’’ودیانجلی‘‘ تعلیم کے میدان میں خدمت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں
صلاحیتوں کےبہتر استعمال کے ساتھ نئی نسل کو فائدہ پہنچانے کا آسان راستہ
باصلاحیت افرادکے لیے رضاکارانہ طور پرسرکاری ونیم سرکاری اسکولوں میں تعاون پیش کرنے کے مواقع
ہندوستان میں بدلتے تعلیمی منظر نامے کے دوران حکومت ہند نے’’ ودیانجلی‘‘ کے نام سے ایک پروگرام متعارف کروایا ہے۔ یہ ایجوکیشن پروگرام کیا ہے اور اس کو وسیع تر مفادات کے لیے اپنے حق میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہےاس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا نا چاہیے۔
’’ودیانجلی‘‘ سنسکرت زبان میں لفظ ودیا کا مجموعہ ہے۔ جس کا مطلب ہے’’صحیح علم‘‘ یا’’وضاحت‘‘اور انجلی کا مطلب ہے’’دونوں ہاتھوں سے پیش کش‘‘کرنا۔دراصل حکومت ہند نے 2020 میں نئی قومی تعلیمی پالیسی (نیشنل ایجوکیشن پالیسی) این ای پی ( NEP )کے نام سے متعارف کروایا تھا۔ اس ایجوکیشن پالیسی میں کئی اصلاحات کی گئی تھیں۔ تعلیم کے میدان میں کئی انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نئے نئے پروگراموں کے ذیل میں’’ودیانجلی‘‘کو بھی متعارف کیا گیا تھا۔ اس طریقہ تعلیم کا نام’’ ودیا والنٹیر‘‘ ( vidya volunteers) ہے۔ یعنی تعلیم کے میدان میں قابل اور باصلاحیت افراد رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ اس تجویز کے وسیع تر سیاسی اور سماجی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا بہترین پہلو یہ ہے کہ ایک ایسا فرد جس میں کچھ تدریسی شعبہ جات سے متعلق صلاحیتیں موجود ہیں، گرچہ وہ کہیں بھی رہتا ہو وہ اپنی سہولت کے عین مطابق درکار تعلیمی اداروں میں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر سکتاہے۔ یعنی وہ جہاں مقیم ہے وہیں اپنے قریب کے اسکول میں تعاون پیش کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔
فی الوقت یہ دیکھا جا رہا ہےکہ سرکاری اسکولوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ اکثر اسکول اتنی خستہ حالت میں ہوتے ہیں کہ جہاں لوگ اپنے بچوں کو داخلہ دلانا پسند نہیں کرتے، اسی وجہ سے وہاں کا تعلیمی معیار بھی بہت کم زور ہوتا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ایسے اسکولوں میں اساتذہ بڑے قابل ہوتے ہیں، ان کی مسلسل ٹریننگ کی جاتی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ تجربہ کار اور قابل اساتذہ ہونے کے باوجود ان میں عزم اور سماجی وابستگی کی کمی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے شاید سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار گرتا جارہا ہے۔ حکومتِ ہند چاہتی ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار بھی اونچا رہے۔
چناں چہ حکومتِ ہند کی وزارت تعلیم نے نئی تعلیمی پالیسی NEP میں کئی تجاویز پیش کیں۔ جس میں سے ایک اہم پروگرام’’ودیانجلی‘‘میں تعلیم یافتہ افراد خود بطور والنٹیر (رضا کارانہ طور پر ) اپنے قریبی اسکولوں میں جاسکتے ہیں اور وہاں کی ضروریات کے مطابق اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں یا صاحبِ استطاعت افراد بچوں کی بہتر تعلیم کا انتظام کر سکتے ہیں۔
