تاریخ حفاظتِ قرآن
خان سعدیہ ندرت امتیاز
قرآن مجید اس زمین پر اللہ رب العالمین کی سب سے بڑی نعمت اور بندوں کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انسانی فلاح بے معنی ہے اگر انسان قرآن سے نا آشنا ہو۔ لہذا اولین تقاضا یہی ہے کہ نوع انسانی کا ہر فرد کتاب اللہ سے واقف ہو کیونکہ قرآن کوئی انسانی تصنیف نہیں بلکہ ’’خدائی تصنیف‘‘ ہے اور اس کو پڑھنے کے لیے عام ذہنوں میں چند سوالات کا اٹھنا ناگزیر ہے۔ جیسے کیا قرآن ٹھیک ٹھیک اسی شکل میں اب تک محفوظ باقی چلی آرہی ہے جس شکل میں کہ اسے اس کے لانے والے پیغمبر نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا؟ اس کے نزول کی، اس کی ترتیب و تدوین کی اور اس کی حفاظت اور نشر و اشاعت کی تاریخ کیا ہے؟
ان تمام سوالوں کے جوابات قرآن و حدیث سیرت رسولؐ اور حیات صحابہ کے ذریعے خود بہ خود مل جاتے ہیں اور صحیح بات تو یہ ہے کہ قرآن کا سب سے بنیادی تعارف یہی ہے کہ اس کا کتاب الہی ہونا ایک ناقابل انکار حقیقت بن کر لوگوں کے سامنے موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آخری ہدایت نامہ پوری نوع انسانی کے لیے بھیجا گیا ہے جو ہر پہلو سے کامل، خالص اصولی اور بین الاانسانی مزاج کا حامل ہے۔
حفاظت قرآن کی اہمیت و ضرورت
جہاں تک قرآن مجید کی ترتیب و تدوین کا، اس کی تحریر و کتابت کا اور اس کے اسی ترتیب کے ساتھ لوگوں کو یاد کرادینے کا سوال ہے تو وہ کسی معمولی شک و شبہ کے بغیر عہد نبویؐ ہی میں مکمل ہو چکا تھا اور حفاظ کے سینوں میں ٹھیک اسی طرح مرتب و مدون ہوچکا تھا مگر وہ نوشتے اور صحیفے، جن میں یہ قرآن لکھوایا گیا تھا وہ اپنی ظاہری حالت میں الگ الگ اجزا کی شکل میں اور متفرق تھے۔
نبیؐ کے وفات کے بعد پہلے ہی سال بنو حنفیہ نامی قبیلے سے بمقام یمامہ مسلمانوں کی جنگ ہوئی اور اس میں بے شمار حفاظ شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ کو معاً یہ خیال آیا کہ اگرچہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ اور وعدہ فرما رکھا ہے، لیکن ہماری ایمانی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ اس وعدہ الہیٰ کی تکمیل کا ہم بھی ذریعہ بنیں، اسی لیے ہمیں قرآن کی کامل حفاظت کا ظاہری اہتمام پوری احتیاط سے کر لینا چاہیے۔ اس خیال کے آتے ہی آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے جو خلیفہ وقت اور جانشین رسولؐ تھے۔ ان کے سامنے پوری صورت حال پیش کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے یہ تجویز رکھی کہ مختلف چیزوں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک شیرازہ میں جمع کروادیجیے۔ آپؓ نے اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی نتیجتاً اس کے لیے عملی اقدام اٹھایا گیا اور یہ گویا قرآن مجید کا سرکاری نسخہ تھا۔
حضرت عثمانؓ خلیفہ سوم کے دور میں اسلام دور عرب سے نکل کر مشرق میں ایران اور مغرب میں مصر تک پھیل چکا تھا۔ اہل عجم بھی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے تھے اور ہوتے چلے جارہے تھے۔ یہ لوگ عربی سے قطعی نابلد تھے، اس لیے قرآن کی قرات میں غلطیاں کرنے لگے تھے۔ حضرت عثمانؓ کو اس صورت حال سے باخبر کیا گیا نتیجتاً آپؓ کے دور میں حضرت ابوبکرؓ کے دور کا نسخہ لے کر اس کی نقلیں تیار کروائی گئیں جو نسخہ قرآن صحیحہ کے مطابق تھے۔ یہ امور حقیقت میں اس وعدہ الٰہی کی تکمیل کا ایک حصہ تھے جو حفاظت قرآن کے باب میں کیا گیا تھا، اور اسی غیبی اہتمام کی تکمیلی کڑیاں تھے جو قرآن کے تاقیامت محفوظ رکھنے کے بارے میں موعود اور مقدر تھا۔ قرآن مجید کا خصوصی اور امتیازی وصف اس کا جوں کا توں محفوظ ہونا ہے۔
