تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول

غربت کے باوجود عزم و ہمت نے آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیا

ڈاکٹر خلیل تماندار، کینیڈا

لوگ مجھے آٹو ڈرائیور کا بیٹا نہیں بلکہ میرے ابو کو اسپیس ائیرکرافٹ سیٹلائٹ انجینئر کا والد کہیں : نعمان اجمل عصار
مادر علمی رئیس ہائی اسکول بھیونڈی کے ایک ہونہار اور روشن مستقبل رکھنے والے طالب علم کو نعمان اجمل عصار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ہی یہ خبر میڈیا کے مختلف ذرائع سے موصول ہوئی کہ نعمان عصار نے ممبئی یونیورسٹی سے منسلک اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوئیشن انڈیا سے منظور شدہ ’پراورہ ایوئیشن انسٹیٹیوٹ ناسک‘ سے 2022ء میں ایروناٹیکل انجینیرنگ میں 96 فیصد نمبرات حاصل کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی اور کنگ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم و منرلز KFUPM کے تحت اسکالرشپ اور حکومتی سطح کی تمام مراعات کے ساتھ ایرواسپیس انجنئیرنگ میں مزید اعلی تعلیم کی نسبت پر 7؍ جنوری 2024ء سے سعودی عرب کی اس عظیم یونیورسٹی میں اپنے اعلی کرئیر کا الحمدللہ آغاز بھی کر دیا ہے۔بے شک اسے محض اللہ کا فضل و کرم ہی کہا جائے گا کہ دنیا کے ظاہری اسباب نہ ہونے کے باوجود اللہ سبحانه قدوس نے محض اپنے فضل و کرم سے سارا نظم فرما دیا۔ ذالك فضل الله یوتیه من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم
اس خوشخبری کو جاننے کے بعد راقم السطور نے خصوصی طور پر محض حوصلہ افزائی کی نسبت سے گزشتہ ماہ کینیڈا سے شہر بھیونڈی میں مقیم نعمان عصار سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا، نصف گھنٹےکی گفت و شنید کے دوران اس ہونہار طالب علم میں خود اعتمادی نیز اللہ سبحانہ قدوس پر مکمل اعتماد و توکل دیکھ کر انتہائی مسرت ہوئی اور ناچیز کے قلب و ذہن پر اس بات کی آمد ہوئی کہ ایسے ہونہار و روشن ستارے کے تعلیمی سفر کی کچھ روداد منظر عام پر لانا ضروری ہے تاکہ قوم مسلم کے دیگر بچوں کو بھی حوصلہ و تقویت حاصل ہو۔ سچ ہے بقول علامہ اقبال:
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کردے
نعمان عصار سے جن مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اسے محض قارئین کے استفادے کی خاطر پیش کیا جارہا ہے:
بتادیں کہ نعمان عصار ایروناٹیکل انجینیرنگ میں ممبئی یونیورسٹی سے ممتاز پوزیشن حاصل کرتے ہوئے معروف کمپنی انڈیگو اور ممبئی ائیرپورٹ ٹرمیننس پر بھی ائیرکرافٹ آتھینٹی فیکیشن (Authentification) کی خدمات انجام دے چکے ہیں یعنی نعمان کی دستخط و تصدیق کے بعد ہی کیپٹن حضرات ہوائی جہاز کی اڑان( ٹیک آف) لے سکتے تھے دوسرے الفاظ میں اگر کسی ہوائی جہاز کی مشینی اعتبار سے تصدیق نہیں ہوسکی تو وہ جہاز سفر نہیں کر سکتا تھا۔ کنگ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم و منرلز میں داخلے سے قبل وہ اسی اہم ذمہ داری کو انتہائی حسن و خوبی سے انجام دے رہے تھے۔
