مہاراشٹر کی سیاسی کشمکش :منظر پس منظر

سیاستکی بساط پر ہندو توا کی وراثت کو ثابت کرنے کا کھیل

ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی

کون کس پر بھاری؟ فیصلہ ابھی باقی ۔باغیوں کوعوامی حمایت سے محرومی کا ڈر۔ سرپر ہنوز ای ڈی کی تلوار
مہاراشٹر میں جاری سیاسی خلفشار کے کئی پہلو ہیں ۔ ان میں سب سے عیاں خوف و لالچ کا پہلو ہے مگر اس کا نظریاتی اور سماجی پہلو بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے یہ باتیں بہ آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے بانیوں کا تعلق مہاراشٹر سے ہے اور ان فسطائی جماعتوں کا قیام اسی سرزمین پر عمل میں آیا۔ ہندو مہا سبھا ایک سیاسی جماعت تھی اور انتخاب میں بذاتِ خود حصہ لیتی تھی۔ انگریزوں کے عتاب سے اپنے آپ کو محفوظ و مامون رکھنے کی خاطرہندو مہا سبھا کے بانی ونائک دامودر ساورکر نے معافی نامہ لکھا اور انقلابی نظریات سے دستبردار ہوکر نمک خوار و وفاداربن گئے۔ آر ایس ایس نے انگریزی استعمار کی ناراضی سے بچنے کی خاطر خود کو ہندو تہذیب و ثقافت کے احیاء کی تنظیم بتا کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اس رویہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تقریر و تحریر میں دلیری کے بلند بانگ دعووں سے علی الرغم یہ دونوں اپنے سے بڑی طاقت سے لڑنے کا دم خم نہیں رکھتے۔ انگریزوں کی نظر میں امت مسلمہ سب سے زیادہ معتوب تھی لیکن اس کے باوجود نہ اس کے کسی رہنما نےایسی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور نہ تنظیم نے راہ فرار کو پسند کیا ۔ یہی شجاعت ملت کا وہ امتیاز ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں۔
آزادی کے وقت ہندو مہا سبھا کے رہنما شیاما پرشاد مکرجی رکن پارلیمان تھے لیکن ان کا تعلق مہاراشٹر سے نہیں بلکہ مغربی بنگال سے تھا ۔ آگے چل کر جب آر ایس ایس نے اپنی سیاسی شاخ جن سنگھ کے قیام کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس ملک بھر میں چلنے والی سیکڑوں شاکھاوں کے اندر ایک بھی مقبولِ عام سیاسی چہرہ موجود نہیں تھا۔ اس لیے ہندو مہا سبھا کے شیاما پرشاد مکرجی کو مستعار لےکر جن سنگھ کا سربراہ بنانا پڑا۔ نتن گڈکری سے قبل مہاراشٹر سے کسی رہنما کو جن سنگھ یا بی جے پی کی قیادت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ نتن گڈکری کو خود بدعنوانی کے الزام میں استعفیٰ دینا پڑا اور آج بھی سنگھ کی پشت پناہی کے باوجود سرکار میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہےکیونکہ ریاستِ مہاراشٹر کے اندر وہ مقبول عام رہنما نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر میں سنگھ پریوار کی یہ درگت کیوں ہے کہ ناگپور کے گریجویٹ حلقۂ انتخاب سے اس کے امیدوار کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ اسی شہر سے ایک مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلیٰ کا بھی تعلق ہے اور سنگھ کا ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہے ؟ مہاراشٹر کی سیاست کے بین السطور چلنے والی لہرو ں کا راز ان سوالات کے جواب میں پوشیدہ ہے۔