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک اچھا پروگرام ہے اور ظاہر ہے ہر پروگرام کے کچھ منفی پہلو اور مثبت پہلو ہوتے ہیں۔ اس پروگرام کے بھی اسی طرح کچھ مثبت پہلو ہیں۔ اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ سماج کے عام رجحان کے مطابق وہ قابل افراد جو تدریس کے میدان میں نہیں جاتے، اگر ایسے افراد خواہش رکھتے ہیں جیسا کہ ان میں بیشتر رکھتے بھی ہیں، تو وہ جاکر ’’ پری ایجوکیشن ’’(pre education) سے لے کر سیکنڈری ایجوکیشن‘‘( secondary education) تک کے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی سرکاری اسکول میں بچے انگریزی کی تعلیم میں کم زور ہیں یا وہاں کے بچے انگریزی زبان میں گفتگو نہیں کر پا رہے ہیں تو ایسے افراد جو کس کارپوریٹ ہاؤس میں کام کرتے ہیں اور ان کی انگریزی اچھی ہے تو وہ ویک اینڈ یا اپنے فارغ اوقات میں قریبی اسکول کے بچوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ان کی زبان میں مہارت پیدا کرسکتے ہیں۔
اسی طرح ریاضیات کے مضمون کے تعلق سے بچوں میں عدم دل چسپی کا رجحان عام ہے۔ جس کی بناء پر اس مضمون میں بچوں کا مظاہرہ عموما حوصلہ افزا نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس مضمون کو صحیح انداز میں پڑھایا یا سمجھایا جائے تو یہ بہت دل چسپ مضمون ثابت ہو سکتا ہے۔ وہاں پر مقامی کارپوریٹ ہاؤس میں کام کرنے والے سافٹ ویئر انجینئرز یا کامرس کے شعبہ سے وابستہ افراد اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔
اسی طرح بہت سارے سرکاری اسکولوں کے فارغین، بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے اپنے اسکولوں میں اپنا تعاون پیش کریں۔ جیسا کہ بہت سارے اسکولوں میں کمپیوٹرز نہیں ہوتے صاف پانی، بیت الخلا، پلے گراونڈ جیسی سہولیات نہیں ہوتیں۔ پلے گراونڈ ہوتا ہے تو کھیلنے کے سامان نہیں ہوتے۔ صاحبِ استطاعت افراد ایسی بنیادی ضروریات کو اسپانسر کر سکتے ہیں۔
یہ ویلفیئر سسٹم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذہن میں تھا، اسی پروگرام کو’’ودیا والنٹیر ‘‘کے نام سے متعارف کروایا گیا۔ جس پر عمل آوری میں سہولت کی خاطر حکومت ہند نے https: //vidyanjali.education.gov.in کی ویب سائٹ پر تمام معلومات فراہم کی ہیں۔
حکومت یہ چاہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ والنٹیرز اس پروگرام سے منسلک ہوں۔ابھی تک کی معلومات کے مطابق آٹھ ہزار سے زائد افراد رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر چکے ہیں۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد شامل ہوجائیں۔
انفرادی طور پر کس طرح’’ودیانجلی‘‘پروگرام سے وابستہ ہوسکتے ہیں اس کی تفصیلات، مذکورہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ جس میں گیارہ الگ الگ شعبہ جات کا ذکر ہے۔ خواہش مند افراد اپنی صلاحیتوں اور ہنر کے مطابق اپنے شعبے کا انتخاب کرتے ہوئے انفرادی یا اجتماعی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔
ودیانجلی کےدو شعبے ہیں
(۱) راست مدد کرتے ہوئے اسکول کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں۔
(۲) بالراست مدد کے زمرے میں’’انفراسٹرکچر اثاثہ جات، تعلیمی مواد، دیگر ضروری سامان‘‘ کی فراہمی کے ذریعے، رضاکارانہ طور پر سرکاری اسکولوں اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں کی مدد کرتے ہوئے تعلیمی نظام کو پختہ کرسکتے ہیں۔
رضاکارانہ معاونت کے لیے بالواسطہ اور بلا واسطہ، وسیع زمرے اس طرح درج ہیں۔
(۱) سبجیکٹ اسسٹنٹ (Subject Assistant)
جس میں سائنس، ریاضی کے ساتھ ساتھ تمام مضامین میں اپنی خدمات پیش کی جاسکتی ہیں۔ جس میں اخلاقی تعلیم (Moral Education) کے سبجیکٹ کا انتخاب کرکے بچوں کو اخلاقی تعلیم ( Moral values) دی جاسکتی ہے۔
(۲)ٹیچنگ آرٹ اینڈ کرافٹ
( Teaching Art & Craft )
یہاں بچوں میں فنون لطیفہ سے متعلق امور کی تربیت فراہم کی جاسکتی ہے۔
(۳) ٹیچنگ ان یوگا اینڈ اسپورٹس (Teaching Yoga / Sports)
