنٹے میں ایک شادی شدہ عورت کی پٹائی سے موت ہو جاتی ہے یا اسے زندہ جلا دیا جاتا ہے یا خود کشی پر مجبور ہوتی ہے۔
خلاصہ بحث یہ کہ موجودہ دور میں خواتین مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں ہر طرح کے ظلم واستحصال کی شکار ہیں اور نیم غلامی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ قحبہ گری کا پیشہ بھی بنیادی طور پر عورتوں کے ذریعے چلتا ہے۔ ہندوستان میں بیس لاکھ خواتین قحبہ گری سے جڑی ہیں۔ یہاں قحبہ گری قانوناً ناجائز نہیں ہے۔ ملک میں قحبہ گری کے کچھ مخصوص مذہبی، سماجی اور قبائلی طریقے بھی رائج ہیں۔ ان میں دیوداس، بچاڑا قبیلہ، پوروا اور واڈیا گاوں جیسے قحبہ گری صورتیں کافی مشہور ہیں۔ ذیل میں اس کی تھوڑی تفصیل درج کی جاتی ہے۔
دیوداسی کا لفظی مطلب خدا کی باندی ہے۔ قدیم زمانے جوان عورتوں کو مقامی دیوتاوں سے شادی کردی جاتی تھی۔ یہ عورتیں مندر کی پوجا کے علاوہ رقص وسرود میں مہارت رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے دیوداسیوں کو راجا، مہاراجا حتی کہ ادنی سطح پر رجواڑوں سے بیاہا جاتا یا بغیر شادی انہیں ان لوگوں کے حرم میں جگہ ملتی اور آرام وسکون سے زندگی گزارتیں۔ ملک میں انگریزوں کی حکمرانی سے مقامی حکمرانوں کی حکمرانی ختم ہو گئی اس لیے یہ عورتیں قحبہ گری پر مجبور ہو گئیں۔ ۱۹۸۸ء میں اس نظام کے خلاف قانونی انسدادکے باوجود آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کرناٹک میں ہزاروں خواتین اس نظام میں پھنسی ہوئی ہیں۔
ہندو دھرم میں عورت اور مرد کی شادی اسلام کی طرح سماجی معاہدہ نہیں ہوتی بلکہ ہندو روایت میں یہ کنیا دان ہوتا ہے۔ گئودان کی طرح کنیا (لڑکی) بھی دان یعنی خیرات میں دے دی جاتی ہے اور ظاہر ہے جو چیز دان میں دے دی جائے وہ پھر واپس نہیں لی جاتی۔ چنانچہ شوہر کی وفات یا طلاق کی صورت میں لڑکی اپنے میکے باپ بھائی کے یہاں واپس نہیں جاتی پھر تو وہ زندگی بھر سسرال کی غلام بن کر رہے۔ میکے یا سسرال یا باپ بھائی اور شوہر کی جائیداد میں اس کا حصہ نہیں اسی بنا پر وہ شوہر کی وفات یا اس کی علیحدگی کی صورت میں وہ نیم غلامی کی زندگی ہی بسر کر سکتی ہے۔ ہندو سماج میں بیوہ کی اس حالت زار نے اس کے لیے ستی کی ضرورت کو پیدا کیا مگر حکومت نے اس کے انسداد کے قوانین بنائے جس کی وجہ سے اس میں کمی آئی مگر بالکلیہ ختم نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جو بیوائیں ستی کی لعنت سے بچ جائیں وہ کاشی و متھرا کے آشرموں میں پناہ لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اپریل 2022