کتابِ محفوظ
کسی کتاب کے محفوظ، باقی رہنے کا مطلب یہ ہے کہ :
(الف) اس کے الفاظ بعینیہ وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل فرمائے گئے۔
(ب) ان الفاظ میں باہمی ربط و ترتیب، نیز ان سے بنے ہوئے جملوں اور فقروں کا سلسلہ بھی ٹھیک وہی ہے جیسے اس کتاب کے لانے والے پیغمبر نے اللہ کی طرف سے پیش کیا تھا۔
(ج) اس میں سے کوئی ایک کلمہ خدا وندی بھی ضائع نہیں ہوا، نہ اس طرح کے اس کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی اور لفظ رکھ دیا گیا ہے یا اس کا کسی اور زبان میں ترجمہ کر دیا گیا ہے۔
(د) اس میں کوئی لفظ بڑھایا نہیں گیا ہے، حتی کہ اس کے لانے والے پیغمبر کا اپنا بھی کوئی لفظ اس کے اندر داخل نہیں ہوا ہے۔
درجہ بالا ان باتوں میں سے اگر کوئی ایک بھی تائید ہوجائے تو پھر کتاب کو صحیح معنوں میں محفوظ ہرگز نہیں کہا جا سکے گا۔
پچھلی تمام آسمانی کتابوں میں تحریف کر دی گئی۔ ان کی محفوظیت باقی نہ رہی۔ اب سوال یہ تھا کہ اس وقت جو کتاب قرآن کے نام سے دنیا کے سامنے موجود ہے وہ اپنی زبان اپنے الفاظ، اپنی عبارت، اپنی ترتیب اور اپنی قرات، غرض ہر اعتبار سے بعینہ وہی کتاب الہیٰ ہے جسے محمد ﷺ نے پیش فرمایا تھا؟
اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے جان لینا مناسب اور ضروری ہو گا کہ صاحب قرآن نے محفوظ کرنے اور لکھنے کا کیا اہتمام کیا تھا؟
عہد رسالت میں حفاظت قرآن:
قرآن مجید ایک ہی دفعہ پورا کا پورا نازل نہیں ہوا، بلکہ اس کی مختلف آیات ضرورت اور حالات کی مناسبت سے نازل کی جاتی رہی ہیں، اس لیے عہد رسالت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ شروع ہی سے اسے کتابی شکل میں لکھ کر محفوظ کر لیا جاتا، اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو دوسری آسمانی کتابوں کے مقابلے میں یہ امتیاز عطا فرمایا تھا کہ اس کی حفاظت قلم اور کاغذ سے زیادہ حفاظ کے سینوں سے کرائی، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا ’’میں تم پر ایک ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جسے پانی نہیں دھو سکے گا‘‘۔
دنیا کی عام کتابوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ دنیوی آفات کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں، چنانچہ تورات، انجیل اور دوسرے آسمانی صحیفے نابود ہو گئے لیکن قرآن کو سینوں میں اسی طرح محفوظ کردیا جائے گا کہ اس کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا، اسی لیے ابتدائی اسلام میں قرآن مجید کی حفاظت کے لیے سب سے زیادہ زور حفظ پر دیا گیا۔ ابتدا میں وحی نازل ہوتی تو آپؐ اس کے الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہو جائیں، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں:
لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖۗ O اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَهٗۚ
’’اے پیغمبرؐ ! تم اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کا یاد کرادینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے ‘‘ (القیامہ 16-17)
اس آیت میں آپؐ کو تسلی دی گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود آپؐ میں ایسا حافظ پیدا فرما دیا کہ ایک مرتبہ نزول وحی کے بعد آپؐ بھول نہ سکیں۔ چنانچہ یہی ہوا، سرکار دو عالمؐ کا سینہ مبارک قرآن کریم کا سب سے محفوظ گنجینہ تھا، پھر آپؐ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرئیلؑ کو قرآن سنایا کرتے تھے اور جس سال آپؐ کا انتقال ہوا اس سال آپؐ نے دو مرتبہ حضرت جبرائیل کے ساتھ قرآن کا دور کیا۔