اس شعبے میں یوگا اور کھیل سے متعلق تربیت فراہم کی جاسکتی ہے۔
(۴) ٹیچنگ لینگویجس
( Teaching Languages)
اس زمرے میں تمام ہندوستانی زبانیں شامل ہیں۔
(۵) پیشہ ورانہ ہنر سے متعلق تربیت
( Teaching Vocational Skills )
اس زمرے میں کمپیوٹر، الکٹرانک اشیاء، کارپینٹر وغیرہ جیسے وہ تمام ہنر شامل ہیں جس میں مہارت پیدا کرتے ہوئے معاشی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(۶)خصوصی دیکھ بھال والے بچوں کے لیے امداد
( Assistance for Children with Special Needs)
یہ ایک وسیع میدان ہے۔آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے بچے اسپیشل توجہ چاہتے ہیں۔ ان کی اپنی الگ انفرادی ضروریات ہوتیں ہیں۔ اس کے علاوہ معذور بچے ہوتے ہیں جو خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔ کبھی ان کی ذہنی نشوونما کم ہوتی ہے تو کبھی ان کو پڑھانے کا الگ انداز ہوتا ہے۔ اگر آپ اس خصوصی میدان میں مہارت رکھتے ہیں تو اپنی اس صلاحیت کے ذریعے ان بچوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
(۷) تعلیم بالغاں (Adult Education)
شاید حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہر اسکول میں تعلیم بالغان کا اہتمام ہو تو ایسے افراد جو اس میدان میں کونسلنگ کا تجربہ رکھتے ہیں وہ اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔
(۸)کہانیاں، ناولز لکھنے اور گرافکس بنانے کے فن کو ابھارنا
( Preparing Story Books / Graphic Novels)
بچوں کے لیے کہانیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کہانیاں بچوں میں اخلاقی اقدار کو بڑھانے کے لیے ضروری ہیں۔ آج کل نئے نئے انداز کے طریقہء کار کو اپنا کر تعلیم کو دل چسپ بنایا جارہا ہے۔ تعلیم کو دل چسپ اور آسان بنانے کے لیے کہانیوں کے تصور کو استعمال کیا جانے لگا اور اس کے ذریعے بچوں میں کہانیاں لکھنے کی تربیت کی جارہی ہے۔ اسی طرح کہانیوں کو ریاضی کے مضمون میں پڑھایا جاسکتا ہے۔یہ بھی ایک وسیع تعلیمی میدان ہے جہاں تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد نوآموز طلبا کی مدد کر سکتے ہیں۔
(۹) کرئیر کونسلنگ کے ذریعے طلبا کو رہ نمائی فراہم کرنا
( Mentoring Students for Career Counselling )
یہ بہت بڑا چیلنج آج کے ہمارے سماج میں ہے۔ بچوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ یا تو انھیں ڈاکٹر بننا ہے یا انجنئیر بننا ہے۔صحیح کرئیر کونسلنگ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بیشتر بچے درمیان میں ہی اپنی تعلیم منقطع کردیتے ہیں۔ پوسٹ گریجویشن لیول تو درکنار انڈر گریجویٹ لیول پر ہی ان کا مجموعی تناسب کافی حد تک کم زور ہوجاتا ہے۔یعنی 10+2 تو پڑھ لیا لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ 10+2 کے بعد اس کو میڈیکل یا انجینئرنگ میں سیٹ نہیں ملی تب وہ اپنی تعلیم منقطع کرکے بیٹھ جاتا ہے یا پھر کوئی آسان سا پیشہ جیسے کال سینٹر، swiggi یا zomato وغیرہ میں چلا جاتا ہے۔
اسی لیے آج کل کے بچوں کو کرئیر کونسلنگ کی سخت ضرورت ہے۔ اس طرح ذہین بچوں کے لیے بھی ایک الگ طرح کی کونسلنگ ضروری ہے۔ ذہین بچے بھی ڈاکٹری یا انجینئرنگ کے طرف ہی مائل ہوتے ہیں جب کہ دیگر کئی ایسے شعبہء جات ہیں جہاں ذہین بچوں کو جانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔
(۱۰) ہونہار، خدا داد صلاحیتوں والے بچوں کی رہ نمائی
Mentoring of gifted / talented children
یعنی کچھ بچوں میں خدا داد صلاحیتیں بے پناہ ہوتی ہیں۔ جیسے کچھ بچے ابتدائی جماعتوں میں ہی پیچیدہ مضامین جیسے ریاضی وغیرہ میں انتہائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے طلبا کی صلاحیتوں کو بروقت ابھار کر ان کی صحیح رہ نمائی کی جاسکتی ہے۔