جنگ آزادی کے دوران ان دونوں تنظیموں کو مقبولیت اس لیے نہیں ملی کیونکہ وہ سماج کے اندر نفرت و عناد پیدا کرکے عوام کو آزادی کی جدوجہد سے دور کررہی تھیں۔ عوام اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ انگریزوں کے مفاد میں کام کررہے ہیں اسی لیے سرکار کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو ان کی پشت پناہی بھی کرنی ہوگی اور اس نمک خواری کا یہ اثر ہے کہ آج بھی ان کے ذریعہ انگریزوں کے مظالم کا ذکر شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ ان لوگوں کا سارا غم وغصہ مسلم حکمرانوں سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتا ہے۔انگریزوں کے دور کو نظر انداز کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہے کیونکہ مسلم حکمرانوں کے زمانے میں تو یہ تنظیمیں موجود ہی نہیں تھیں اس لیے ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے خود اس کا مقابلہ کیسے کیا؟ مگر انگریزوں کی بابت تو مواخذہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی کیوں کی ؟ اس تلخ سوال سے بچنے کی خاطر یہ لوگ اس دورِ غلامی کو ہی نظر انداز کردیتے ہیں۔
فی زمانہ تبدیلیٔ مذہب کی آزادی ہندو احیاء پرستوں کے آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ عالمی دباو کے تحت اس پر مکمل پابندی لگا کر اس حق کو سلب کردینے کی جرأت ان میں نہیں ہے اس لیے ریاستی سطح پر مختلف قوانین بناکر رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ داعیانِ اسلام کی مانند عیسائی مشنری کے خلاف بھی دل کھول کر زہر اگلا جاتا ہے۔ اڑیسہ میں ایک مسیحی راہب کو معتوب کرنے کے بعد بچوں سمیت زندہ جلانے کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ گرجاگھروں پر غنڈوں بدمعاشوں کے ذریعہ حملے کروائے جاتے ہیں اور مشنری کو ہراساں و پریشان کرنے کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر بی جے پی کے تحت کام کرنے والا انتظامیہ حملہ آوروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر اب سرکاری سطح پر عیسائیوں کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں بھی دخل در معقولات ہونے لگا ہے۔ بیرونی امداد کو مختلف بہانوں سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ مدر ٹیریسا کے ادارے تک کو نشانہ بنانے سے یہ زعفرانی سر کار نہیں ہچکچائی لیکن اس کے باوجود انگریزی استعمارکبھی بھی ان کے نشانے پر نہیں آیا ۔اس معاملے میں ان کی اپنی مجبوری کا احساس پیروں کی زنجیر بنا ہوا ہے اور اس کا پاس و لحاظ کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔
اس جملۂ معترضہ سے لوٹ کر مہاراشٹر کی سیاست کی جانب چلیں تو سماج کے تانے بانے سے یہ بات صاف ہے کہ یہاں پر برہمنوں کو مراٹھی زبان میں بھٹ جی کہا جاتا ہے۔ چھتری سماج کا مہاراشٹر میں بول بالا نہیں رہا ۔ شیواجی کا مراٹھا سماج ریزرویشن کے حصول کی خاطر فی الحال اپنے آپ کو پسماندہ طبقات میں شمار کیے جانے کی خاطر تحریک چلا رہا ہے ۔ شیواجی کے بعد پیشواوں نے ان کے سامراج پر قبضہ کرلیا جو برہمن تھے۔ مہاراشٹر کی آبادی میں کسان اور مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق پسماندہ ذاتوں سے ہے ۔ مہاراشٹر کے اندرزراعت کے شعبے میں مسائل کی سنگینی کا اندازہ کسانوں کی خودکشی سے لگایا جاسکتا ہے۔ صنعتوں کا دائرہ بتدریج سکڑ رہا ہے۔ دلتوں اور قبائلی لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعداد یہاں موجود ہے۔ قبائلی عوام کی معیشت جنگلوں پر منحصرتھی۔ انہیں بغیر کوئی متبادل فراہم کیے جنگلات سے محروم کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کچھ علاقوں میں نکسلوادیوں کے اثرات ہیں ۔ دلت رہنماوں کی آرزو مندی اور ابن الوقتی نےسماج کو پہ درپہ تقسیم کرکے ان کو سیاسی طور پر بے وزن کر دیا ہے۔