اصحاب رسولؐ کو بھی قرآن کریم سیکھنے اور اسے یاد رکھنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص اس معاملے میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔
سیکڑوں صحابہ نے اپنی زندگیاں اسی کام کے لیے وقف کردی تھیں۔ نتیجتاً تھوڑی ہی مدت میں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی جنہیں قرآن کریم ازبر حفظ تھا۔ اس جماعت میں خلفا راشدین کے علاوہ حضرت طلحہؓ، سعیدؓ، ابن مسعودؓ، حذیفہ بن یمان ، سالم مولیٰ بن حذیفہؓ، ابو ہریرہؓ ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمروؓ، عبداللہ بن السائبؓ، عمرو بن عاصؓ، معاویہؓ، حضرت عائشہؓ ، حفصہؓ، ام سلمہؓ وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
غرض ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کی حفاظت کے لیے یہی بنیادی طریقہ اختیار کیا گیا کیونکہ اس دور کے حالات کے پیش نظر یہی طریقہ سب سے زیادہ محفوظ اور قابل اعتماد تھا۔
کاتبین وحی
قرآن قلب رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے قلوب میں محفوظ تھا لیکن کتابت کے ذریعے سطور میں محفوظ کرنا بھی ضروری تھا اس لیے کہ تعلیم وتعلم کا ایک ذریعہ قلم بھی ہے ’’اللہ وہ ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا‘‘ (العلق آیت ۴)
اسی لیے آپؐ نے قرآن یاد کروانے کے ساتھ اسے لکھوانے کا اہتمام کیا تھا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ فرماتے ہیں کہ میں آپؐ کے لیے وحی کی کتابت کرتا تھا۔ حضرت زیدؓ کے علاوہ بالعموم ابی بن کعبؓ، زبیر بن عوامؓ، حضرت معاویہؓ یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ کاتبان وحی کی تعداد روایوں کے ذریعہ 23 معلوم ہوتی ہیں اور کچھ کے مطابق 45 ناموں کی تفصیل دی گئی ہے۔
ان کاتبان وحی میں سے جو بھی حاضر ہوتا اس سے قرآن لکھوالیا جاتا تھا۔ دربار نبویؐ اور مکتب نبوت کے مصروف کاتب زید بن ثابتؓ تھے۔ ’’کتابت‘‘ کے لیے باریک جھلی (رق)، دباغت شدہ پتلا چمڑا (ادیم)، کھجور کی شاخوں کا نچلہ حصہ (عسیب) سفید پتھر کی پتلی پتلی سلیٹس (لخاف) اور اونٹ کے شانے کی چوڑی چوڑی ہڈیاں (کتف) وغیرہ جیسی اشیا عہد رسالت میں استعمال کی جاتی تھیں۔
قرآن مجید کی کتابت کا اہتمام صرف مدینہ میں نہیں کیا جاتا تھا بلکہ دور مکی میں بھی کتابت قرآن کا ثبوت ملتا ہے۔ اس طرح عہد رسالت میں قرآن کریم کا ایک نسخہ تو وہ تھا جو رسول اللہ نے اپنی نگرانی میں لکھوایا تھا، اگرچہ وہ کتابی شکل میں نہ تھا بلکہ متفرق پارچوں کی شکل میں تھا۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے پاس عہد رسالت ہی میں قرآن کریم کے لکھے ہوئے صحیفے موجود تھے۔
سورتوں کی ترتیب توفیقی ہے:
جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا تعلق ہے وہ توفیقی (بحکم خداوندی اور اس کے آگاہ کرنے پر موقوف و مبنی) ہے۔ آنحضورؐ کی زندگی میں یہ ترتیب معلوم تھی۔ قرآن صحابہ کرامؓ کے سینوں میں اس طرح محفوظ تھا جیسے آپؐ نے بحکم خدا وندی ان کو آگاہ وہ آشنا کیا تھا۔
عہد صدیقی میں حفاظت قرآن