اپنے زمانہ طالب علمی کے بیتے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہوئے نعمان عصار نے کہا کہ میرے والد محترم اجمل سلیمان عصار گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک آٹو رکشا چلاتے تھے اور اسی آٹو رکشا کی آمدنی پر گھر کا گزر بسر ہوا کرتا تھا، بسا اوقات آٹو رکشا کا انجن خراب ہوجاتا تو ابو اسے رپیئر کرانے کی غرض سے سارا دن ورکشاپ میں بیٹھا کرتے تھے تاکہ وہ رکشا درست ہو جائے اور روزی روٹی کا سلسلہ دوبارہ جاری ہوجائے، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ میں بھی ابو جان کے ساتھ رہتا اور گھنٹوں ورکشاپ میں آٹو رکشا کو دیکھتا رہتا کہ اس کا انجن کس طرح سے کام کرتا ہے اور آٹو رکشا زمین پر کس طرح حرکت کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ میرا ذہن زمین سے ہوا اور خلاء کی طرف جانے لگا اور ہوائی جہاز کی طرف مائل ہوتا چلا گیا کہ اس قدر بڑا ہوائی جہاز آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے فضا میں کس طرح اڑتا ہے؟ ہوائی جہاز کو دیکھ کر میں نے بھی کاغذ کے ہوائی جہاز بنانا شروع کیے اور اسے ہوا میں اڑانے کی کوشش بھی کی لیکن تھوڑی دیر بعد کاغذ کا وہ ہوائی جہاز زمین پر آ جاتا تھا جس کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ آخر ہوائی جہاز کے انجن کا کیا میکانزم ہوتا ہوگا جس کی بدولت وہ فضاؤں میں اس قدر بلندی پر بھی پرواز کرسکتا ہے؟ الحمدللہ رفتہ رفتہ اس سمت میر ی دلچسپی اور رجحان بڑھتا چلا گیا بعد ازاں ہوائی جہاز کے مختلف پرزوں اور خصوصا’ انجن کے میکانزم کو جاننا و سمجھنا میری زندگی کا گویا شب و روز کا ایک مشن بنتا گیا۔
اللہ رب العزت کا خصوصی فضل و کرم، والدین کی مستقل دعائیں اور میرے قابل قدر اساتذہ کرام کی قدم قدم پر رہنمائی و حوصلہ افزائی ہمہ وقت میرے ساتھ رہی کہ مجھے ممبئی یونیورسٹی سے وابستہ ایروناٹیکل انجینیرنگ کالج ناسک میں داخلہ نصیب ہوا جہاں اللہ کے رحم و کرم سے مجھے انجینیرنگ کے آخری سال کے امتحانات میں اول و ممتاز پوزیشن حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اللہ کا مجھ پر مزید فضل و احسان ہوا یہ ہوا کہ اس نے مجھے کنگ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم و منرلز میں اسی شعبے میں اعلی تعلیم کا موقع بھی عنایت فرما دیا۔
ماشاءاللہ نعمان عصار میں عزم و حوصلہ اور مزید آگے بڑھنے کی جستجو موجود ہے اور قوی امید ہے کہ مستقبل میں ہوائی جہاز کے انجن پر مزید تحقیق و ریسرچ کرنے کے مشن کو وہ جاری رکھیں گے اور ان کے عزم و حوصلے کے مطابق عین ممکن ہے کہ ان شاءاللہ ہوائی جہاز میں وہ ہائیڈروجن گیس پر مبنی ایک ایسا انجن منظر عام پر لائیں گے جو کم سے کم خرچ پر زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر سکے گا۔ لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