اس سماجی تناظر میں جن سنگھ کے برہمنوں نے جب کام شروع کیا تو ان کو کچھ سرمایہ داروں کی پشت پناہی حاصل ہوگئی اور وہ سیٹھ و بھٹ جی کی جماعت کہلانے لگے۔ اس کا اثرو رسوخ بہت محدود تھا کیونکہ دیہات میں پسماندہ طبقات کے کسان مزدور کانگریس کے ساتھ تھے اور شہروں میں صنعتی محنت کش طبقہ اشتراکی جماعتوں کا ہمنوا تھا ۔ قبائلی حمایت بھی انہیں کے درمیان منقسم تھی ۔ کانگریس نے دلت سماج کو ان رہنماوں کے توسط سے اپنا حامی بنا رکھا تھا ۔ اس لیے مہاراشٹر میں جن سنگھ کی دال بالکل نہیں گلتی تھی ۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایمرجنسی کے باوجود کانگریس کا یہ قلعہ محفوظ رہا ۔ یشونت راو چوہان اور ان کے شاگرد شرپوار کی بغاوت سے قبل مہاراشٹر میں کوئی غیر کانگریسی حکومت قائم نہیں ہوسکی ۔یہ لوگ بھی انفرادی واجتماعی سطح پر تنظیمی اعتبار سے تو کانگریس سے الگ ہوئے مگر نظریاتی طور اسی فکر کے حامل رہے اسی لیے موقع بہ موقع بڑی آسانی سے ایک دوسرے کے حلیف بنتے رہے ۔
کانگریس اور راشٹروادی کا نگریس کے برخلاف ہندوتوا کی بنیاد پرمہاراشٹر میں شیوسینا اور بی جے پی کا سیاسی اتحاد قائم ہوا اور صحیح معنیٰ میں غیر کانگریسی سرکار 1995میں بنی۔ اس کے وزیر اعلیٰ شیوسینا کے رہنما منوہر جوشی تھے جس میں بی جے پی شامل تھی۔اس کے بعد 2014 میں دیویندر پھڈنویس کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار بنی اور جس میں شیوسینا شامل تھی ۔ اس موقع پر دو سوالات اہمیت کے حامل ہیں ۔ اول تو یہ کہ 1995میں ایسا کیا ہوگیا کہ شیوسینا کو اقتدار میں آنے کا موقع مل گیا اور 2014 میں شیوسینا کے بجائے بی جے پی کی حکومت کیونکر قائم ہوگئی؟ شیوسینا کے اقتدار میں آنے کی ایک اہم وجہ کانگریس کے اندر باہمی عدم اعتماد اور شرد پوار کی آرزو مندی تھا ۔ وزیر اعظم نرسمھا راو اور وزیر اعلیٰ شرد پوار کے درمیان جاری سرد جنگ کا فائدہ اٹھا کر شیوسینا اور بی جے پی نے پہلی بار مہاراشٹر میں اقتدار سنبھالا ۔ اس وقت بھی شیوسینا نے ہندوتوا کا چولہ اوڑھ رکھا تھا لیکن یہ ایک حقیقت ہے اس کا سنگھ پریوار سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے۔ بالا صاحب ٹھاکرے کی شخصیت کی بنیاد پر قائم شدہ شیوسینا کے لیے یہ ناممکن تھا کہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرپاتی لیکن بی جے پی کی طاقت اور حمایت نے اسے اس قابل بنایا ۔سوال یہ ہے کہ بی جے پی کو کانگریس کی سرپھٹول کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں حصہ دار بننے کا موقع کیسے مل گیا؟
شیوسینا کا رسوخ ابتدا میں ممبئی اور کوکن کے علاقہ تک محدود تھا ۔ چھگن بھجبل نے اسے ناسک تک پہنچایا مگر اس کے آگے شمالی مہاراشٹر(ودربھ) اور مراٹھواڑہ میں وہ موجود نہیں تھی۔ جنوبی مہاراشٹر ہمیشہ سے کانگریس اور ارشٹروادی کا گڑھ تھا اور اب بھی ہے۔ کانگریس کو کمزور کرکے اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے کھیل میں بے جا طور پر خود اعتمادی کا شکار شرد پوار نے نادانستہ طور پر بی جے پی کو قدم جمانے کا موقع دے دیا۔ اس زمانے میں بی جے پی نے نہایت حکمت کے ساتھ پسماندہ طبقات کے ایکناتھ کھڑسے اور گوپی ناتھ منڈے کو عوام کے سامنے پیش کیا اور برہمنوں کو پیچھے رکھا۔ کانگریس سے بیزار عوام اس جھانسے میں آگئے ۔ شیوسینا نے جب برہمن منوہر جوشی کو وزیر اعلیٰ بنادیا تب بھی بی جے پی نے پرمود مہاجن کے بجائے ان کے بہنوئی گوپی ناتھ منڈے کو اپنا رہنما بنایا۔ اس طرح وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی ۔ 2012؍ میں بال ٹھاکرے کا دیہانت ہوگیا ،نارائن رانے اور راج ٹھاکرے کی بغاوت نے شیوسینا کو کمزور کیا۔ اس بیچ نریندر مودی کی لہر چلی اور ان سارے عوامل نے مل کر بی جے پی کو دوسرے نمبر سے پہلے پر پہنچا دیا ۔ اس طرح دیویندر پھڈنویس ریاستِ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے ۔