عہد رسالت میں اگرچہ کہ پورا قرآن متفرق اشیا پر لکھا جاچکا تھا اور متفرق اشیا پر لکھا ہوا محفوظ بھی تھا مگر مصحف واحد میں مرتب نہیں ہوا تھا۔ محمد ﷺ اور حفاظ صحابہ کی ایک معتدبہ تعداد کی موجودگی میں قرآن کے کسی حصے کا تلف ہونا بعید از قیاس تھا۔ مگر جب نبی رحمتؐ وفات پاگئے تو صحبت رسولؐ سے صحابہ اکرام ؓ محروم ہو گئے اور ساتھ عہد صدیقی میں جنگ یمامہ ہوئی بے شمار حفاظ شہید ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کے دل میں الہام کیا کہ اسی طرح حفاظ قرآن شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے گا اس لیے قرآن کو مصحف واحد میں مرتب کرنا تقاضائے مصلحت ہے۔ چنانچہ انہوں نے خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر ؓ کو مشورہ دیا اور اس پر جمے رہے یہاں تک کہ حضرت ابوبکرؓ کو اس پر شرح صدر ہو گیا۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے کہا کہ آپؓ عہد رسالت میں کاتب وہی رہ چکے ہیں۔ لہذا آپؓ قرآن کو مرتب کرائیں اور اسے ایک جگہ محفوظ کریں۔ اس ذمہ داری میں حضرت عمرؓ بھی شریک تھے اور دونوں حفاظ قرآن بھی تھے۔
جمع قرآن۔ حضرت زیدؓ کا طریقہ
حضرت زیدؓ بن ثابت کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ وہ خود حافظ قرآن تھے۔ اور ان کے علاوہ بھی کئی حفاظ اس وقت موجود تھے، ان کی ایک جماعت بنا کر بھی قرآن کریم لکھا جا سکتا تھا لیکن احتیاط کے پیش نظر اعلان عام کر دیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی جتنی آیات لکھی ہوئی موجود ہوں وہ حضرت زید بن ثابت کے پاس لے آئے تو اس کی تصدیق چار طریقوں پر کی جاتی تھی۔
1۔ سب سے پہلے اپنی یادداشت سے اس کی توثیق کرتے۔
2۔ حضرت عمرؓ اور حضرت زیدؓ دونوں مشترک طور پر اسے وصول کرتے تھے۔
3۔ کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک دو معتبر گواہ یہ گواہی نہ دیں کہ وہ نبیؐ کے سامنے لکھی گئی تھی۔
4۔ اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا جو مختلف صحابہ نے تیار کر رکھا تھا۔
اس طرح نہایت درجہ احتیاط کے ساتھ ایک سال کی مدت میں سارا قرآن جمع کرلیا گیا اور اسے ایک کتاب کی صورت میں پیش کر دیا گیا لیکن ہر سورت علیحدہ صحیفے میں لکھی گئی۔ اس لیے یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا۔ اصطلاح میں اس نسخہ کے ’’ام‘‘ یا امام‘‘ کہا جاتا ہے۔
نسخہ اُم
نسخہ اُم کی چند خصوصیات یہ تھیں۔
(1) اس نسخہ میں آیات قرآنی تو حضرت محمد ﷺ کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں، لیکن سورتیں مرتب نہیں تھیں، بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی۔
(2) اس نسخہ میں قرآن کے ساتوں حروف (سبعہ احرف یا قرات) جمع تھے۔
(3) اس میں وہ تمام آیتیں جمع کی گئی تھیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی
(4) اسے لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا نسخہ مرتب ہوجائے جس پر تمام امت کی مہر تصدیق ثبت ہو اور ضرورت کے وقت اس کی طرف رجوع کیا جا سکے۔
یہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ان کے پاس رہا۔ سیدنا ابوبکرؓ کے انتقال کے بعد حضرت عمرؓ کے پاس رہا۔ سیدنا عمرؓ کی شہادت بعد ان کی وصیت کے مطابق اس نسخہ کو ام المونین حضرت حفصہؓ کے پاس منتقل کر دیا گیا اور یہ نسخہ ان کی وفات تک انہیں کے پاس رہا۔
عہد عثمانی میں حفاظت قرآن
حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کو اس وجہ سے جمع کیا تھا کہ انہوں نے حفاظ قرآن کے اٹھ جانے سے قرآن کے ضائع ہو جانے کا خطرہ محسوس کیا تھا۔ اس خطرہ کے پیش نظر قرآن کی سورتوں کو صحیفوں میں لکھوا کر محفوظ کردیا گیا تھا۔