کے مصداق نعمان عصار کے عزائم کو اللہ پاک عظمت و بلندی عطا فرمائے اور قائم و دائم رکھے۔ اللہ کرے زور علم و تحقیق اور زیادہ ۔
نعمان عصار کی نسبت سے ناچیز نے اپنے جذب دروں کو سپرد قلم کیا، اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے دادا مرحوم سلیمان عصار کے نقوش ہمارے بچپن میں ماضی کی یادوں کا ایک اہم باب ہے اور جو شہر بھیونڈی کے ایک مشہور علاقے یا ہب (Hub) مدار چلے پر اپنی گھانی میں تیار کردہ ’تازہ سرسوں کا تیل اور بھینسوں کے تازہ دودھ‘ کی بناء پر کافی مقبول بھی تھے۔ مدار چلے پر لب سڑک سلیمان عصار صاحب کا وسیع و عریض تازہ دودھ اور سرسوں کے تیل کا ایک تجارتی مرکز قائم تھا، گھر پر ناچیز کا سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے ہر روز تازہ دودھ لانے کی ذمہ داری تھی، بچپن میں برسہا برس اس دودھ سنٹرو گھانی جانے کا اتفاق رہا جس کی یادیں ہنوز تازہ ہیں، گھانی میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب دیوار کے کنارے ایک اونچا سا لکڑی کا تخت ہوا کرتا تھا جس پر محلے کے سینئر و بزرگ حضرات عصر و مغرب کے درمیان خوش گپیوں میں مصروف رہتے تھے اور سامنے بنچ پر بیک وقت دس تا بارہ افراد بیٹھ کر تازہ دودھ کے لیے اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔
ان بزرگوں میں سوداگر محلہ و بندر محلہ کے چند بزرگوں کے نام اب تک ذہن نشین ہیں مثلا’ مرحوم حسن فقیہ، مرحوم شفیق فرید اور اپنے دور کے مشہور شعراء میں سے ایک ” اردو ہے جس کا نام —-نامی معروف نظم ( گیتا کی نہیں ، قرآں کی نہیں نہ سہی —-ہندو کی ، مسلماں کی زبان ہے اردو ) کے شاعر مرحوم ضیاء ہانی صاحب کے علاوہ اور مزید چار پانچ حضرات کی یہاں اکثر و بیشتر ایک نشست ہوا کرتی تھی، ناچیز کی عمر اس وقت غالبا دس بارہ برس کی رہی ہوگی، گھانی میں جانا اور تازہ دودھ حاصل کرنا ہر دن کا گویا ایک معمول سا تھا لہذا تازہ دودھ کے انتظار میں تقریبا” آدھ گھنٹہ ہر روز صرف کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ ان دنوں موبائل، فیس بک، ٹوئٹر اور ٹک ٹاک وغیرہ جیسی تضيع اوقات کی اشیاء دستیاب نہیں تھیں بلکہ اچھوں کی صحبت اور کرگہ مسجد سے متصل الجمعیت لائبریری میں اپنے بڑوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہمارے معمول میں سے تھا لہذا اس آدھ گھنٹے میں بھی گھانی میں بیٹھے ہوئے بزرگوں کی باتوں سے درس و نصیحت اخذ کرنا وقت کا بہترین مصرف تھا، گھانی میں سامنے کے حصے میں ایک کولہو کا بیل جس کے آنکھوں پر سدا پٹی بندھی ہوتی تھی وہ سرسوں کا تیل نکالنے میں گھنٹوں مصروف رہا کرتا تھا۔ علاوہ ازیں سامنے درجنوں بھینسیں اپنا چارہ کھانے میں مگن رہتی تھیں اور کبھی ہم ان بھینسوں کو تو کبھی بھینسیں ہمیں دیکھتی تھیں۔ اس کے ساتھے ان بزرگوں کی دلچسپ باتیں اس ماحول میں مزید نکھار پیدا کر دیتی تھیں۔ اس زمانے میں ہم جیسے کم عمر کے بچوں کے لیے اس سے بہتر اور مفت سامان تفریح اور کیا ہو سکتا تھا!
