سیرت صحابیات سیریز(۱۷)

حضرت فاطمہ بنت اسدؓ

حضورؐ کی چاچی جنہوں نے آپ کی حفاظت وحمایت میں جان کا بازی لگائی تھی
ہجرت نبویؐ کے چار پانچ سال بعد کا ذکر ہے کہ ایک دن رحمت عالمﷺ ایک اندوہناک خبر سن کر سخت ملول ومحزون ہوگئے اور آپؐ کی چشم ہائے مقدس سے سیل اشک رواں ہوگیا۔ یہ ایک خاتون کی وفات کی خبر تھی۔ آپؐ فوراً میت والے گھر تشریف لے گئے اور ابدی نیند سونے والی خاتون کے سرہانے کھڑے ہوکر فرمایا:
’’اے میری ماں خدا آپ پر رحم کرے۔ آپ میری ماں کے بعد ماں تھیں۔ آپ خود بھوکی رہتی تھیں، مگر مجھے کھلاتی تھیں، آپ کو خود لباس کی صرورت ہوتی تھی لیکن آپ مجھے پہناتی تھیں‘‘۔
اس کے بعد آپؐ نے غمزدہ اہل خانہ کو اپنی قمیص مبارک مرحمت فرمائی اور ہدایت کی کہ انہیں میر ی قمیص کا کفن پہناو۔
پھر آپؐ نے حضرت اسامہ ؓ اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو حکم دیا کہ جنت البقیع میں جاکر قبر تیار کریں۔ جب وہ قبر کا اوپر کا حصہ کھود چکے تو سرورکونینﷺ خود نیچے اترے اور اپنے دست مبارک سے لحد کھودی اور حود ہی اس میں سے مٹی نکالی۔ جب یہ کام پورا ہوگیا تو ساقی کوثر لحد کے اندر لیٹ گئے اور دعا مانگی:
’’الہی! میری ماں کی مغفرت فرما اور ان کی قبر کو وسیع کردے‘‘
یہ دعا مانگ کر آپؐ قبر سے باہر نکلے تو شدت غم سے ریش مبارک ہاتھ میں پکڑ کر رکھی تھی اور رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔
یہ خوش بخت اور عالی مرتبت خاتون جن سے سید المرسلین خیر الخلائق فخر موجودات ﷺ کو ایسا گہرا لگاو اور پیار تھا، حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ تھیں۔
حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کا شمار ان جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے، جو امت مسلمہ کے لیے سرمایہ فخر و ناز ہیں۔ وہ سردار قریش ہاشم بن عبد مناف کی پوتی، حضرت عبدالمطلب کی بھتیجی اور بہو، ابو طالب کی زوجہ سرور کونینﷺ کی چچی اور سمدھن، حضرت جعفر طیارؓ شہید موتہ اور شیر خدا حضرت علی مرتضیؓ کی والدہ اور خاتون جنت سیدۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہرا بتولؓ کی خوش دامن تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کے والد اسد بن ہاشم ، رحمت عالمﷺ کے داد حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے سوتیلے بھائی تھے۔ (اسد کی والدہ کا نام قیلہ بنت عامر تھا اور حضرت عبدالمطلب، سلمی بنت عمرو بن زید نجاری کے بطن سے تھے) تاریخ میں اسد بن ہاشم کے حالات بہت کم ملتے ہیں۔
حضرت فاطمہؓ نے قریش کے معزز ترین گھرانے بنو ہاشم میں ہوش کی آنکھیں کھولیں اور اسی میں پروان چڑھیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بچپن ہی سے نہایت اعلیٰ اوصاف و خصائل کی مالک تھیں۔ چناں چہ حضرت عبدالمطلب کی نگاہ گوہر شناس نے انہیں اپنی بہو بنانے کے لیے منتخب کرلیا اور اپنے فرزند عبد مناف (ابو طالب) سے ان کا نکاح کردیا۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے انہیں چار فرزند اور تین لڑکیاں عطا کیں۔ لڑکوں کے نام طالب، عقیلؓ، جعفرؓ اور علیؓ تھے اور لڑکیوں کے نام ام ہانیؓ (ان کا اصل نام با اختلاف روایت فاختہ، ہند یا فاطمہ) جمانہ اور ربطہ تھے۔ علامہ ابن عبدالبرؒ نے ’’استیعاب‘‘ میں لکھا ہے۔ ہی اول ہاشمیہ ولدت لہا شمی (یعنی یہ پہلی خاتون ہپیں، جن سے ہاشمی اولاد پیدا ہوئی) کہا جاتا ہے کہ وہ شعر و شاعری میں بھی درک رکھتی تھیں۔ چناں چہ یہ شعر ان سے منسوب ہے جو انہوں نے اپنے فرزند عقیلؓ کے بارے میں کہا تھا:
