خبرونطر

پرواز رحمانی

یہ ذہنیت پرانی ہے
ماضی قریب کے ایک ہندتو رائٹر اپنے مشہور ناول آنند مٹھ میں پورے ناول میں ہندو مسلم جھگڑوں کا ذکر کرنے کے بعد اختتام پر لکھا کہ ’’اب انگریزی حکومت آگئی ہے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب انگریزوں کی مدد سے ہم مسلموں کو اس دیش سے بھگا دیں گے۔ بعد میں بیسویں صدی کی دہائی میں ہیڈگیوار نامی برہمن نے راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ قائم کی تو اس میں بھی مرکزی کردار ہندتو ہی رہا۔ اس سے قبل ہندو مہا سبھا کی سوچ بھی یہی تھی۔ غرض یہاں کے قدیم دھرم کے لوگوں کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے مقابلہ پر ایک دشمن یا مخالف قوم چاہتے ہیں۔ اس سے قبل بدھ ازم کے ساتھ ان لوگوں نے یہی کیا۔ مسلمان ان کا جدید شکار ہیں۔ لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔ ہندوستان کا قدیم دھرم سناتن ہے، یہاں اسی دھرم کو ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ ان کے نزدیک سب سے بڑے دیوتا شیو شنکر ہیں، ان کے علاوہ ان کے اور بھی سیکڑوں، ہزاروں دیوی دیوتا ہیں۔ کچھ حلقوں نے ان میں کچھ کو منتخب کرکے اپنے مزاج کے مطابق ان کی تشریح گھڑلی ہے۔ فی زمانہ رام اور کرشن متبدل دیوتا ہیں۔ کچھ حلقے انہی کے نام پر فساد گرم کرتے ہیں۔ آج کے ہندتو والے بھی انہی میں سے ہیں۔ کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہندتو والوں کو ہندتو کی ضرورت آخر کیوں آ پڑی۔ قدیم سناتن دھرم رہنمائی کے لیے کافی تھا۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ہندتو والوں نے قدیم دھرم کی تمام اچھائیاں ترک کردیں اور اپنے طور پر دھرم کی تعبیر و تشریح کرکے اسے ہندتو بنا دیا۔ یہ نہیں کہ اصل سناتن دھرم ختم ہوگیا، وہ زندہ ہے اور بڑے بڑے شنکر اچاریہ اور سادھو سنت اس کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں لیکن اب ان کی کوئی نہیں سنتا، جس کا تازہ نمونہ ایودھیا کے رام مندر کی تعمیر کے موقع پر دیکھا گیا۔

ایک سوال یہ بھی ہے
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب قدیم ہندو دھرم موجود تھا تو ہندتو کی کیا ضرورت تھی، تو اس کا جواب وہی ہے کہ برہمنوں، پنڈتوں آریوں اور خود ساختہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کو قدیم دھرم اخلاقیات پسند نہیں تھیں اس لیے انہوں نے اپنے طور پر تعبیر و تشریح کی اور انسانوں کے درمیان کشمکش پیدا کردی۔ مذہبی اقلیتوں کو دشمن قرار دینے کے علاوہ دلت، ہریجن، نچلی ذاتیں، پسماندہ طبقات اسی کی دین ہیں۔ قدیم دھرم میں انسانوں کے مابین محبت و حسن سلوک، غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد، کمزوروں اور بے سہارا طبقات کی خدمت اور بہت سی اچھائیاں ہیں لیکن ان سب کو جدید ہندتو نے ٹھکانے لگادیا۔ آج کے ہندتو کا خاص نشانہ مسلمان ہیں جن کے لیے نئی نئی دشمنیاں ایجاد کی جاتی ہیں بلکہ مسلم دشمنی کو پالیسی بنالیا گیا ہے۔ آج کا الیکشن ایشو بھی یہی ہے۔ اس سال ہونے والے عام انتخابات میں مسلم دشمنی ہی سب سے بڑا ایجنڈا ہوگی۔ گویا اس ملک کے دانشوروں اور دھرم اچاریوں کو قدیم دھرم میں کوئی ایسا نسخہ نہیں ملا جس کی بنیاد پر وہ ملک و عوام کی ترقی کا سامان کرتے، لیکن یہ بات نہیں ہے۔ اس ملک کی قدیم تہذیب اور قدیم دھرم بہت زرخیز ہے۔ ان کی بنیاد پر یہاں بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ پھر اقلیت دشمنی اور ہندتو کی ضرورت بھی پیش نہ رہتی۔ اس ملک کی خوش قسمت سے یہاں دین اسلام بھی آیا لیکن اس کی قدر نہیں کی گئی۔ قدر تو بعد کی چیز ہے اسے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی اور بد قسمتی سے آنے والے مسلمانوں نے بھی اسلام کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ مسلم سیاحوں تاجروں اور بزرگوں سے یقیناً اپنے اخلاق و کردار سے کچھ طبقات متاثر ہوئے لیکن شاہان ہند نے اپنے طور پر اسلام کے تعارف کی باوقار کوشش نہیں کی۔ عالم گیری ان فتاوی کا مجموعہ ہے جو اورنگ زیب کے دور میں دیے جاتے تھے۔

اگر یہ کام ہوا ہوتا
مسلم شاہان ہند اگر اسلام کو اپنے قول و عمل کے ساتھ دین اسلام کو پیش کرتے اور یہاں دانشور اور ۔۔ اسے کھلے دل سے سمجھ لیتے تو ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ یہاں نہ انسانوں کو انسانوں سے لڑانے کی ضرورت پیش آتی نہ ہندتو کو مسلمانوں کے خلاف اتنی محنت کرنی پڑتی۔ حفیظ جالندھری نے اپنے کلام شاہنامہ اسلام کے تعارف نامے میں لکھا ہے
مگن تھا گلشن ہندوستان جنت نشان بن کر
یہاں بھی موت آئی ایک دن فصیل خزاں بن کر
دکھائے تھے بہت کچھ آریوں نے گیان کے جلوے
بہت چمکے تھے رام اور کرشن سے ایمان کے جلوے
یہ ہادی تھے مگر ان کو خدا کہنے لگے ہندو
نر و مادہ کو دیوی دیوتا کہنے لگے ہندو
حکومت آگئی ایسے ستم گاروں کے ہاتھوں میں
ہوئے تقسیم انسان اونچی نیچی چار ذاتوں میں
خوشگوار ماحول میں ہر عقیدے، ہر فلسفے، ہر عمل اور ہر طریقے پر بات ہوتی۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اپنا یہ فریضہ ادا نہیں کیا۔ ہندوستان کے سبھی باشندے فطری طور پر خوش اخلاق اور امن پسند واقع ہوئے ہیں۔ اگر آر ایس ایس آج بھی ان پہلووں پر غور کرے تو بہت سے حقائق اس کے سامنے آسکتے ہیں۔ قدرت نے اس کے ہاتھوں میں ایک طاقت دی ہے اس طاقت کا صحیح استعمال اس ملک کو بہت آگے لے جا سکتا ہے۔مسلمانوں کے بارے میں سنگھ اطمینان رکھے کہ وہ بھی اس ملک کے امن پسند شہری ہیں اور ہر اچھے کام میں حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