محلے کے ان بزرگوں کی مختلف عنوانات پر کی گئی باتوں میں سے ایک بات آج بھی ذہن نشین ہے کہ اللہ میاں ہمیں جنت عطا فرمائے گا جہاں ہمیں ہمیشہ ہمیش رہنا ہوگا اور مختلف نعمتیں حاصل ہوں گی۔ چونکہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اگر ایک ہی جگہ مستقل رہے اور ہر روز بریانی، مرغ مسالہ و پلاؤ کھائیں تو اس کی طبیعت اکتا جاتی ہے لہذا، اس حالت میں جنت میں انسان کیا کرے گا؟ اس وقت نو عمر ہونے کے باوجود راقم نے ان بزرگوں کی گفتگو میں مرحوم ضیاء ہانی صاحب سے اجازت طلب کی اور کہا کہ کیا آپ کے اس سوال کا جواب میں دے سکتا ہوں؟ مرحوم ضیاء ہانی صاحب ناچیز سے بخوبی واقف تھے اس لیے مرحوم نے انتہائی شفقت سے اجازت مرحمت فرمادی۔ بارہ برس کی عمر کا ایک لڑکا ان منجھے ہوئے بزرگوں کے سامنے آخر عرض ہی کیا کر سکتا تھا لیکن محض اللہ کی توفیق سے جرأت و ہمت یکجا کرکے اس وقت جواب زباں سے نکلا کہ میرے محترم بزرگو، جس خالق و مالک اللہ رب العزت کو اس بات پر قدرت ہے کہ وہ ہمیں دوبارہ زندہ کر دے گا، اسے اس بات پر بھی قدرت ہے کہ جنت میں وہ ہماری فطرت کو بھی بدل دے گا اور ان شاءاللہ جنت میں جانے والے شخص کی طبیعت پھر کبھی بیزار نہیں ہوگی، سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے ناچیز نے مزید ایک جملے کا اضافہ کیا تھا کہ عمر کے اس حصے میں ضروری ہے کہ ہم جنت جانے کی تیاری کریں نہ کہ جنت کی نعمتوں اور جنت میں فطرت کے متعلق تبصرہ کریں۔ بہرکیف اس واقعے کو گزرے ہوئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور وہ سارے بزرگ حضرات کئی دہائیوں قبل ہی دار فانی سے دار بقاء کی سمت کوچ کر چکے ہیں لہذا ناچیز دل کی گہرائیوں سے ان تمام مرحومین کے حق میں دعاگو بھی ہے کہ اللہ پاک انہیں اعلی علیین میں جگہ عنایت فرمائے اور ہمیں بھی جنت کی تیاری کرنے والوں میں سے بنائے (آمین)
حسن اتفاق ہے کہ پچاس برسوں بعد اسی گھانی و دودھ سنٹر کے مالک مرحوم سلیمان عصار کے پوتے نعمان اجمل عصار کی نسبت سے چند سطور قلم بند کرتے ہوئے گھانی کے اس تاریخ ساز واقعے کا یاد آنا بھی ضروری تھا لہذا برسبیل تذکرہ چند باتیں ضبط تحریر ہوگئیں۔
خیر آمدم بر مطلب! نعمان عصار سے گفتگو کے دوران سب سے اہم بات جو قابل ذکر و توجہ رہی وہ یہ کہ اب تک میرا تعارف اس طرح سے کیا جاتا رہا کہ میں ایک آٹو رکشا ڈرائیور کا بیٹا ہوں لیکن میں بارگاہ رب العزت میں دعاگو ہوں کہ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب میں ان شاءاللہ ایرواسپیس و سٹیلائٹ انجنئیر بن جاؤں گا تو میری خواہش ہے کہ لوگ میرے والد گرامی کے متعلق یہ کہیں کہ میں اب ایک آٹو رکشا ڈرائیور کا بیٹا نہیں بلکہ یہ حضرت ایک ایرواسپیس و سٹیلائٹ انجنئیر کے والد ہیں ‘
ماشاءاللہ، یہ الفاظ سن کر ناچیز کے ذہن میں یہ بات آئی کہ دنیا و آخرت میں وہی لوگ سرخرو و سرفراز ہوتے ہیں جو رجوع الی اللہ، اپنے والدین ماجدین، اپنے بڑوں کی تعظیم و توقیر، اپنے اساتذہ کا اکرام اور اپنے محسنین کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ یقیناً نعمان عصار کے شاندار مستقبل کو دیکھتے ہوتے ہم دعاگو ہیں کہ باری تعالی انہیں دنیا و آخرت دونوں جہاں کی بھلائی عطا فرمائے (آمین)
آخر میں درج ذیل منظوم و دعائیہ کلمات پر اختتام کیے دیتا ہوں کہ:
اے میرے چمن زار کے مہکتے ہوئے پھولو۔۔ اکبر الہ آبادی کے الفاظ میں سنو!
تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں کھیلو
جائز ہے غباروں میں اڑو، چرخ پہ جھولو
پر ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی کی حقیقت کو نا بھولو
اللہ پاک ہماری آنے والی نسلوں کی بہترین تربیت فرمائے اور دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں نصیب فرمائے (آمین)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024