انت تکون ساجد نبیل
اذا تہب شمال بلیل
بعثت کے بعد رحمت عالمﷺ نے دعوت حق کا آغاز فرمایا تو بنو ہاشم نے آپ ؐ کا سب سے زیادہ ساتھ دیا۔ حضرت فاطمہؓ کے فرزند حضرت علی کرم اللہ وجہ تو دعوت حق پر لبیک کہنے والے اولین نوجوان )لڑکے تھے(خود حضرت فاطمہؓ بھی ابتدائے دعوت میں سعادت اندوز اسلام ہوگئیں۔ کچھ عرصے بعد ان کے دوسرے فرزند جعفرؓ بھی پرستاران حق میں داخل ہوگئے۔ علامہ ابن اثیرؒ نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دن رحمت عالمﷺ حضرت علیؓ کے ساتھ مشغول عبادت تھے ۔ابو طالب نے انہیں دیکھا تو حضرت جعفرؓ سے فرمایا:
بیٹے تم بھی اپنے ابن عم کے ساتھ کھڑے ہوجاو‘‘
حضرت جعفر ؓ حضورؐ کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے، عبادت میں انہیں ایسا لطف آیا کہ حضورؐ کے دار ارقم میں پناہ گزین ہونے سے پہلے ہی اسلام سے بہرہ ور ہوگئے۔
ابو طالب ، حضرت فاطمہؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓ ، رحمت عالمﷺ سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ فی الحقیقت عبدالمطلب کی وفات کے بعد ابو طالب اور ان کی اہلیہ فاطمہؓ نے جس خلوص اور دل سوزی کے ساتھ سرور کونینﷺ کی سرپرستی کی اور نہایت نامساعد حالات میں بھی آپؐ کی حفاظت و حمایت میں جان کی بازی لگادی ، تاریخ میں اس کیا مثال نہیں ملتی۔
بعثت کے بعد جب اہل حق پر مشرکین قریش کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے تو سرور عالمﷺ نے مسلمانوں کو حبش کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چناں چہ ۵ بعد بعثت اور ۶ بعد بعثت میں مسلمانوں کے دو قافلے یکے بعد دیگرے ارض مکہ کو الوداع کہہ کر حبشہ چلے گئے۔ ان مہاجرین میں حضرت فاطمہؓ کے فرزند دلبند حضرت جعفرؓ بھی تھے اور ان کے ساتھ ان کی اہلیہ حضرت اسمابنت عمیسؓ بھی تھیں۔ ابن اسحاق ؒ کا بیان ہے کہ حضرت جعفرؓ پہلی ہجرت حبشہ کے شرکا میں سے تھے لیکن موسیٰ بن عقبہ نے مغازی میں لکھا ہے کہ وہ دوسری ہجرت کے مہاجرین میں سے تھے۔ بہر صورت حضرت فاطمہؓ نے بڑے صبر اور حوصلے کےساتھ اپنے فرزند اور بہو کی جدائی برداشت کی۔
۷ نبوت میں مشرکین قریش نے فیصلہ کیا کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو مطلب محمدﷺ کو قتل کے لیے ان کے حوالے نہ کریں گے کوئی شخص ان کے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھے گا۔ نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کی جائے گی اور نہ ان سے رشتہ ناتا کیا جائے گا۔ اس فیصلے کو معرض تحریر میں لاکر ہر قبیلے کے نمائندے نے دستخط کیے یا انگوٹھا لگایا اور اسے درکعبہ پر آویزاں کردیا۔ ابو طالب کو اس معاہدے کا علم ہوا تو وہ بنو ہاشم اور ان کے بھائی مطلب کی تمام اولاد و احفاد کو ساتھ لے کر شعب ابی طالب میں پناہ گزیں ہوگئے۔ صرف ابو لہب اور اس کے زیر اثر چند ہاشمیوں نے مشرکین کا ساتھ دیا۔ بنو ہاشم اور بنو مطلب مسلسل تین برس تک شعب ابی طالب میں زہرہ گداز مصائب و آلام جھیلتے رہے، ان محصورین میں حضرت فاطمہؓ بنت اسد بھی تھیں۔ اس دور ابتلا میں انہوں نے اپنے اہل کنبہ کے ساتھ کمال درجے کی ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔
۱۰ نبوت میں حضور ؐکے چچا ابو طالب نے وفات پائی تو آپؐ کی سرپرستی کی ذمہ داری حضرت فاطمہؓ نے اٹھالی، وہ اپنے فرزندوں سے بھی بڑھ کر آپ ؐ پر شفیق تھیں۔
جب عام مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا تو حضرت فاطمہؓ بھی ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئیں۔ ہجرت کے موقعے پر ان کے لخت جگر حضرت علی مرتضیؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور ؐ پرنور انہیں اپنے بستر پر سلاکر سفر ہجرت پر روانہ ہوئے۔
ہجرت نبوی کے دو یا تین سال بعد حضرت فاطمہ بنت اسدؓ کے فرزند دلبند جناب علی مرتضیؓ کا نکاح رحمت عالمﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ الزہرا بتولؓ سے ہوا۔ اس موقعے پر زوج بتولؓ نے اپنی والدہ ماجدہ سے مخاطب ہوکر فرمایا:
فاطمہ بنت رسولؐ آتی ہیں۔ میں پانی بھروں گا اور باہر کا کام کروں گا اور وہ چکی پیسنے اور آٹا گوندھنے میں آپ کی مدد کریں گی۔
رحمت عالم ﷺ کو حضرت فاطمہ بنت اسد سے بڑی محبت تھی۔ آپؐ اکثر ان سے ملنے کے لیے تشریف لے جاتے اور ان کے گھر آرام فرماتے۔ حضور ؐ نے کئی بار ان کی شفقت، شرافت اور خصائل حمیدہ کی تحسین فرمائی۔ در منشور مں ہے:
’’یہی فاطمہ ہیں جن کے فضائل و مآثر کتب سیر میں مذکور ہیں‘‘
حضرت فاطمہ بنت اسدؓ نے ہجرت کے چند سال بعد رسول اکرمﷺ کی حیات مبارک ہی میں وفات پائی۔ حضور ؐ نے ان کی وفات کو شدت سے محسوس کیا۔ اپنی قمیص مبارک اتار کر کفن دیا ور تدفین سے پہلے قبر میں اتر کر لیٹ گئے۔ لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کی تو فرمایا:
ابو طالب کے بعد ان سے زیادہ میرے ساتھ کسی نے مہربانی نہیں کی۔ میں نے اپنی قمیص اس لیے پہنائی کہ جنت میں انہیں جگہ ملے اور میں اس لیے لیٹا کہ شدائد قبر میں آسانی ہو‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ اس موقع پر حضورؐنے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو فاطمہ بنت اسدؓ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓ کے علاوہ حضرت فاطمہ بنت اسد ؓ کے فرزند عقیلؓ اور صاحب زادیوں میں ام ہانیؓ اور جمانہؓ کو بھی قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی۔
جس خاتون سید المرسلین فخر موجودات ﷺ کی قمیص مبارک کا کفن ملا ہو اور جس کی آخری آرام گاہ سے باعث تکوین روزگار ﷺ کا جسد اطہر مس ہوا ہو، اس کے علو مرتبت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔
(طالب الہاشمی کی کتاب ’تذکار صحابیات‘ سے ماخوذ)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022