کیا یوکرین روس کے لیے دوسرا افغانستان بنے گا؟
پوتن منصوبے کے مطابق چار دن میں اہداف حاصل نہیں کرسکے ۔جنگ چوتھے مہینے میں داخل
مسعود ابدالی
امریکہ اور نیٹو روسی تیل اور گیس پر خاطر خواہ پابندیاں عائد کرنے میں ناکام
چار جون کو روس یوکرین جنگ کے سو دن مکمل ہو گئے۔ 24 فروری کو جب روسی فوج نے حملے کا آغاز کیا، صدر ولادیمر پوٹن کا خیال تھا کہ یہ کارروائی چار دن میں مکمل کرلی جائے گی لیکن اس کا اختتام چار مہینے میں بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ یورپ کےعسکری ماہرین یوکرین کو روس کا ایک اور افغانستان بنتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
کشیدگی کے آغاز پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے جنگ کی صورت میں یوکرین کو مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا تاہم یہ وضاحت کردی گئی تھی کہ جنگ کے لیے فوجی نہیں بھیجے جائیں، یعنی اسلحے کی شکل میں یوکرین کی حمایت اور اقتصادی پابندیاں لگاکر روس کو لاغر و کمزور کر دیا جائے گا۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ سونے کی ان گولیوں سے لگنے والا زخم گولہ بارود سے زیادہ گہرا، مہلک اور تکلیف دہ ہو گا۔
فروری کے اختتام پر جیسے ہی روس نے یوکرین پر حملہ کیا، امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے روسی اثاثے منجمد کر دیے۔ ایک اندازے کے مطابق کریملن کے معطل و منجمد کیے جانے والے اثاثوں کا مجموعی حجم 300 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
امریکہ کا اصل ہدف روسی ایندھن ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی پیداوار کا 33 فیصد حصہ امریکہ، روس اور سعودی عرب سے حاصل ہوتا ہے۔ ماہ بہ ماہ معمولی کمی و بیشی کے ساتھ ان تینوں ملکوں کی پیدوار تقریباً مساوی ہے اور اوسطاً ہر ملک اپنے کنووں سے ایک کروڑ بیرل تیل یومیہ نکالتا ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ کی پیداوار ایک کروڑ ساڑھے گیارہ لاکھ بیرل اور روس کی ایک کروڑ دس لاکھ بیرل بتائی جارہی ہے جبکہ سعودی عرب کی پیدوار 95 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ بیرل کے لگ بھگ ہے۔
تیل اور گیس کی روسی برآمدات کا تخمینہ 47 لاکھ بیرل روزانہ ہے جس میں سے 25 لاکھ بیرل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے جو یورپی ضرورت کا چالیس فیصد ہے۔ پولینڈ، ہنگری، فن لینڈ، مالدووا اور چیکو سلاواکیہ (سلاوانیہ اور چیک ریپبلک) کی 70 سے 80 فیصد ضرورت روسی تیل اور گیس سے پوری ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ایک نشست میں ہم عرض کر چکے ہیں کہ جب تیل اور گیس کی بات ہوتی ہے تو اس کا ذکر بیرل میں کیا جاتا ہے۔ بیرل مائع کو ناپنے کا پیمانہ ہے جبکہ گیس کی پیمائش حجم یا حرارت کے معیار (Thermal) پر ہوتی ہے لیکن تجزیاتی آسانی کے لیے تیل اور گیس کے مجموعی حجم کو ‘تیل کے مساوی’ کی شرح سے فی بیرل یا Oil Equivalent میں پیش کیا جاتا ہے۔
جنگ سے پہلے خیال تھا کہ جیسے ہی یوکرین پر حملہ ہوا روس سے یورپ کے لیے جرمنی آنے والی گیس پائپ لائن بند کردی جائے گی۔ لیکن حملے کے بعد بھی یورپ کو روسی گیس کی فراہمی جاری ہے۔ یوکرینی صدر مسلسل اصرار کر رہے ہیں کہ روسی ایندھن پر پابندی عائد کی جائے۔ صدر زیلینسکی کہتے ہیں ’ہم پر گرنے والا ہر روسی بم اور میزائیل یورو اور ڈالر سے خریدا جا رہا ہے‘
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کے اجلاس کے بعد یونین کی بیرونی پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے اعلان کیا کہ اس سال کے اختتام تک یورپ کے لیے روسی ایندھن کی درآمد دوتہائی کم کر دی جائے گی۔ روس سے یورپ آنے والی گیس اور LNG کا حجم 185 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔ مشرقی یورپ کے ممالک رومانیہ، پولینڈ، سلاواکیہ ، چیک ریپبلک، فن لینڈ ،بلغاریہ اور مالدوواکو فراہم کی جانے والی روسی گیس اس کے علاوہ ہے۔
