بھارت میں عدم مساوات کی سنگینی اور معیشت کی سستی

پیداواری وسائل میں کمی کے ساتھ ساتھ غربا کے حقوق بھی متاثر۔ تیل، کوئلہ اور کھاد جی ڈی پی کو مخالف سمت میں لے جارہے ہیں

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

بھارتی معیشت میں 1991کے بازار اور دوست معاشی اصلاح کے بعد بڑی تیزی سے انقلابی تبدیلیاںرونما ہوئیں۔ تاحال معیشت کا ڈھانچہ حسب سابق برقرار ہے اس میں جوبنیادی کمزوریاں ہیں اس پر مخالف سیاسی کھیل کا بڑا غلبہ رہا ہے۔ حالیہ صنعتوں کے سالانہ سروے Annual Survey of Industriesکے مطابق جب سے لبرلائزیشن شروع ہوا دولت کی عدم مساوات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ منظم شعبوں میں محنت کشوں کی اجرت میں بڑی کمی واقع ہوئی۔ تھامس پیکیٹی اپنی کتاب (Capital in the Twenty-First Century)میں لکھتا ہے کہ دولت کی تقسیم میں عرصہ دراز سے حقائق کا فقدان اور عصبیت کا بول بالا رہا ہے ۔یہ عدم مساوات تھامس پیکیٹی کے اندازہ کے مطابق ہی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بھی عدم مساوات میں اضافہ دولت کی غیر متوازن تقسیم سے ہی ہوا ہے جس میں حکومت پر ایسے پالیسی سازوں کا غلبہ رہتا ہے جو اکثر اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2018میں ملک کے 10فیصد افراد جو اونچی حیثیت رکھتے ہیں 57.12فیصد سے زیادہ ہی کھایا ہے جبکہ 50فیصد غریب ترین آبادی کو 19.1فیصد پر پر ہی کتفا کرنا پڑا۔ 2019میں اعلیٰ ذات کے پاس دولت 344فیصد اور ادنی ذات کے پاس 20.3فیصد رہی اب 1991اور 2020کے درمیان امرا کا حصص 50فیصدسے بڑھ کر 74.3فیصد ہوگیا جبکہ 50فیصد غربا کی دولت میں شراکت 1991میں 8.8فیصد تھی وہ 2020میں سکڑ کر 2.8فیصد رہ گئی۔ بھارت دنیا کا تیسرا ملک ہے جہاں ارب پتیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ تعداد کورونا قہر کے دوران تیزی سے بڑھی جب کہ اسی قہر کے دوران 7.5کروڑ افراد افلاس تک پہونچ گئے۔ غربا کے پیداوری وسائل کم ہی نہیں ہوئے بلکہ ان کے حقوق اور سلامتی پر بھی سوالیہ نشان لگا۔ معاشی لبرلائزیشن سے قبل لیبر لاز کے تین اجزا حکومت، انتظامیہ اور محنت کش ہوتے تھے۔ اس کھلے پن کے درمیان ہی محنت کشوں نے بڑی لمبی لڑائی لڑ کر اپنے حقوق حاصل کیے تھے وہ سب اب ضائع ہونا شروع ہوگئے ۔کارخانہ داروں نے مزدوروں کے خلاف طرح طرح کی باتیں بازار میں پھیلانی شروع کردیں کہ مزدور اور محنت کش لالچی اور سست ہورہے ہیں۔ ان بے بنیاد الزامات کے اثرات لیبر لا میں بھی نظر آتے ہیں جہاں ہائپر اور فائبر کی پالیسی کا چلن ہے لیبر کوڈ اب حکومتیں طے کرنے لگی ہیں۔ اس کے اثرات کسان، غیر منظم شعبہ زرعی شعبہ مہاجر مزدور خود روزگار (self employed)لوگوں پر بھی پڑے۔ عدم مساوات اور محنت کشوں کے حقوق سے محرومی کے معیشت پر بڑے ہی برے اثرات پڑے جس سے دھماکو حالات کا وقوع پذیر ہونا فطری ہے۔ اس سے فطری سماجی اور معاشی استحکام میں کمی آئی۔ ایسے حالات میں مطلق العنان حکومت کے لیے انتشار میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح میریو ڈک لیبر فورس (PLFS-2019-20) سروے کے مطابق اوپری سطح کے 10فیصد افراد کی ماہانہ تنخواہ 25ہزار ہے یعنی کل 6تا7فیصد کمائی مذکورہ 10فیصد لوگوں کے حصہ میں چلی جاتی ہے۔ یہ آمدنی نچلی سطح کے 10فیصد لوگوں کا تین گناہے۔ ریگولر تنخواہ داروں میں سے 36فیصد افراد 10ہزار روپے ماہانہ سے کم کماتے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری کا حال بھی بہت برا ہے۔ ان پڑھ لوگوں میں بیروزگاری کی 0.6فیصد ہے جبکہ ڈگری اور ڈپلومہ والوں میں 20فیصد ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی ( سی ایم آئی ای) جو ایک معتبر ادارہ ہے کے مطابق اس سال کے شروع میں ملک میں بے روزگاروں کی تعداد 5کروڑ 30لاکھ ہے جس میں سے تقریباً ایک کروڑ بے روزگاروں نے مایوس ہوکر روزگار کی تلاش ہی ترک کردی ہے۔ فی الحال 3.5کروڑ لوگوں کو روزگار کی شدت سے تلاش ہے ملکی معیشت کے لیے ہی نہیں بلکہ سماجی سلامتی کے لیے بھی ضروری تھا کہ نوجوانوں کی بڑی آبادی کو مایوسی کے گہرے غار سے نکال کر ان کے اندر مثبت توانائی بھری جائے۔ ادھر چند سالوں میں سرکاری ملازمتوں میں تخفیف کی خبریں برابر چھپتی رہی ہیں۔
