توکل اورجدوجہد۔مومن کا عظیم سرمایہ

ایک اہم صفت جس کی بدولت اہل ایمان میں استقلال، عزم، شجاعت اور بے باکی جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں

بنت الاسلام

بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا مہفوم متعین کرنے میں انسانوں نے طرح طرح کی غلطیاں کی ہیں۔ انہیں الفاظ میں ایک لفظ ’توکل‘ بھی ہے۔ توکل کا عام سادہ مفہوم تو یہی ہے کہ خدا پر بھروسہ کیا جائے، مگر بھروسہ رکھنے کی صورت کیا ہو؟ یہاں آکر رائیں مختلف ہوجاتی ہیں۔ ایک گروہ نے غلط طور پر توکل کا مطلب یہ سمجھا کہ عمل اور کوشش کو چھوڑدینا اور خدا کے بھروسے پر بیٹھے رہنا توکل ہے حالاں کہ یہ توکل نہ خدا نے بتایا ہے نہ خدا کے رسول مقبول ﷺ نے ۔ یہ توکل نہیں بلکہ بے عملی ہے اور بے عملی کو اسلام میں نا پسند کیا گیا ہے۔
حضور رسول اکرم ﷺکی تعلیمات کی روشنی میں توکل کا جو مفہوم متعین ہوتا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کوشش تو پوری کرے مگر کوششوں کے نتائج کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑدے اور بھلائی کی امید رکھے، اس کے ساتھ اسے یہ بھی یقین ہوکہ کامیابی اس کی اپنی کوششوں کی بنا پر نہیں، بلکہ خدا کی مہربانی سے ہوتی ہے اور کوشش جو وہ کررہا ہے، تو اس لیے کررہا ہے کہ خدا نے کوشش کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس توکل کے دل میں پیدا ہوجانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں، انسان یاس و نا امیدی کا شکار نہیں ہوتا۔ جب اسے پورا یقین ہوکہ قدرت ساری کی ساری خدا کے ہاتھ میں ہے تو پھر اسے اس بات کا یقین بھی ہوجاتا ہے کہ وہ جب چاہے حالات بدل بھی سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے یہاں کے ہر واقعہ کے پیچھے عموماً کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ مگر ایک اور حقیقت اس سے بھی بڑی ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا مسبب الاسباب ہے۔ جب اسے کسی فرد یا قوم کو کوئی کامیابی عطا کرنی ہوتی ہے ، وہ اسباب ہی ایسے پیدا کردیتا ہے کہ جن کے نتائج کے طور پر وہ کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔
یہی وہ توکل ہے جس کا خدا نے حکم دیا اور رسول مقبول ﷺ نے ساری عمر اس پر عمل کیا اور مسلمانوں کو اپنے اندر اسے پیدا کرنے تلقین فرمائی۔
اسی توکل کی بنا پر قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں بے پناہ استقلال، عزم، جرات اور بے باکی پیدا ہوچکی تھی۔ متوکل جو صحیح معنوں میں متوکل ہو، شدید سے شدید حالات میں بھی یاس کا شکار نہیں ہوگا۔ مشکل سے مشکل اوقات میں بھی بے صبری کا اظہار نہیں کرے گا اور پر خطر سے پر خطر راہوں میں بھی کم ہمتی اور بزدلی نہیں دکھائے گا۔ جب کامیابی اس ضعیف البنیان کی کوششوں کی بنا پر نہیں بلکہ اس قادر مطلق کے حکم کی بنا پر آتی ہے جو سب کچھ کرسکتا ہے تو پھر مایوسی کیوں؟ ہاں، انسان کا فرض ہے کہ انتہائی کوشش کرے کیوں کہ خدا نے اسے انتہائی کوشش کرنے کا حکم دیا ہے اور خدا کے حکم کی نافرمانی کرکے اسے خدا کی رحمت اور امداد کی توقع رکھنے کا حق نہیں۔
اس بات کو ایک آسان مثال کے ذریعہ سمجھایا جاسکتا ہے۔ کسی علاقے کا واٹر ورکس اس علاقے کے گھروں میں پانی پہنچاتا ہے۔ یہ پانی جو گھروں کو مل رہا ہے اصل میں واٹر ورکس سے مل رہا ہے۔ مگر پانی کو گھروں کو پہنچانے کے لیے نلوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہ نل خود گھروں کو پانی نہیں دیتے بلکہ واٹر ورکس کے دیے ہوئے پانی کو گھروں تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ یہی حال اس دنیا میں ہماری کوششوں اور اسباب کا ہے۔ وہ خود کامیابی نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ کامیابی کو ہم تک پہنچانے کے ذرائع ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پانی کے نل ہی درحقیقت پانی پیدا کررہے ہیں تو ہم اس پر ہنسیں گے کہ کیسی نادانی کی بات کررہا ہے۔ ایسی ہی نادانی ہم کرتے ہیں جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری کوششیں ہی درحقیقت کامیابی لارہی ہیں۔