بی جے پی چونکہ قومی جماعت اور شیوسینا علاقائی پارٹی ہے اس لیے ان میں اس بات پر اتفاق ہواکہ پارلیمانی انتخاب میں اول الذکر کو اور ریاستی الیکشن میں دوسری پارٹی کو فوقیت ملے گی۔ 2014؍ میں مودی کی کامیابی کے بعد بی جے پی گھمنڈ میں پڑگئی اور اس نے مذکورہ اصول کے مطابق شیوسینا کو زیادہ نشستیں دینے سے انکار کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ماہ کے بعد ہونے والے انتخاب میں یہ دونوں رفیق کار ایک دوسرے کے حریف بن گئے۔ اس دوران پسماندہ طبقات کے اندر بی جے پی کی پکڑ خاصی مضبوط ہوچکی تھی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شیوسینا کو ہندوتوا کا غدار بناکر پیش کیا جارہا تھا ۔ اس مہم کے نتیجے میں بی جے پی پہلے نمبر پر آگئی۔ اس نے شیوسینا کے بغیر اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے حکومت سازی کی اور اہم وزارتیں اپنے پاس رکھ کر شیوسینا کو کچھ ٹکڑوں کے عوض اپنا جونیئر پارٹنر بنا لیا۔ سات سال قبل ادھو ٹھاکرے نے اپنی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں جانے سے بچانے کی خاطر یہ رسوائی برداشت کرلی۔
2019؍ میں سب کچھ الٹا ہوگیا ۔ قومی انتخاب ان دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف لڑا مگر اسمبلی انتخاب میں ساتھ آگئےاس کے باوجود صوبے کے اندر بی جے پی کی نشستیں پہلے سے گھٹ گئیں۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ 2014؍ کا صوبائی انتخاب بی جے پی نے شیوسینا کے خلاف جیتا تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ نہیں تھے لیکن 2019 میں ایک ساتھ الیکشن لڑنے کے باوجود بی جے پی کی نشستوں میں کمی واقع ہوگئی حالانکہ وہ اقتدار میں بھی تھی۔ ایسا کیوں ہوگیا؟ یہ سوال اہم ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی نے پسماندہ طبقات کی مدد سے الیکشن تو جیتا مگر برہمن کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ دیویندر پھڈنویس نے اپنی ساری توجہ پارٹی کے اندر اپنے حریفوں کا اثرزائل کرنے پر صرف کردی۔ انہوں نے ایکناتھ کھڑسے ، گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجا منڈے، ونود تاوڑے،پرکاش مہتا اور چندر شیکھر باون پھلے جیسے رہنماوں کو کنارے کردیا ۔ راشٹروادی کا نگریس کے کئی ارکان اسمبلی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملایا اور کانگریس کے تو ایوان میں رہنما کو ہی خرید کر اپنا بنالیا۔ دیویندر پھڈنویس کی ’غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ‘ کی یہ حکمت عملی انہیں مہنگی پڑ گئی اور مودی کا جادو نیز سینا کی حمایت بھی ان کی نیاّ پار لگا نے میں ناکام رہا۔
