پانی کا بحران سنگین مسئلہ،طویل معیادی منصوبہ بندی ضروری

دنیا کی 2.2ارب آبادی کوصاف پانی میسر نہیں۔ بھارت میں زیرزمین پانی میں مسلسل انحطاط

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

پانی انسان، نباتات، جمادات و حیوانات سبھی کے لیے نا گزیرہے۔ دراصل تہذیب و تمدن کا ارتقا بھی پانی کے راستے ہی ہوا ہے۔ آکسیجن کے بعد پانی پر ہی ہماری زندگی کا مکمل انحصار ہے۔ پانی نہ رہے تو ساری دنیا بے رونق ہوجائے۔ جنت کا تصور بھی پانی کے نہروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ گویا پانی ہے تو زندگی میں رنگینیاں ہیں۔ کرہ زمین نظام شمسی کا ایک اہم ستارہ (Planet) ہے جو پانی کی موجودگی کی وجہ سے دیگر ستاروں سے بالکل ہی جدا ہے یہاں تک زمین کا تقریباً 71فیصد حصہ سمندروں، دریاؤں، تالاب اور گلیشیروں سے بھرا ہوا ہے۔ پانی اس قدر وافر مقدار میں ہونے کے باوجود بھارت اور دنیا بھر میں پانی کی قلت (water scarcity)کیوں ہے؟ گلوبل واٹر ڈسٹری بیوشن کے مد نظر 97فیصد پانی ناقابل استعمال (non-potable) اور مضر صحت ہے۔ سمندروں میں پانی تو ہوتا ہے مگر ہم اسے براہ راست استعمال سے قاصر ہوتے ہیں۔ اب صاف اور قابل استعمال پانی کے ذرائع دریائیں،گلیشیرس وغیرہ ہیں۔ ایسے صاف اور قابل استعمال پانی کے لیے زمینی پانی (Groundwater) کا بہت اہم کردار ہے کیونکہ یہ ان علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں جہاں دریائیں، تالاب اور گلیشرس دور تک دستیاب نہیں ہیں۔ بھارت کے طول و عرض کا بڑا حصہ بڑے پانی کے بحران (Major Water Crisis ) سے دوچار رہا ہے۔ اگر ہم نے اس مسئلہ کی سنگینی پر طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی تو یہ کورونا قہر سے زیادہ ہی خطرناک مصائب پیدا کرسکتا ہے ۔ گراونڈ واٹر دراصل زمینی سطح کے کافی نیچے پانی کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے، پانی کا یہ ذخیرہ مٹی اور چٹانوں میں اسپونج کی طرح جذب رہتا ہے۔ انہیں ٹکنالوجی کی مدد سے ہم قابل استعمال بناتے ہیں۔ زمین کے بہت نیچے ہونے کی وجہ سے ہینڈ، پمپس اور بورویل وغیرہ سے زمینی پانی کو نکالا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی بڑے شہر ہیں جو محض زمینی پانی پر ہی گذر بسر کرتے ہیں کیونکہ ان کے آس پاس کوئی آبی ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ بڑا شہر ہویا چھوٹا گاوں دنیا بھر کی تقریباً نصف آبادی صاف پانی کے لیے گراونڈ، واٹر پر منحصر ہے۔ دنیا میں موجود صاف پانی کا 30فیصد زمینی پانی سے ہی ملتا ہے۔ باقی 69 فیصد برف کے تودے (گلیشئرس) یا پہاڑی علاقے کا 33 فیصد حصہ انسانی استعمال میں ہوتا ہے۔ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں صد فیصد پانی کی ضرورت گراونڈ واٹر سے ہی پوری ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اور ان کے شہروں سے زمینی پانی نا پید ہوتا جارہا ہے اس بحران پر ابھی سے توجہ دینا ہوگا ورنہ عالمی خطرہ بن کر آبادی، صحت اور معیشت کو آہستہ آہستہ تباہ کرسکتا ہے۔ پانی کا عالمی بحران مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ انسانی سرگرمیاں، صنعتی استعمال کے ساتھ صنعتی گندگی (Pollution) جنگل کی کٹائی، قدرتی ذرائع (Resource ) کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے گلوبل وارمنگ (عالمی حدت) بڑھتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے زمین سوکھتی جارہی ہے جو نئے بحران کا پیش خیمہ ہے۔ اقوام متحدہ کے The United Nations International Groundwater Resources Assessment Centre(UN_IGRCA)سنٹر کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پینے کے قابل پانی صرف دنیائے انسانیت کی نصف آبادی کے لیے میسر ہے۔ عالمی طور پر پانی کے ذخیرہ کا 67فیصد زراعت کے لیے اور کارخانے 11فیصد استعمال میں لاتے ہیں اور بقیہ 22فیصد گھریلو (Domestic) استعمال کے لیے۔ فی الوقت دنیا میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے ورلڈ ہیلت آرگنائزیشن کے مطابق عالمی طور پر کروڑہا ایسے لوگ ہیں جن کو برتنے کے لیے پانی اور صحت و صفائی (Health and Hygiene) کے لیے بھی پانی نصیب نہیں ہوتا۔ 2.2بلین آبادی کا حصہ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے کم ترقی پذیر ملکوں میں 88فیصد لوگ آج بھی صاف پانی کے بغیر زندگی بسر کررہے ہیں۔ برصغیر ہندو پاک میں پانی کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
پیداوار کے لیے زمینی آب ایک واحد اور ضروری ذریعہ ہے۔ بھارت میں تقریباً 80فیصد آبادی گراونڈ واٹر پر ہی منحصر ہے۔ 1960کے سبز انقلاب کے بعد گراونڈواٹر کی ضرورت زرعی سرگرمیوں میں بہت زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔ ساتھ ہی کھاد اور دیگر کیمیاوی اشیا کا استعمال بھی خوب بڑھا۔ بھارت میں تقریباً چار فیصد ہی صاف پانی کا ذخیرہ ہے مگر دنیا کی 16 فیصد آبادی یہاں بستی ہے۔ ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بھارت ان 17ممالک میں شامل ہے جہاں کے لوگ سخت حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارت میں تقریباً 20 کروڑ لوگ ایسے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جہاں پانی کے ناقابل بقا استعمال(Unsustainable use) کی وجہ سے پانی معدوم ہورہا ہے یہ آبادی برازیل کی کل آبادی کے برابر ہے۔ ناسا کے ہائیڈرو لوجیکل سائنیسز لیباریٹری کے ڈائرکٹر میتھو روڈیل کا کہنا ہے کہ شمالی بھارت میں گراونڈ واٹر میں انحطاط کی شرح تقریباً 19.2گیگا ٹن سالانہ ہے جو بہت ہی خطرناک ہے۔
پانی کی بدنظمی کو دور کرنے کی نیتی آیوگ کے ذریعے جاری کردہ واٹر مینجمنٹ انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی شرح نمو میں رکاوٹ آرہی ہے اس کی بڑی وجہ پانی کی شدید قلت ہے کیونکہ ہمارے ملک کی 80 فیصد دیہی آبادی حسب ضرورت پانی کے مقدار سے محروم ہے جو میسر ہے اس کی 7تا 8فیصد پانی آلودگی کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں موجود پانی کے کل ذخیرہ کو دیکھیں تو وہ تشفی بخش ہے۔ ہمارے یہاں سالانہ پانی کی دستیابی 1870ارب کیوبک میٹر ہے جس میں 11.25ارب کیوبک میٹر ہی قابل استعمال ہے مگر جب اعداد و شمار پر نظر دوڑاتے ہیں تو پانی کی بربادی،اس کا غیر ضروری استعمال اور بد نظمی کے ساتھ غیر منصفانہ تقسیم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ پانی کے سلیقے سے استعمال میں سختی برتنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ’’واٹر فٹ پرنٹ‘‘ کی تشکیل بہت اہم اور فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے بد قسمتی سے اس ضمن میں منصوبہ ساز اور عوام الناس بہت کم ہی بیدار ہیں۔ ہمارے یہاں جنس کے ایک پینٹ کے لیے کپاس کی کاشت کرنے سے لے کر رنگنے دھونے میں 10ہزار لیٹر پانی ضائع کردیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں محض 1500لیٹر پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے ملک کا واٹر فٹ پرنٹ انڈیکس 980کیوبک میٹر ہے جبکہ اس کا عالمی اوسط 1243کیوبک میٹر ہے۔ نیتی آیوگ کی تازہ رپورٹ کے مطابق پانی کے بحران کی اہم وجہ پانی کا mismanagement ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اس کی آسودگی کے لیے بڑھتی ہوئی کھیتی اور مویشیوں کی نگہداشت اور صنعت کاری کی وجہ سے سال دو سال پانی کی دستیابی کم سے کم تر ہورہی ہے۔