جناب بوریل کا خیال ہے کہ یورپ کے لیے تیل اور گیس پر پابندی کے بعد بھی دنیا میں روسی ایندھن کے گاہکوں کی کمی نہیں رہے گی لیکن اس سے روسی تیل اور گیس کے بھاو ، دباو میں آجائیں گے۔ یورپی یونین کے حالیہ اجلاس میں روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع کرنے کے دوسرے طریقوں پر بھی غور کیا گیا۔ مجوزہ پابندیوں کی اس فہرست میں روس کے تمام بینکوں کا بین الاقوامی مالیاتی ترسیلات کے نظام سوئفٹ SWIFT سے رابطہ منقطع کرنا شامل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی تیل اور گیس پر پابندی کے ضمن میں پائپ لائن کے ذریعے درآمدات کو استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ روس سے آنے والے تیل اور گیس کا 80 فیصد حجم پائپ لائن کے ذریعے یورپ پہنچتا ہے۔ توانائی کے ماہرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جہازوں کے ذریعے آنے والے 20 فیصد ایندھن پر پابندی لگا کر درآمد ایک تہائی کر دینے کا ہدف کیسے حاصل ہو گا ۔ روسی گیس کی خریداری روکنے کی یوکرینی خواہش اور امریکی دباو اپنی جگہ لیکن مشرقی یورپ کے غریب اور خاص طور سے خشکی میں گھرے ہوئے ممالک کی اپنی مجبوریاں ہیں۔
مثال کے طور پر ہنگری صاف کہہ چکا ہے کہ روسی تیل پر پابندی اس کے لیے قابل قبول نہیں بلکہ وہ درآمدات کے دام بھی اب روسی کرنسی روبل میں ادا کر رہا ہے۔ آسٹریا اور نیٹو کے چند دوسرے ارکان بھی روس سے روبل میں لین دین کر رہے ہیں۔ یورپی یونین کے دستور کے تحت تمام کلیدی فیصلے متفقہ ہونے ضروری ہیں اس لیے پابندی سے مخالف ممالک کو استثنیٰ دینا یونین کی مجبوری ہے۔
تین جون کو جناب بوریل نے معاہدے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں اس کے مطابق روس سے آنے والی تاریخی درزبا (Druzba) تیل پائپ لائن پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی۔ روسی زبان میں درزبا کے معنی دوستی کے ہیں، چنانچہ مغربی یورپ میں اسے دوستی پائپ لائن کہا جاتا ہے۔ اپنے نظریاتی اتحادیوں کو تیل فراہم کرنے کے لیے سوویت یونین نے 1958 میں یہ پائپ لائن بچھائی تھی۔ چالیس انچ قطر کی 4 ہزار کلومیٹر طویل اس پائپ لائن کی گنجائش 14 لاکھ بیرل یومیہ سے زیا دہ ہے ۔ دوستی پائپ لائن مشرقی روس سے یوکرین، بلاروس، پولینڈ، ہنگری، سلوواکیہ، چیک ریپبلک، آسٹریا اور جرمنی کے مشرقی حصے کو روسی تیل فراہم کرتی ہے۔ مرکزی پائپ لائن اور اس سے ملحق جزوی ٹکڑوں کی مجموعی لمبائی ساڑھے پانچ ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہے اور اس اعتبار سے درزبا کو دنیا کی طویل ترین پائپ لائن کہا جا سکتا ہے۔
فیصلے کا اعلان تو جمعہ 3 جون کا ہوا لیکن پولینڈ اور ہنگری کے اصرار کی بنا پر درزبا پائپ لائن کو ملنے والا استثنیٰ نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا۔ اس خبر پر یوکرینی صدر زیلینسکی نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ یکم جون کو سمعی اور بصری رابطے پر یورپی یونین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ روسی تیل کی درآمد پر مکمل پابندی ضروری ہے تاکہ کریملن کی آمدنی میں کمی واقع ہو۔ انہوں نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ یکجہتی کے دعوے زبانی خرچ سے زیادہ کچھ نہیں جب یوکرین کے خلاف جارحیت کی سرمایہ کاری کوئی اور نہیں بلکہ خود یورپ اور نیٹو ممالک کررہے ہیں۔
صدر زیلینسکی کے جذباتی خطاب کے بعد یورپی کمیشن کی صدر، ارسلا وانڈرلین نے یوکرینی دوستوں کو یقین دلایا کہ چھ ماہ کے اندر روسی تیل کی خریداری میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور 2022 کے اختتام تک خام تیل کی درآمد میں دوتہائی کٹوتی کا ہدف حاصل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس سال کے اختتام تک روسی LNG اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد صفر ہو جائے گی۔ اپنی تقریر میں واندرلین صاحبہ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ ہدف کا اصول بہت آسان نہیں کہ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ارکان کی جانب سے متفقہ منظوری درکار ہے جبکہ کئی رکن ممالک کا روسی تیل پر انحصار 80 فیصد سے زیادہ ہے۔
