’’ملکم میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے‘‘: بی بی سی کے دفاتر میں محکمہ انکم ٹیکس کے ’’سروے آپریشن‘‘ کے بعد اپوزیشن نے مرکز پر تنقید کی
نئی دہلی، فروری 14: منگل کے روز حزب اختلاف کی جماعتوں نے کہا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے ممبئی اور دہلی کے دفاتر میں ایک ’’سروے آپریشن‘‘ کے بعد ہندوستان ’’غیر اعلانیہ ایمرجنسی‘‘ کی حالت میں ہے۔
ٹیکس حکام نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ یہ کارروائی ٹیکس چوری کی تحقیقات کے حصے کے طور پر کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ ایک سروے میں محکمۂ انکم ٹیکس صرف کسی کمپنی کے کاروباری احاطے کی تلاش کرتا ہے نہ کہ اس کے پروموٹرز یا ڈائریکٹرز کے گھروں اور دیگر مقامات کی تلاشی۔
یہ پیش رفت بی بی سی کی جانب سے جنوری میں دو حصوں پر مشتمل ایک دستاویزی فلم جاری کرنے کے ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد سامنے آئی ہے جس میں 2002 میں گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
حکومت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی رولز 2021 کے تحت دستیاب ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو اس دستاویزی فلم کے کلپس کو شیئر کیے جانے سے روکنے کے لیے ہدایات جاری کی ہیں۔
منگل کو کانگریس نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر کہا کہ ملک میں ’’غیر اعلانیہ ایمرجنسی‘‘ نافذ ہے کیوں کہ ہندوستان میں دستاویزی فلم پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اب محکمہ انکم ٹیکس نے بی بی سی کے خلاف کارروائی بھی کی ہے۔
کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے نے الزام لگایا کہ نریندر مودی کے دور حکومت میں آزاد صحافت پر حملہ ہوا ہے۔
پارٹی کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال نے کہا کہ حکومت کے اس ’’غیر جمہوری اور آمرانہ رویہ‘‘ کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
انھوں نے مزید کہا کہ بی بی سی کے دفاتر پر آئی ٹی کا چھاپہ افسوس ناک ہے اور اس بات کا اشاریہ ہے کہ مودی حکومت تنقید سے خوفزدہ ہے۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے مرکز کے اقدامات کو ’’نظریاتی ایمرجنسی‘‘ کا اعلان قرار دیا۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ حکومت کے اقدامات کی وجہ ’’بالکل واضح‘‘ ہے۔
محبوبہ مفتی نے کہا ’’حکومت ہند سچ بولنے والوں کو ڈھٹائی سے مار رہی ہے۔ خواہ وہ اپوزیشن لیڈر ہوں، میڈیا ہو، کارکن ہوں یا کوئی اور ہو۔ سچائی کے لیے لڑنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔‘‘
کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے کہا ’’یہاں ہم اڈانی-ہنڈنبرگ تنازعہ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وہاں حکومت بی بی سی کو گھیر رہی ہے۔ ’’وناش کالے وپریت بدھی‘‘ [جب کوئی برباد ہوتا ہے تو غلط فیصلے کرتا ہے]۔‘‘
دریں اثنا ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے حکومت کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ مرکزی ایجنسیوں نے روزنامہ بھاسکر اور نیوز کلک سمیت کئی میڈیا ہاؤس پر چھاپے مارے ہیں، گلڈ نے کہا کہ یہ رجحان ’’آئینی جمہوریت کو نقصان پہنچانے والا ہے۔‘‘
اس نے ایک بیان میں کہا ’’گلڈ کا مطالبہ ہے کہ ایسی تمام تحقیقات میں انتہائی احتیاط اور حساسیت کا مظاہرہ کیا جائے تاکہ صحافیوں اور میڈیا تنظیموں کے حقوق کو مجروح نہ کیا جا سکے۔‘‘
پریس کلب آف انڈیا نے بھی اس سروے کو ’’حالیہ دنوں میں سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ میڈیا پر حملوں کی ایک سیریز کا حصہ قرار دیا، خاص طور پر میڈیا کے ان حصوں کے خلاف جن کو حکومت اپنے مخالف اور حکمران اسٹیبلشمنٹ کی تنقید سمجھتی ہے۔‘‘
ڈجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن نے کہا کہ یہ سروے ’’آزادانہ اور منصفانہ تقریر اور اظہار رائے کو خاموش کرنے کے لیے انتقامی کارروائیاں ہیں۔‘‘
ڈجی پب نے کہا ’’اس طرح کے چھاپے ہمیشہ ان میڈیا تنظیموں پر مارے جاتے ہیں جو اقتدار سے سچ بولتے ہیں۔‘‘
صحافی رعنا ایوب نے، جنھوں نے 2002 کے فسادات پر ایک تحقیقاتی کتاب ’’گجرات فائلز‘‘ لکھی ہے، کہا کہ بی بی سی کے پاس اب دستاویزی فلم کا تیسرا حصہ بنانے کے لیے کافی مواد موجود ہے۔
دریں اثنا بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کو اپنا کام کرنے دیا جانا چاہیے۔
بی بی سی کو ’’سب سے زیادہ بدعنوان‘‘ ادارہ قرار دیتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے دعویٰ کیا کہ بی بی سی کی ’’بھارت کے خلاف بدنیتی کے ساتھ کام کرنے کی داغدار اور سیاہ تاریخ‘‘ رہی ہے۔
بھاٹیہ نے کہا کہ کانگریس کو یاد رکھنا چاہیے کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بھی بی بی سی پر پابندی لگائی تھی۔
بی بی سی کے دفاتر میں سروے شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل نشر ہونے والے اے این آئی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی برطانوی نشریاتی ادارے پر تنقید کی تھی اور اس کی رپورٹس کو سازش قرار دیا تھا۔