عہد عثمانی میں اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر روم و شام اور ایران و خراسان کے دور، دراز علاقوں تک پہنچ چکا تھا۔ اور نئے نئے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ جو مسلمان تاجر اور مجاہدین قرآن سیکھتے اور پڑھتے تھےان نو مسلموں کو یہ بات پوری طرح معلوم نہیں تھی کہ قرآن، قرات سبعہ میں نازل ہوا ہے اور ان میں سے ہر ایک میں پڑھنا جائز ہے۔ اس لا علمی کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑے پیش آنے لگے اور خطرہ محسوس ہوا کہ ان جھگڑوں کا بر وقت سدباب نہ کیا گیا تو آگے چل کر قرآنی نسخوں کا یہ تنوع یہودیوں کی طرح باہمی تذلیل و تکفیر اور فرقہ بندیوں کا باعث بن جائے گا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت حذیفہؓ آرمینیا اور آزر بائیجان کے محاذ پر جہاد میں شریک تھے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کی قرات کے معاملے میں اختلاف کر رہے ہیں۔ مدینہ واپس آکر انہوں نے امیر المومنین حضرت عثمان غنیؓ کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا تو انہوں صحابہ کرام کو جمع کیا اور اکابر صحابہؓ کے مشورے سے فیصلے کے مطابق قرآن کریم مصحف اُم (یا مصحف ام) کو سامنے رکھ کر اس کی نقلیں تیار کروائی گئی اور ان کے مصاحف میں سے ایک ایک مصحف ہر علاقے کو بھجوا دیا گیا اور اس کے علاوہ قرآن کے ہر صحیفے اور مصحف کو جلا دینے کا حکم صادر فرما دیا۔
حضرت عثمانؓ نے حضرت حذیفہؓ سے مصحف ام منگوایا اور پھر ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی جن میں درج ذیل صحابہ اکرامؓ شامل تھے۔
1۔ حضرت زید بن ثابت
2۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ
3۔ حضرت سعید بن العاصؓ
4۔ حضرت عبدالرحمن بن ہشامؓ
1۔ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جو نسخہ تیار ہوا تھا اس میں سورتیں مرتب نہیں تھیں بلکہ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی، ان حضرات نے تمام سورتوں کو ترتیب کے ساتھ ایک ہی مصحف میں لکھا۔
2۔ قرآن کریم کی آیت اس طرح لکھیں کہ ان کے رسم الخط میں تمام متواتر قراتیں سما جائیں، اسی لیے ان پر نہ نقطے لگائے گئے اور نہ حرکات تاکہ اسے تمام متواتر قراتوں کے مطابق پڑھا جاسکے۔
3۔ قرآن کی جو نقلیں تیار کی گئی تھیں ان کی تعداد بعض کے نزدیک پانچ ہیں اور بعض کے نزدیک سات ہیں۔ ان نسخوں میں ایک ایک مکہ، شام، یمن، بحرین، کوفہ اور بصرہ کو بھیج دیا گیا اور ایک مدینہ منورہ میں محفوظ رکھا گیا۔
4۔ نقل شدہ نسخوں کو نبیؐ کے زمانے کی مختلف متفرق تحریروں کے ساتھ ازسر نو مقابلہ کر کے ایک مرتبہ پھر تصدیق کی گئی۔
5۔ قرآن کریم کے معتدد معیاری نسخے تیار کروانے کے بعد حضرت عثمانؓ نے وہ تمام انفرادی نسخے نذر آتش کروا دیے تاکہ رسم الخط، مسلمہ قراتوں کے اجماع اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہو جائیں اور کوئی اختلاف باقی نہ رہے۔
حضرت عثمان غنیؓ کے اس کارنامہ کو پوری امت نے بہ نظر استحسان دیکھا اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس کام میں ان کی تائید اور حمایت کی۔
بقیہ سلسلہ صفحہ نمبر۔18
آسانی تلاوت کے لیے اقدامات
حضرت عثمانؓ کے مرتب کردہ مصاحف میں نقطے اور اعراب نہیں تھے کیونکہ اس وقت تک ان کے لکھنے کا رواج نہ تھا۔ البتہ منزل یا حزب کا رواج صحابہ کرامؓ کے دور میں موجود تھا چونکہ قرآن کریم کے نسخہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے اس لیے اہل عجم کو ان کی تلاوت میں دشواری ہوتی تھی۔ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس میں نقطوں اور اعراب کا اضافہ کیا جائے تاکہ تمام لوگ آسانی سے اس کی تلاوت کر سکیں۔