(۱۱) داخلہ کے امتحانات اور مقابلوں کی تیاری کے لیے معاونت
Support for preparation for Entrance Examinations and Competitions
یہ بھی طلبا کے بہتر مستقبل کو سنوارنے کے معاملے میں ایک وسیع میدان ہے۔چوں کہ آج کل تعلیمی نظام کوچنگ پر منحصر ہوگیا ہے۔ مقابلہ کے امتحانات میں اگر طلبا اچھےنشانات حاصل کرتے ہیں تو انھیں اچھی جگہ پر داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔انٹرنس امتحانات کی تیاری میں مدد کرنے کے خواہش مند افراد اس شعبے میں طلبا کی مدد کر سکتے ہیں۔
مندرجہ بالا ان گیارہ شعبہء جات میں کسی بھی شعبے سے متعلق قابل افراد اپنے آپ کو رضاکارانہ تعاون کے لیے پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسپانسر شپ بھی خدمت کا ایک اچھاطریقہ ہے۔ جس میں سرکاری اسکولوں کے ساتھ ساتھ نیم سرکاری امداد والے اسکولوں میں ضرورت کے مطابق سامان فراہم کرتے ہوئے طلبا کی مدد کی جاسکتی ہے۔ جس کی تفصیلات اس طرح ہیں۔
(۱)بنیادی سیول انفراسٹرکچرBasic Civil Infrastructure
(۲)بنیادی الیکٹریکل انفراسٹرکچر
Basic Electrical Infrastructure
(۳)کلاس روم کی ضروریات
Classroom Needs
(۴)ڈیجیٹل انفراسٹرکچر
Digital Infrastructure
(۵)نصابی سرگرمیوں سے متعلق اشیاء اور ان کے کھیلوں کا سامان
Equipment for Co-Curricular Activities & Sports
(۶)صحت اور حفاظتی امور سے متعلق امداد
Health and Safety aids
(۷) تدریسی مواد
Teaching Learning Material
(۸)دیکھ بھال اور مرمت
Maintenance &
Repairs
(۹) آفس سے متعلق ضروریات فراہم کرنا
Office Needs
(۱۰)ٹول کٹس اور متفرق سامان
Tool Kits and Miscellaneous Equipment
(۱۱)اقامتی اسکولوں کی ضروریات
Items for Residential Schools
مندرجہ بالا تمام شعبوں میں مختلف طریقوں سےاسپانسر شپ کے ذریعے طلبا مدد کی جاسکتی ہے۔ جس میں طلبا کی کونسلنگ کے لیے ماہرین کی خدمات کو طلب کیا جاسکتا ہے۔ اسپورٹس میں دل چسپی رکھنے والے یا کسی کھیل میں مہارت رکھنے والے طلبا کی فزیکل کونسلنگ کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح طلبا کی ذہنی اور فکری نشوونما کے لیے اور نفسیاتی مسائل و پریشانیوں کا شکار طلبا کی مدد کرنے کے ماہرین کو معاوضہ دے کر ان کی خدمات لی جاسکتی ہیں۔ کرئیر کونسلنگ کے لیے کونسلرز اور موٹیوشنل اسپیکرز کو بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی مضمون کے ماہرین کو مدعو کرکے بچوں کےلیے اسپیشل کلاسز کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ سافٹ ویر کے ماہرین، یا کسی مخصوص میدان کے ماہرین، کسی بڑی کمپنی کے سی اے او، آئی اے ایس آفیسرز کو بلا کر طلبا کے لیے گیسٹ لیکچر منعقد کروائے جاسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مالی تعاون بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ کھیل اور دیگر ثقافتی تقریبات بہت اچھی طرح منعقد کروائی جاسکتی ہیں۔ جس سے طلبا میں سماجی یکجہتی کا شعور بیدار ہوتا ہے۔ ان تقریبات کا انعقاد کرتے ہوئے سماج کے کوئی بھی صاحبِ استطاعت افراد ان کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک مد میں اپنی خدمات پیش کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح سماجی خدمات کے میدان میں یہ ایک اچھا پراجیکٹ ہے۔ صاحبِ استطاعت افراد اس میدان میں آگے آکر طلبا کے بہتر مستقبل کے لیے ان کی کئی طرح سے مدد کر سکتے ہیں۔