توکل کرنے والے اور توکل نہ کرنے والے میں یہ بڑا بنیادی فرق ہے کہ توکل کرنے والا اپنی انتہائی کوشش کرکے بھی کامیابی کو خدا کی مہربانی کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ توکل نہ کرنے والا کامیابی کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ چناں چہ توکل کرنے والے کو اپنی سعی و کوشش کے بعد کامیابی نظر آئے یا نہ آئے ، وہ کوشش جاری رکھتا ہے۔ کیوں کہ اس نے تو پہلے ہی کامیابی کو کوششوں کا نتیجہ نہیں سمجھا تھا بلکہ کوشش فرماں برداری کے لیے کی تھی اور فرماں برداری تو ساری زندگی ضروری ہے۔ اس کے برعکس جس نے کامیابی کو محض اپنی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا تھا ، اسے جب کامیابی کے حصول میں دیر لگے گی تو وہ بد دل ہوکر کوشش بھی چھوڑدے گا۔
اس طرح توکل درحقیقت سعی و عمل جاری رکھنے کی طرف ابھارتا ہے اور عدم توکل خطرے میں مبتلا کردیتا ہے انسان بد دل ہوکر سعی و عمل کو چھوڑ بیٹھے چناں چہ جو لوگ توکل کا یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ بے عمل رہ کر کامیابی کے لیے خدا پر بھروسہ کیا جائے۔ ذرا خیال کیجیے کہ انہوں نے اس لفظ کا مفہوم کتنا غلط سمجھا ہے۔
جو دل خدا کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں ان میں دوسری اعلیٰ صفات کے علاوہ یہ توکل کی صفت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور یہ توکل انہیں ہمیشہ ثابت قدم، پر امید، بہادر، نڈر اور شجیع بنائے رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ الفرقان آیت 58میں توکل کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّـذِىْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّـحْ بِحَـمْدِهٖ ۚ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُـوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْـرًا –
(اے نبی ؐ، اس خدا پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اس کا باخبر ہونا کافی ہے۔)
سورہ الشعرا 217تا219میں ارشاد ہوا ہے
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْـمِ اَلَّـذِىْ يَرَاكَ حِيْنَ تَقُوْمُ وَتَقَلُّبَكَ فِى السَّاجِدِيْنَ
(اور اس زبردست اور رحیم پر توکل کرو جو تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب اٹھتے ہو اور سجدہ ریز لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت پر نگاہ رکھتا ہے)
سورہ النحل آیت 99تا 100میں فرمایا ہے:
اِنَّهُ لَيْسَ لَـهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَلٰى رَبِّـهِـمْ يَتَوَكَّلُوْنَ اِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّـذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّـذِيْنَ هُـمْ بِهٖ مُشْرِكُـوْنَ
(اس (شیطان) کو لوگوں پر تسلط حاصل نہیںہوتا جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں)
سورہ آل عمران آیت 159تا 160میں بیان ہوا ہے:
فَبِمَا رَحْـمَةٍ مِّنَ اللّـٰهِ لِنْتَ لَـهُـمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْـهُـمْ وَاسْتَغْفِرْ لَـهُـمْ وَشَاوِرْهُـمْ فِى الْاَمْرِ ۖ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ
(پھر جب (اے نبیﷺ) تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ کو وہ لوگ پسند ہیںجو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں اللہ تمہاری مدد پر ہوتو کوئی طاقت تم پر غالب آنے والی نہیں اور وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرسکتا ہے۔ پس جو سچے مومن ہیں، انہیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’میری امت میں ستر ہزار بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے اور یہ وہ بندگان خدا ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے اور شگون بد نہیں لیتے اور اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں!‘‘ (بخاری، مسلم)