1951میں ہمارے ملک میں فی کس اوسطاً 14ہزار 180لیٹر پانی دستیاب تھا مگر 2001میں 1608پر پہنچ گیا اور اندازہ ہے کہ 2025تک یہ محض 1340ہی رہ جائے گا خواہ کچھ لوگ بوتلوں کے پانی پر خود کو منحصر سمجھتے ہیں مگر ایک لیٹر صاف پانی کے لیے کم ازکم 5لیٹر پانی برباد ہوتا ہے۔ یہ صرف بڑے کارخانوں میں ہی نہیں بلکہ گھروں میں لگے آر او میں بھی ہوتا ہے۔ پانی کی بربادی اور ضیاع کو روکنے کے لیے ہمارے ملک میں سنجیدگی سے کوئی منصوبہ ہی نہیں بنا ہے اگر سبھی پیداوری اشیا کا اندازہ متعین کردہ واٹر فٹ پرنٹس کی بنیاد پر ہونے لگے تو ظاہر ہے کہ خدمات اور پیداوار سے متعلقہ اداروں کے آبی ذرائع ان کی محافظت اور کفایتی استعمال ، پانی کی آلودگی جیسے مسائل پر بالتفصیل مشاورت ہوسکتی ہے۔ ہمارے درآمدات اور برآمدات کی پالیسی کیسی ہو؟ ہم اپنے کھیتوں میں کیا پیدا کریں؟ دوبارہ سے مستعمل ہونے والے پانی کے لوازمات جیسے خصوصی موضوعات خود ہی لوگوں کے درمیان چھا جائیں گے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے امسال ہریانہ نے پانی بچانے کے ارادے سے دھان کی کھیتی کی جگہ مکئی کی کاشت کی ہمت افزائی کے لیے بلا معاوضہ بیج اور دیگر کئی سہولتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے کئی تجربے ملک کو پانی دار بنانے کی سمت میں مفید اور کارگر ہوسکتے ہیں۔ ہم صرف یہ اندازہ لگانا شروع کریں کہ کون کون سے مقامات پر پانی کا غیر ضروری اور بے جا استعمال ہورہا ہے جسے بحسن و خوبی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اسی کو سامنے رکھتے ہوئے ہر سال 22مارچ کو عالمی یوم آب (World Water Day) منایا جاتا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ دنیا کو اور اپنے ملک کو پانی کی آلودگی اور ضیاع سے بچایا جائے کیونکہ پانی کے ضیاع اور بے جا استعمال سے ہی پانی کے بحران (water crisis) کا اندیشہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ اس لیے رسول رحمتﷺ نے حضرت سعدؓ کو وضو کرنے میں کچھ زیادہ پانی کے استعمال سے روکا اور فرمایا سعدؓ یہ کیا ہے؟ سعدؓ نے کہا یا رسول ؐوضو کرنے میں بھی ، نبیؐ نے کہا ہاں یہاں تک کہ تم بہتے ہوئے دریا کے کنارے ہی وضو کیوں نہ کررہے ہو (مسند احمد) فی الوقت دنیا کے 20فیصد امیر لوگ 80فیصدپانی ،فائیو اسٹار ہوٹلوں، آبی عیاشی کے دیگر مراکز میں بے دریغ خرچ کررہے ہیں۔

 

***

 پانی کی بدنظمی کو دور کرنے کی نیتی آیوگ کے ذریعے جاری کردہ واٹر مینجمنٹ انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی شرح نمو میں رکاوٹ آرہی ہے اس کی بڑی وجہ پانی کی شدید قلت ہے کیونکہ ہمارے ملک کی 80 فیصد دیہی آبادی حسب ضرورت پانی کے مقدار سے محروم ہے جو میسر ہے اس کی 7تا 8فیصد پانی آلودگی کی وجہ سے ناقابل استعمال ہے۔ اگر ہم اپنے ملک میں موجود پانی کے کل ذخیرہ کو دیکھیں تو وہ تشفی بخش ہے۔ ہمارے یہاں سالانہ پانی کی دستیابی 1870ارب کیوبک میٹر ہے جس میں 11.25ارب کیوبک میٹر ہی قابل استعمال ہے مگر جب اعداد و شمار پر نظر دوڑاتے ہیں تو پانی کی بربادی،اس کا غیر ضروری استعمال اور بد نظمی کے ساتھ غیر منصفانہ تقسیم کی شکل میں سامنے آتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  17 تا 23 اپریل  2022