کسی بڑے مفکر نے کہا ہے کہ’’بے راہ کو راہ دکھائیں۔‘‘ یعنی جو راستہ نہیں جانتے انھیں راستہ دکھائیں۔ یہاں راستہ دکھانے سے مراد یہ بھی ہے کہ ایک مسافر آپ کے شہر میں آجاتا ہے اور وہ کہیں اپنے مقام پر جانا چاہتا ہے تو اس کو آپ اس کے مقام کا راستہ بتادیں۔ یہ ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ لیکن اس مفکر کا اشارہ اس عظیم عمل کی طرف ہے جس پر چل کر انسانیت حق کو پالے۔ آپ اپنی کوششوں سےاس اہم راستے کی نشان دہی کریں۔ یعنی علم سے نابلد انسان کو علم سکھائیں اور دشمن کو دوست بنائیں۔ دنیا آپ کے قدم چومے گی۔
آج امت مسلمہ جس کیفیت سے گزر رہی ہے اگر ہم اس کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں بےراہ کو راہ دکھانی ہوگی، بے علم کو علم سکھانا ہوگا اور دشمن کو دوست بنانا ہوگا۔ ہمیں یہ تین کام ضرور کرنے چاہییں۔
بے علم کو علم سکھانا جس طرح ایک بڑا معاملہ ہے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ودیانجلی ڈاٹ کام (vidiyanjali.Com) ہے۔ جس کی سہولت خود حکومت آگے بڑھ کر ہمیں فراہم کررہی ہے۔ اس موقع کو کارگر بنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس پروگرام سے منسلک ہوتے جائیں اور ہمارے مستقبل کے آئینے کو منور کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر آپ اس موقع کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کرجائیں اور اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سےاس پروگرام میں شرکت کو ضروری نہ سمجھنے لگیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ جو لوگ اس پروگرام میں شریک ہورہے اور اس پروگرام کی معاونت میں فعال ہیں یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے آج ہندوستان بھر میں اپنے مخصوص نظریات سے طلبا کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں ایک مخصوص نظر وفکر کا غلبہ ہو۔ ایسی سوچ رکھنے والے ان اسکولوں میں متحرک ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں ایسے والنٹیر سرگرم ہیں جو سائنس، ریاضی، تاریخ اور دیگر مضامین کی تعلیم دیتے ہوئے نفرت کا سبق بھی شامل کرسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اس طرح کا ایجنڈا رکھنے والے لوگ ودیانجلی پروگرام کے تحت بڑی تیزی کے ساتھ متحرک ہیں۔ یہ معاملہ اب آپ کا ہے اور یہ ایک طرح سے چیلنج ہے۔ ان معاملات کو دعوؤں سے نہیں بلکہ تدبر اور تحمل سے حل کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے عملی اقدامات کو روبعمل لانا ہوگا۔یہ اقدامات اس لیے بھی ضروری ہیں کیوں کہ حکومت خود چاہتی ہے آپ اسکولوں میں جائیں اور پڑھائیں۔ اس وقت اگر حالات کا جائزہ نہیں لیں گے تو آنے والا زمانہ ہمیں معاف نہیں کرے گا اور نسلیں تباہ ہوجائیں گی۔اس پر غور کریں اور مہم چلاکر تعلیم یافتہ مرد و خواتین دونوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلا کر زیادہ سے زیادہ تعداد میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ وہ تعلیم یافتہ خواتین جو صرف ہوم میکر ہیں، خود آگے بڑھ کر اپنی غیر ضروری مصروفیات کو ختم کرتے ہوئے نئی نسل کی تربیت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر سکتی ہیں۔
’’ودیانجلی ‘‘پروگرام میں اپنا نام رجسٹر کروانے کے لیے گوگل پرvidiyanjali.education.comجاکر اپنی مرضی اور سہولت کے پروگرام میں شرکت کرسکتے ہیں۔ اس پروگرام کے قواعد و قوانین بالکل آسان ہیں جو ہر ہندوستانی شہری کےلیے میسر ہیں۔ اس کے علاوہ عمومی امداد کے خواہش مند افراد بھی اسی ویب سائٹ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ترتیب و پیش کش: آسیہ تنویر، حیدرآباد