دوسری طرف بھارتی سماج میں معاشی نا برابری کا ناسور دن بدن بڑھتا جارہا ہے مگر بے روزگاری کے اس دباو کے باوجود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے حکومت مزید عوامی سرمایہ کاری کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے بدلے حکومت ان بے روزگار نوجوانوں کو ڈیڑھ سال میں 10لاکھ روزگار کا جملہ سنارہی ہے جس کا خیرمقدم ہونا چاہیے مگر یہ بھی سالانہ دو کروڑ کی ملازمت کے جملہ کی طرح الیکشن جیتنے کے لیے نہ ہو ۔بے روزگاری سے ہی نابرابری پیدا ہوئی ہے۔ عدم مساوات کو دور کرنے کا سب سے مناسب طریقہ یہ ہے کہ حکومت اس چیلنج کو حل کرنے کے لیے مخلصانہ کوشش کرے۔فی الحال حزب اختلاف اور ذرائع ابلاغ کے پاس اتنی قوت نہیں ہے کہ سنگھیوں کے آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر حکومت کو لاف زنی کے بجائے عدم مساوات اور نابرابری پر قابو پانے کے لیے کہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی نا برابری کے تدارک کے لیے حکومت کارپوریٹس اور امرا پر کم از کم ایک فیصد ٹیکس لگاکر نا برابری کے دیو پر قابوپائےتاکہ ملک میں نابرابری کی وجہ سے جو انتشار کی کیفیت ہے اسے ختم کیا جاسکے۔
دوسری طرف ہماری معیشت کی حالت ابھی بھی خراب ہے قومی دفتر برائے اعداد و شمار (NSO) نے 31مئی 2022کو قومی آمدنی کے عبوری تخمینے اور قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کے سہ ماہی اندازے جاری کیے۔ اقتصادی مشیر اعلیٰ نے اس موقع پر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری معیشت بہتر حالت میں ہے مگر زیادہ تر ماہرین معیشت جانتے ہیں کہ ہماری معیشت ابھی بھی خطرہ سے باہر نہیں آپائی ہے۔
ایک سابق وزیر مالیات نے یہاں تک کہا کہ ملک سائیلنٹ ہارٹ اٹیک سے گزر رہا ہے۔ مگر حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہماری معیشت کی بنیاد مضبوط ہے۔ کریڈٹ سوئس کے بھارت کے چیف اور وزیراعظم کے اکانومک ایڈوائزری کونسل کے رکن نیل کنٹھ مشرا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مہنگائی بڑھی مگر حکومت نے کسی طرح کاقدم نہیں اٹھایا طلب زیادہ اور سپلائی کم ہوتی ہے تب مہنگائی بڑھتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے طلب کے مقابلے میں سپلائی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس درمیان حکومت نے یہ طے کیا کہ کوئی بھوکا نہ رہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روپیہ میں گراوٹ کا تسلسل جاری ہے جو اچھا متبادل نہیں ہے۔ فرض کریں کہ ملک ایک گھر ہے، ہم 120روپے صرف کررہے مگر ہمارے پاس محض 100روپے ہی ہیں تو 20روپے کہیں سے لینا ہوگا یا صارفیت کو کم کرنا ہوگا۔ اس کو درست کرنے کے لیے دو متبادل ہیں۔ اس میں سب سے بہتر طریقہ ہے کہ روپے کو کمزور ہونے دیا جائے جب تک ایو کیڈو، بلیو بیری ، 2 لاکھ روپے موبائل مہنگے ہوں گے تب تک طلب کم ہونے والی نہیں ہے۔ ایک اور متبادل یہ ہے کہ پوری معیشت کو ہی سست کردیا جائے جو شرح سود کی زیادتی سے ہوگی۔ یہ حقیقت ہے کہ روپے کی قیمت میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ورک فورس میں لوگ کم ہورہے ہیں۔ خواتین کی شراکت 15سالوں سے کم ہورہی ہے۔ زیادہ تر روزگار سے بے دخلی صنعت اور شعبہ خدمات میں ہوئی۔ سروس کے اصلاً تین سیکٹرس ۔ تعلیم، نجی خدمت اور ٹراویل ٹورزم یہ سب ابھی تک متحرک نہیں ہوئے۔ جی ڈی پی کی مشکلات کچھ دنوں تک برقرار رہیں گی کیونکہ تیل، کوئلہ اور کھاد اونچی قیمتوں پر خریدے جارہے ہیں یہ سب اشیا ہماری جی ڈی پی کو مخالف سمت میں لے جارہی ہے ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022