اس حدیث میں ستر ہزار سے غالباً مراد کثیر تعداد ہے۔ کیوں کہ عربی زبان اور محاروے میں یہ عدد کثرت اور غیر معمولی بہتات کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں بھی اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ خدا پر بھروسہ کرنے والے دکھ اور بیماری یا کسی اور تکلیف کے وقت یا کوئی کام کرنے سے پہلے جنتر منتر یا شگون بد لینے جیسے ممنوع افعال کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ کسی تکلیف کے دور ہونے یا کسی عمل کے کامیاب ہونے کے سلسلے میں خدا ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
’’اگر تم اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس پر توکل کرنے کا حق ہے تو وہ تمہیں اس طرح روزی دے جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے واپس آتے ہیں!‘‘ (ترمذی ، ابن ماجہ)
اس حدیث کی تشریح میں بتایا جاتا ہے کہ پرندوں کے ساتھ تشبیہ دینے سے حضور نبی کریم ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جس طرح خدا پرندوں کو سہولت سے رزق عطا کرتا ہے، اسی طرح تمہیں بھی سہولت سے روزی عطا کرے۔ باقی کوئی اگر اس حدیث یہ مفہوم نکالنا چاہے کہ توکل کرنے والوں کو خدا بغیر سعی اور کوشش کے رزق عطا کرے گا، تو ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ کیوں کہ پرندے بھی تو اپنے آشیانے سے نکل کر نقل و حرکت کرتے ہیں تبھی رزق پاتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک دن میں رسول خداﷺ کے ساتھ ایک ہی سوار پر بیٹھا ہوا تھا کہ آپ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اے لڑکے! تو اللہ تعالیٰ کا خیال رکھ (اور اس سے غافل نہ ہو) اللہ تعالیٰ تیرا خیال فرمائے گا۔ تو اللہ کو یاد رکھ، تو اس کو اپنے سامنے پائے گا اور جب تو کوئی چیز مانگنا چاہے تو بس اللہ ہی سے مانگ، اور جب تو کسی مدد کا محتاج ہوتو اللہ ہی سے امداد طلب کر اور (اچھی طرح) جان لے کہ اگر ساری انسانی برادری بھی باہم متفق ہوکر چاہے تجھے کسی شے سے فائدہ پہنچائے تو صرف وہی شے تجھے فائدہ پہنچاسکے گی جو اللہ نے تیرے لیے مقدر کردی ہے اور اسی طرح اگر ساری انسانی برادری جمع ہوکر تجھے کسی چیز سے نقصان پہنچانا چاہے تو صرف وہی چیز نقصان پہنچاسکے گی جس سے نقصان پہنچنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے مقدر کردیا ہے۔ قلم اٹھ چکے اور روشنائی خشک ہوگئی‘‘
اس حدیث میں کمال وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ ہر طرح کا نفع اور نقصان خدا ہی کی طرف سے آتا ہے اور اسی پر بھروسہ ہونا چاہیے۔
توکل کرنے والوں کو اپنی سعی و جہد کا فوری نتیجہ حاصل ہویا نہ ہو، وہ خدا کے فیصلہ پر راضی رہتے ہیں اور اس پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی کوششیں جاری رکھتے اور اس سے خیر اور بھلائی کے طالب رہتے ہیں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’آدمی کی خوش بختی اور خوش نصیبی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے جو فیصلہ ہو، وہ اس پر راضی رہے اور آدمی کی بد بختی اور بد نصیبی میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اس کی بد بختی اور بد نصیبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے نا خوش ہو!‘‘
خدا پر توکل کرنے والوں کا حوصلہ بھی بلند ہوجاتا۔ وہ خدا پر بھروسہ کرکے بڑے بڑے کاموں میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں۔ اگر وہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو وہ اتراتے نہیں اور فخر نہیں کرتے کیوں کہ ان کا ایمان ہوتا ہے کہ کامیابی ہماری کوششوں سے نہیں، خدا کی مہربانی سے آتی ہے اور اگر کسی وجہ سے وہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں تو وہ ایسی دل شکستگی کا شکار بھی نہیں ہوتے کہ آس امید چھوڑ کر بیٹھ جائیں۔