ادھو ٹھاکرے نے اس موقع کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی خاطر نصف مدت کے لیے اقتدار پر دعویٰ کیا۔ دیویندر پھڈنویس نائب وزیر اعلیٰ کا عہدہ تھما کر ان کو مناسکتے تھےلیکن انہوں نے اپنے حلیف کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر حریف اجیت پوار کے ساتھ حکومت سازی کی اور ڈھائی دن کے اندر ذلت کے ساتھ استعفیٰ دے دیا۔ اس رسوائی کا انتقام لینے کی خاطر دیویندر پھڈنویس نے شیوسینا کے ارکان اسمبلی پر ای ڈی کا دباو ڈالا اور ایکناتھ شندے کی قیادت نے اس میں سیندھ ماری کردی ۔ شندے فی الحال اپنے حامیوں کے ساتھ گوہاٹی میں چھپے ہوئے ہیں جبکہ سنجے راوت انہیں چوپاٹی پر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس دوران شیوسینا کے کارکنان نے اپنے ہی باغی ارکان اسمبلی کے دفاتر پر حملے کرکے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اب ان کی واپسی آسان نہیں ہے۔ باغیوں کے پیروں تلے سے عوامی حمایت کی زمین کھسک چکی ہے اور سرپرای ڈی کی تلوار اب بھی لٹک رہی ہے۔ شیوسینا نے ان کے ہاتھوں سے پارٹی کا نشان تیرکمان چھین لیا ہے۔ ان بیچاروں کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا ہوا ہے اور ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ بی جے پی کی سفید چھڑی کو تھام کر وہ کب تک اندھوں کی مانند اس طرح ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔
ہاراشٹر کے اندر آپریشن لوٹس بظاہر ناکام ہوچکاہےلیکن پھر بھی کھیل کی آخری گیند تک کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ شیوسینا کے باغیوں کا سیاسی مستقبل پوری طرح تاریک ہوچکا ہے۔ اب ان کی ساری فکر اس پیسے کو بچانے پر مرکوز ہے جو انہوں نے کمائے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے نے پارٹی کو نئے سرے سے کھڑاکرنے کا اعلان کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سینا کا نقصان ہواہے اور پارٹی پھر سے تعمیر نوکا تقاضہ کررہی ہے۔ بی جے پی کے لیے اس کا فائدہ اٹھانا مشکل ہے کیونکہ پھڈنویس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس کے مقبو ل رہنما وں کو بےاثر کردیاہے۔ اس طرح ہندوتوا کے ترشول(ادھو، شندے اور فڈنویس) کا کتنا فائدہ کانگریس اور این سی پی کو ملے گا یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ مہاراشٹر کا یہ بہو رنگی تماشا جب ناکامی کی طرف بڑھنے لگا تو اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر تیستا ستیلواد جیسی مشہور سماجی کارکن کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن اس سے بات نہیں بنے گی۔مہاراشٹر میں کمل کے بکھراو کی دیوار پر لکھی تحریر ہر صاحبِ نظر کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 مہاراشٹر کے اندر آپریشن لوٹس بظاہر ناکام ہوچکاہےلیکن پھر بھی کھیل کی آخری گیند تک کچھ کہنا مشکل ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ شیوسینا کے باغیوں کا سیاسی مستقبل پوری طرح تاریک ہوچکا ہے۔ اب ان کی ساری فکر اس پیسے کو بچانے پر مرکوز ہے جو انہوں نے کمائے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے نے پارٹی کو نئے سرے سے کھڑاکرنے کا اعلان کرکے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ سینا کا نقصان ہواہے اور پارٹی پھر سے تعمیر نوکا تقاضہ کررہی ہے۔ بی جے پی کے لیے اس کا فائدہ اٹھانا مشکل ہے کیونکہ پھڈنویس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس کے مقبو ل رہنما وں کو بےاثر کردیاہے۔ اس طرح ہندوتوا کے ترشول(ادھو، شندے اور فڈنویس) کا کتنا فائدہ کانگریس اور این سی پی کو ملے گا یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022