اس میں روایات مختلف ہیں کہ قرآن کریم کے نسخے پر سب سے پہلے نقطے اور اعراب کس نے لگوائے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کام سب سے پہلے ابو الاسود دؤلی نے انجام دیا اور بعض کہتے ہیں یہ کام حجاج بن یوسف نے یحیی بن یعمرؓ اور النصر بن عاصم یثی سے کرایا۔
حفاظت قرآن کے قدرتی عوامل
قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا اور اس کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ معنی، رسم الخط، عملی صورت، زبان ، ماحول، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا ان کی سیرت اور ان کے اولین مخاطبین کی سیرت بھی محفوظ فرمائی۔
عرب لوگوں کا شوق تھا کہ وہ اپنے نسب کو محفوظ رکھتے تھے۔ اپنے ہی نسب نہیں بلکہ گھوڑوں کے بھی نسب یاد رکھتے تھے۔ قدرتی عوامل کی بنیاد پر یہ لوگ بہت ذہین تھے۔ انہیں پر ان کی زبان میں قرآن کو نازل کیا گیا۔
آپؐ سے شدید محبت ان کے دلوں میں ڈال دی۔ نتیجتاً صاحب قرآن کے ذریعے قرآن کو حفظ کرنا ان کے لیے آسان ہو گیا۔
جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ معاش کی فکر سے آزاد ہو کر اپنے مقصد پر توجہ مرکوز کرے۔ ’’اصحاب صفہ‘‘ اس کی مثال ہیں۔
الغرض یہ کہ اس وقت کا ماحول، آپؐ سے شدید محبت، معاش کی طرف سے فراغت اور حافظہ کی صلاحیت یہ حفاظت قرآن کے قدرتی عوامل ہیں۔
محفوظیت قرآن۔ ۔۔ دلائل
امور و حقائق پر نظر ڈالیں تو دو قسم کے دلائل حفاظت قرآن کے ضمن میں موجود ہیں۔
1۔ عقلی دلائل
2۔ قرآنی دلائل
1۔ عقلی دلائل
ان کی حیثیت یہ ہے کہ ’’محفوظیت‘‘ قرآن کا وہ ثبوت ہے جو مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے حجت کا کام کرتے ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ عرب قوم کا قوت حافظہ جو اس وصف میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا تھا، اس کے علاوہ حفاظت بذریعہ کتابت یہ بھی دلیل ہے کیونکہ آج بھی وہ نسخے موجود ہیں
2۔ قرآنی دلائل
قرآن کریم کہ وہ بیانات جن سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ محفوظ رہنے والی کتاب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وہ لوح محفوظ میں درج ہے‘‘
حرف آخر:
قرآن مجید نے اپنی مخصوص حیثیت بتائی ہے کہ وہ امتیازی صفتوں کا مالک ہے۔ قرآن اللہ رب العالمین کا آخری ہدایت نامہ ہے جو پچھلی ساری آسمانی کتابوں کو منسوخ قرار دے چکا ہے اور جس کی پیروی پر پوری انسانیت کی فلاح اور نجات موقوف ہے۔
کیا عقل عام اس امر کو قابل تسلیم قرار دے سکتی ہے کہ وہ بھی کبھی تحریف کی نذر ہو سکتی ہے؟ اسے بھی کبھی بھلا دیا جا سکتا ہے یا اس کے اندر کوئی تغیر آسکتا ہے؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ بات اس کی حیثیت، منصب اور اس کے مقصد نزول سے کسی طرح میل نہیں کھاتی۔
کتاب الہیٰ واحد منظور شدہ ہدایت نامہ ہے اور اس کی پیروی کو ہی رحمت اور مغفرت کی شرط قرار دیا گیا ہے
بقول اقبال
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے، نہ رازی نہ صاحب کشاف
***
***
قرآن مجید پہلی آسمانی کتاب ہے جس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا اور اس کی حفاظت کا حیرت انگیز انتظام کیا۔ اس طور پر کہ اس کے الفاظ معنی، رسم الخط، عملی صورت، زبان ، ماحول، جس عظیم ہستی پر اس کا نزول ہوا ان کی سیرت اور ان کے اولین مخاطبین کی سیرت بھی محفوظ فرمائی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022