سورہ حدید آیات 22اور 23میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا فِىٓ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِىْ كِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْـرَاَهَا ۚ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّـٰهِ يَسِيْـرٌ لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتَاكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ
(کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو وجود میں لانے سے پہلے ایک کتاب (نوشہ تقدیر) میں لکھ نہ دیا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے (یہ سب کچھ اس لیے ہے) تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمہیں ہو، اس پر تم دل شکستہ نہ ہو اور جو کچھ اللہ تمہیں عطا فرمائے ، اس پر پھول نہ جاو)
ابتدا میں اسلام قبول کرنے والوں نے کفار کے ہاتھوں جو مظالم سہے تھے، آج بھی انہیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کیا کیا سختیاں تھیں جو ان پر نہ توڑگئیں اور کیا کیا شدائد تھے جو خود حضور ﷺ کی راہ میں رکاوٹیں بن کر نہ آئے۔ مگر یہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہی تھا جس نے حضور ﷺ کو نا امید نہ ہونے دیا۔ مکہ مکرمہ میں ایک مایوس ، مصیبت زدہ صحابی کو دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:
خدا کی قسم ! عنقریب و ہوقت آنے والا ہے جب یہ دین مرتبہ کمال کو پہنچ جائے گا اور لوگوں کو خدا کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں رہے گا!‘‘ (بخاری)
ابن ہشام میں ایک واقعہ نقل ہوا ہے کہ جب ایک مرتبہ آپؐکے عزیز اور ہمدرد چچا ابو طالب نے بھی آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اپنا تبلیغ اسلام کا کام چھوڑدیں تو آپ ﷺ نے جواب فرمایا:
’’عم محترم! میری تنہائی کا خیال نہ کیجیے۔ حق زیادہ دیر تک تنہا نہیں رہے گا۔عجم و عرب ایک دن اس کے ساتھ ہوگا!‘‘
ایک دن کچھ کفار نے حرم میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ جوں ہی حضور ﷺ حرم میں قدم رکھیں (نعوذ باللہ) آپ کو قتل جائے۔ حضرت فاطمہؓ نے یہ بات سن لی وہ روتی ہوئی آئیں اور آپؐ کو یہ بات بتائی۔ آپؐ نے ان کو تسلی دی اور وضو کے لیے پانی مانگا۔ وضو کرکے آپؐبے خطر حرم کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب آپ خاص صحن حرم میں پہنچے اور کفار کی نظر آپ پر پڑی تو خود بخود ان کی نگاہیں جھک گئیں۔ (مسند احمد)
جب حضور ﷺ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار حرا میں پناہ گزین تھے تو تعاقب کرنے والوں میں سے کچھ لوگ غار کے قریب آپہنچے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! دشمن اس قدر قریب ہیں کہ اگر ذرا نیچے جھک کر اپنے پاوں ک طرف دیکھیں تو ہم پر نظر پڑجائے گی! حضور ﷺ نے پرسکون الفاظ میں ’’فرمایا: غم نہ کرو ، خدا ہمارے ساتھ ہے!‘‘
آپؐ ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے ، راستے میں ایک جگہ پڑاو کیا۔ آپؐ ایک جگہ استراحت فرمانے لگے۔ صحابہ کرام بھی ادھر ادھر سورہے تھے۔ آپؐکی تلوار ایک درخت سے لٹکی ہوئی تھی۔ اتنے میں ایک بدو آیا اور آپؐکی تلوار اتار کر بے نیام کرلی۔ آپؐدفعتہً ہوشیار ہوگئے۔ دیکھا تو ایک بدو ہاتھ میں تلوار لیے کھڑا ہوا تھا۔ بدو نے کہا:
’’اے محمد! (ﷺ) اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ ‘‘ آپؐنے اطمینان سے فرمایا : ’’اللہ‘‘ (بخاری)
اور بدو آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
اللہ رب العالمین نے ضعیف البنیان انسان کو اپنی زبردست ذات پر بھروسہ کرنے کا حکم دے کر دراصل اسے طاقت کا خزانہ عطا فرمادیا ہے۔ انسان پر حیف ہے کہ اگر وہ اس بے پناہ طاقت سے فائدہ اٹھانے میں سستی برتے!
***

 

***

 جو دل خدا کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں ان میں دوسری اعلیٰ صفات کے علاوہ یہ توکل کی صفت بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور یہ توکل انہیں ہمیشہ ثابت قدم، پر امید، بہادر، نڈر اور شجیع بنائے رکھتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 اگست تا 20 اگست 2022