توانائی کی صنعت سے وابستہ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جناب جوزف بوریل اور وانڈرلین صاحبہ کی یقین دہانیاں صدر زالینسکی کے آنسو پونچھنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ یوکرین کے سرکاری ٹیلی ویژن پر محترمہ واندڑلین کی تقریر کے آخری حصے کا خوب مضحکہ اڑایا گیا جس میں انہوں نے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو یوکرین میں اپنی وحشیانہ جارحیت کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
ماہرینِ توانائی کے خیال میں یورپ کی طرف سے روسی تیل اور گیس کی خریداری صفر کر دینے کی امریکی خواہش غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ دو ماہ پہلے اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بحث مباحثہ ہو چکا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی سہیل بن محمد المزروئی نے روس کے بائیکاٹ کو ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے وہاں موجود تیکنیکی ماہرین سے سوال کیا کہ اگر روسی تیل پر پابندی لگادی جائے تو اس کمی کو کون پورا کرے گا؟ تو وہاں مکمل خاموشی رہی۔ بعد میں اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے جناب المرزوئی نے بتایا کہ روسی تیل کا حجم ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے اور فی الوقت دنیا میں کسی بھی مقام سے تیل کی اتنی بڑی اضافی مقدار حاصل نہیں کی جا سکتی۔
ایک ماہ پہلے محترمہ ارسلا وانڈرلین سے ملاقات کے دوران امریکی صدر نے یورپ کو 15 ارب مکعب میٹر اضافی گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک امریکی LNG کا اضافی حجم وعدے کا دس فیصد بھی نہ ہو سکا۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ LNG ٹینکروں کے ذریعے یورپ پہنچائی جا رہی ہے اور ایندھن کا خرچ بڑھنے کی وجہ سے باربرداری کے اخراجات دگنے سے زیادہ ہو چکے ہیں۔
تیل اور گیس کے علاوہ فن لینڈ کو بجلی کے بحران کا بھی سامنا ہے کہ اس کے مشرقی حصوں کے لیے سستی برقی توانائی روس سے خریدی جاتی تھی لیکن جیسے ہی نیٹو کو رکنیت کی درخواست دی گئی، روسی کمپنیوں نے بجلی بند کر دی۔ متبادل انتظام تو کیا ہوا الٹا روس کے مقابلے میں مغربی فن لینڈ سے آنے والی بجلی کے نرخ دگنے ہو گئے۔ اسی نوعیت کی پریشانی ایستونیا، لٹویا، لتھوانیہ اور مشرقی پولینڈ کو بھی ہے جو اب تک روس کی سستی بجلی سے مستفید ہو رہے ہیں لیکن اگر یورپی یونین نے کریملن کا قافیہ مزید تنگ کیا تو ان کے تار بھی بے جان ہو سکتے ہیں ۔
رسد بڑھانے کے لیے امریکہ کے دباو پر تیل پیدا کرنے والے ممالک (OPEC) اپنی مجموعی پیداور میں 6 لاکھ 48 ہزار بیرل یومیہ اضافے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ خیال ہے کہ اس اضافی حجم کا بڑا حصہ سعودی عرب سے حاصل ہو گا۔ متحدہ عرب امارات سے ایک لاکھ بیرل اضافہ متوقع ہے۔ اوپیک کے باقی ارکان کے لیے پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ممکن نہیں۔ دوسری طرف پابندیوں کی بنا پر روس کی پیداوار اپریل میں گھٹ کر 95 لاکھ بیرل روزانہ رہ گئی۔ مارچ میں روسی کنووں سے پیداوار کا تخمینہ ایک کروڑ 30 لاکھ بیرل یومیہ تھا۔
روسی تیل اور گیس کی فروخت کم سے کم کردینے کی امریکی کوششیں کس حد تک کامیاب رہیں گی، اس کے بارے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے لیکن تیل کی سیاست نے ایندھن درآمد کرنے والے غریب ملکوں کو جس عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اس سے نجات کی مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اوپیک کی جانب سے پیداوار میں اضافے کی خبر ہے تو خوش آئند لیکن اس اعلان سے پہلے اوپیک ممالک ہر ماہ اپنی پیداوار میں چار لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کر رہے تھے۔ گویا حقیقی اضافہ ڈھائی لاکھ بیرل روزانہ سے بھی کم ہے۔
صدر بائیڈن جولائی میں ریاض جارہے ہیں جہاں وہ ولی عہد محمد بن سلمان سے سعودی کنووں کا منہ مزید کھول دینے کی درخواست کریں گے۔ دیکھنا ہے کہ شہزادہِ عالم امریکی صدر کو کیا جواب دیتے ہیں۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کے حوالے سے صدر بائیڈن کے تبصروں پر شہزادہ صاحب سخت برہم ہیں بلکہ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی ولی عہد صدر بائیڈن کے فون کا جواب بھی نہیں دے رہے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 جون تا 18 جون 2022