‘انڈیا اتحاد’ متحد ہونے لگا ہے

کانگریس، عاپ اور دیگر پارٹیوں کے درمیان معاہدے ایک خوش کن پہلو

زعیم الدین احمد حیدرآباد

متعدد فارمولے اس وقت تک بے کار ہیں جب تک حقیقی معنوں میں ووٹ ٹرانسفر نہ ہوں
جب سے انڈیا اتحاد قائم ہوا ہے تب سے بی جے پی کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا ہے۔ بی جے پی پیہم کوشاں ہے کہ کسی نہ کسی طرح یہ اتحاد منتشر ہو جائے۔ لگاتار کوششوں سے اسے کچھ کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ واقعی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا اور اس کا وجود ہی ختم ہو جائے گا کیوں کہ بنگال سے ممتا دیدی نے انڈیا اتحاد سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارا اور کانگریس کا کوئی اتحاد نہیں ہوگا اور ترنمول کانگریس بنگال میں تنہا مقابلہ کرے گی۔ ادھر پلٹو چاچا نتیش کمار نے پھر سے اپنے پرانے ساتھی کو گلے لگا لیا ہے۔ ادھر پنجاب کے وزیر اعلی نے کہا کہ پنچاب کی جملہ تیرہ نشستوں پر عاپ تنہا مقابلہ کرے گی کانگریس سے کوئی اتحاد نہیں ہوگا۔ یو پی میں آر ایل ڈی نے انڈیا اتحاد سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ بظاہر تو ایسا لگ رہا تھا کہ بات نہیں بنے گی اور پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہو پائے گا۔ انڈیا اتحاد کے معاملے میں منفی صورت حال جاری تھی کہ اچانک کچھ مثبت اشارے ملنے شروع ہوئے اور گزشتہ چند دنوں سے کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی خبریں آنے لگی ہیں جو یقیناً انڈیا اتحاد کے لیے اور خصوصاً کانگریس کے لیے خوش آئند بات ہے۔
یو پی میں کانگریس اور ایس پی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم پر بات طے پا گئی ہے، یو پی کی جملہ 80 سیٹوں میں اے یس پی نے کانگریس کو 17 سیٹیں دی ہیں، جب کہ کانگریس کی ریاستی اکائی 21 سیٹوں کا مطالبہ کر رہی تھی اور اپنے مطالبے پر اڑی ہوئی تھی لیکن آخری لمحے میں پرینکا گاندھی کی مداخلت سے یہ معاملہ طے پایا اور کانگریس 17 سیٹوں پر راضی ہوگئی، اسے پرینکا گاندھی کا دانشمندانہ فیصلہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ یو پی جو کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں 80 پارلیمانی سیٹیں ہیں، اس ریاست میں کانگریس کی تنظیمی قوت اور سیاسی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر 17 سیٹیں بھی جیت سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے بھی کتنی سیٹیں وہ جیت پاتی ہے۔ اگر آر ایل ڈی اور دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا بھی اتحاد ہو جاتا تو اور بھی بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ مدھیہ پردیش میں ایس پی سے اور دلی، گجرات، ہریانہ، چھتیس گڑھ اور گوا جیسی ریاستوں میں بھی عاپ اور کانگریس کے درمیان سیٹ شئیرنگ کا فارمولا طے پا گیا ہے۔ کانگریس اور عاپ کے درمیان دلی کے سیٹ شئیرنگ کا معاملہ بھی حل ہو گیا ہے، 4 سیٹوں پر عاپ اور تین پر کانگریس مقابلہ کرے گی، پچھلے انتخابات میں ساری سیٹیں بی جے پی نے جیتی تھیں، ان میں پانچ سیٹیوں پر کانگریس دوسرے نمبر پر تھی اور محض دو سیٹوں پر ہی عاپ جیت پائی تھی وہ بھی تیسرے نمبر پرتھی، لیکن اس کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں عاپ نے شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے 62 سیٹوں پر کامیابی درج کی تھی اسی وجہ سے اس نے پارلیمانی انتخابات میں زیادہ حصہ لیا ہے۔ بہر حال اچھی بات یہ ہے کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں یہاں دونوں کانگریس اور عاپ مل کر مقابلہ کریں گے۔ وہیں پنجاب میں ان دونوں کے درمیان تاحال کوئی فارمولا طے نہیں پایا ہے۔ پنجاب میں پارلیمنٹ کی جملہ 13 سیٹیں ہیں، پچھلے انتخابات میں کانگریس نے 8 سیٹوں پر کامیابی درج کی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں تقریباً اس کا صفایا ہی ہوگیا۔ 117 نشستوں میں سے 92 پر عاپ نے کامیابی حاصل کی اور کانگریس 17 پر ہی سمٹ گئی تھی۔ اسی مناسبت سے یہاں کے عاپ لیڈر جو وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ہیں انہوں نے کسی معاہدے کی مخالفت کی ہے اور تنہا ہی انتخابات میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، یہاں ان دونوں کے درمیان کوئی فارمولا طے نہیں پایا ہے۔ عاپ کا ماننا یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات میں ہم نے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں تو اسی مناسبت سے ہمیں کسی سے سیٹ شیئرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ وہیں کانگریس کا کہنا یہ ہے کہ اس نے پچھلے پارلیمانی انتخابات میں 8 سیٹیں حاصل کی تھیں اور عاپ نے صرف ایک پر ہی کامیاب ہوئی تھی تو اسی تناسب سے سیٹ شئیرنگ کا فارمولا طے ہونا چاہیے، لیکن بدقسمتی سے اب تک کوئی معاملہ طے نہیں پایا ہے۔ اگر دونوں الگ الگ مقابلہ کرتے ہیں تب بھی شاید کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ یہاں بی جے پی کا کوئی خاص نہیں اثر معلوم ہوتا۔ لیکن پھر بھی کانگریس اور عاپ کے درمیان اگر کوئی سیٹ شئیرنگ کا فارمولا طے پا جاتا تو اور بھی بہتر ہوتا۔
گجرات میں بھی عاپ کے ساتھ سیٹ شئیرنگ فارمولا طے پایا ہے۔ یہاں جملہ 26 سیٹیں ہیں اور ساری سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے، 24 سیٹوں پر کانگریس اور 2 سیٹوں پر عاپ مقابلہ کرے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہاں ان دونوں کا اتحاد کیا رنگ دکھاتا ہے۔ یہاں کانگریس ایک بڑی کھلاڑی ہے، کیوں کہ اس کے پاس 17 اسمبلی نشستیں ہیں اور عاپ کے پاس صرف 4 نشستیں ہیں لیکن یہاں پر کانگریس نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عاپ کو دو نشستوں پر ساتھ مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بات بھی ہمیں یاد رہنی چاہیے کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں عاپ نے بڑی حد تک کانگریس کے ووٹ تقسیم کیے تھے ورنہ آج صورت حال کچھ مختلف ہوتی۔ اسی طریقہ سے ہریانہ میں بھی کانگریس نے بڑا ظرف دکھاتے ہوئے عاپ کے ساتھ مل کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہاں جملہ 10 پارلیمانی نشستیں ہیں اور ساری بی جے پی کے پاس ہیں، یہاں کانگریس 9 سیٹوں پر اور عاپ پارٹی ایک سیٹ پر مقابلہ کرے گی، پچھلے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کا مظاہرہ کافی اچھا رہا ہے، اس نے 30سیٹیں حاصل کیں، جب کہ عاپ نے یہاں سے اب تک مقابلہ نہیں کیا ہے، لیکن پھر بھی کانگریس نے بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے عاپ کو ایک نشست دی ہے۔
بہر حال یہ معاہدے انڈیا اتحاد کے لیے اچھی خبر ہے، اگر بنگال میں بھی دیدی کے ساتھ کوئی سیٹ شئیرنگ کا فارمولا طے پا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ سیٹ شئیرنگ تو طے پاچکی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہونے نہ پائے یعنی پارٹیاں ایمانداری کے ساتھ اپنا ووٹ اپنے طے شدہ امیدوار کو منتقل کروائیں، جب تک پارٹیاں ایمانداری کے ساتھ ووٹ ٹرانسفر نہیں کراتی ہیں اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، آپ کتنے بھی فارمولے بنا لیں اور کتنے ہی معاہدے کر لیں جب تک ایک کا ووٹ دوسرے کو ٹرانسفر نہیں ہوگا اس وقت تک کامیابی کی توقع کرنا بے وقوفی ہوگی۔ اگر ممکن ہو تو جو چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں جو طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوئی ہیں ان کو بھی ساتھ لیا جائے، اگر ان کا ووٹ یکجا نہ بھی ہو تب بھی ان سے معاملات طے کرنے چاہئیں، کیوں کہ ان کے چیدہ چیدہ ووٹ بڑے کارگر ہوتے ہیں۔ اسمبلی حلقے میں بھلے ہی ان کے ووٹ اثر ڈالتے ہوئے دکھائی نہ دیں لیکن پارلیمانی حلقے میں ضرور اثر انداز ہوں گے لہٰذا کانگریس کو چاہیے کہ وہ اس جانب بھی توجہ دے۔

 

***

 سیٹ شیئرنگ سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہوں یعنی پارٹیاں ایمانداری کے ساتھ اپنا ووٹ اپنے طے شدہ امیدوار کو منتقل کروائیں، جب تک پارٹیاں ایمانداری کے ساتھ ووٹ ٹرانسفر نہیں کراتی ہیں اس وقت تک کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، آپ کتنے بھی فارمولے بنا لیں اور کتنے ہی معاہدے کر لیں جب تک ایک کا ووٹ دوسرے کو ٹرانسفر نہیں ہوگا اس وقت تک کامیابی کی توقع کرنا بے وقوفی ہوگی۔ اگر ممکن ہو تو جو چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ہیں جو طبقاتی بنیادوں پر قائم ہوئی ہیں ان کو بھی ساتھ لیا جائے، اگر ان کا ووٹ یکجا نہ بھی ہو تب بھی ان سے معاملات طے کرنے چاہئیں، کیوں کہ ان کے چیدہ چیدہ ووٹ بڑے کارگر ہوتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024