تدریس کے اصول اور گُر

روایتی طریقہ تدریس کے ساتھ نئے طریقوں کو بھی اختیار کیا جائے

استاذ طلباء کو صرف سنانے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان سے سننے کی بھی کوشش کرے
پچھلے دنوں مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے منعقدہ خصوصی پروگرام میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے استاذ ڈاکٹر محمد محمود صدیقی نے اصولِ تدریس کے سلسلے میں نہایت ہی اہم اور مفید باتیں بتائیں جن کا خلاصہ قارئین ہفت روزہ دعوت کے استفادے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ محمد شفیق عالم ندوی ،معاون مرکزی تعلیمی بورڈ، نئی دلی
ہمارے تعلیمی نظام میں اصول تدریس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس کے ذریعے طلبا و طالبات میں علم، آگہی اور معلومات کو منتقل کیا جاتا ہے۔ طریقہ تدریس بنیادی طور پر ایک فن ہے۔ ہر استاد کا اپنا جداگانہ طریقہ تدریس ہوناچاہیے۔ جس طرح مشہور سیاح کولمبس اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرداں تھا، ہر استاد کو بھی اپنے پیشے کو مفید اور کارآمد بنانے کے لیے ابتدا ہی سے بعینہ اس نوعیت کا محقق بننا پڑے گا۔ استاد جب تک ایسا نہیں کرتا اس وقت تک وہ اپنے طلبا وطالبات کی ضروریات، دل چسپیوں اور خواہشات کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔
یہاں تدریس کے ساتھ اردو میں دو الفاظ اصول اور گُر استعمال ہوئے ہیں۔ اردو میں دونوں الفاظ کے معنی علیحدہ ہیں، اصول کو جب تدریس سے جوڑا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا وجود تجربات کے علاوہ تحقیق وتشریح کی بناپر ہوا ہے، جب کہ گُر کے ساتھ یہ بات شامل ہے کہ وہ صرف اور صرف ماہر اساتذہ کرام کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ اسی طرح انگریزی میں بھی دو الفاظ Principle اور Maxim استعمال ہوئے ہیں، لیکن یہ دونوں الفاظ ہم معنی (متبادل) کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
اصول سے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے لیے اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ بنیا دی طور پر اصول (Principle) کو دو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نفسیاتی تدریسی اصول
(Psychological principles of teaching)
عام تدریسی اصول
(General Principles of Teaching)
اب دونوں اصولوں کو بالترتیب سمجھیں :

1۔ نفسیاتی تدریسی اصول
(psychological principles of teaching)

وہ اصول جن کی بنیاد میں نفسیاتی تحقیقات شامل ہیں یا ایسے اصول جو نفسیاتی تحقیقات کی روشنی میں وضع کیے گئے ہیں، وہ درج ذیل ہیں :
تعلیم بذریعہ عمل
(Principle of activity or learning by doing)
تدریس میں بالعموم اساتذہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو زیادہ سے زیادہ سنایا جائے۔ یہ بھی سکھانے کا ایک طریقہ ہے، لیکن سننے اور سنانے سے طلبا بھول جاتے ہیں، اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ طلبا کو جس کے بارے میں بتایا جائے اسے دکھانا بھی چاہیے تاکہ وہ اس کے ذہن میں جگہ پالے۔ اس سے بھی احسن طریقہ یہ ہے کہ جس کے بارے میں معلومات فراہم کی جا رہی ہیں ان کو عملی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ اس کی آموزش اور اس کے اکتساب پر اسے عبور حاصل ہو جائے، گویا پہلا اصول یہ ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو سکے بچوں کو کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
کھیل کھیل میں تدریس
(Principle of play way)
بچوں کے مزاج اور ان کی جبلت میں کھیل شامل ہے۔ کھیلنے کی طرف ان کا فطری رجحان ہوتا ہے، لہٰذا کلاس کی کارکردگی کو استاد اتنا دل چسپ بنا دے کہ طلبا اس میں مشغول ہو جائیں جیسے وہ کھیل میں منہمک ہوتے ہیں۔ ان کو پڑھنے لکھنے کا کام بھی کھیل کے مانند معلوم ہونے لگے اور وہ اس سے کنارہ کش ہونے کے بجائے اس میں شریک ہونے کی کوشش کریں۔
ترغیب کا اصول
(Principle of motivation)
حصول علم کی جانب طالب علم کی دل چسپی اور رغبت ضروری ہے۔ بغیر دل چسپی کے سیکھنے اور آموزشی عمل میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو اس جانب آمادہ کرے، اگر اس میں سیکھنے کی ترغیب جاگزیں ہوگئی تو وہ سبق کو خود سے پڑھ اور سمجھ لے گا، اگر کوئی چیز سمجھ میں نہیں آئے گی تو استاد سے اس سلسلے میں رجوع کرے گا۔
خود سے سیکھنے کا عمل
(Self learning from principls of education)
استاد طالب علم کو سبق کی ایک ایک چیز سمجھا نے کے بہ جائے بنیادی باتیں سکھائے پھر اسے اس بات پر آمادہ کرے کہ وہ اپنے طور پر سیکھنے کی کوشش کرے، اس لیے کہ جب وہ خود سے سیکھتا ہے تو یہ اس کے لیے زیادہ موثر اور کارآمد ہوتا ہے۔ در حقیقت طالب علم کی زندگی میں جتنی چیزیں درکار ہیں وہ ساری چیزیں استاد اسے سکھا نہیں سکتا۔ اس لیے موجودہ وقت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے اسے سیکھنے پر راغب کیا جائے اور سیکھنے کے طریقے بتا دیے جائیں، اس کو مثال سے یوں سمجھا جا سکتاہے کہ کسی نے چابی کا ایک کھلونا لیا، اس میں چابی بھر دی اب اس کھلونے کے چلنے کا عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اس میں چابی بھری ہوئی رہے گی، بالکل اسی طرح سے استاد نے اسے آمادہ کیا اور سیکھنے کا طریقہ بتا دیا۔ اب زندگی بھر وہ سیکھتا رہے گا جو کہ اس کی ضرورت ہے۔ بالخصوص اس دور میں کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں نے جو سیکھ لیا ہے وہ بقیہ زندگی کے لیے کافی ہے، مجھے مزید سیکھنا نہیں ہے، تو کلاس روم میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ہر چیز نہ سکھائی جائے بلکہ بنیادی چیزیں سکھانے کے ساتھ سیکھنے کا طریقہ بتا دیا جائے اور طالب علم کو خود سے سیکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ اگر اس پر عمل آوری ہوئی تو طالب علم زندگی کے بقیہ ایام میں خود سیکھتا رہے گا۔
انفرادی فرق کے اصول
(Principles of Individual difference)
انسان کی تخلیق اختلاف پر مبنی ہے، ایک دوسرے کی طرح کوئی پیدا ہوا ہے نہ ہوگا۔ یہ قدرت کا اصول ہے کہ ہر فرد کو ایک دوسرے سے ممتاز بنایا گیا ہے، انفرادی فرق (Individual differences) کا خیال رکھنا اور اس کے لحاظ سے درس دینا تدریس کا بہت ہی بنیادی اصول ہے۔ اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کلاس میں ساٹھ طلبا موجود ہوں تو ظاہر ہے کہ وہ سب منفرد شخصیات ہیں، کیا ایک استاد کے لیے یہ ممکن ہے کہ ان سب کو انفرادی فرق (Individual difference) کا خیال رکھتے ہوئے درس دے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کا کسی حد تک حل یہ ہو سکتا ہے کہ ان طلبا کوتین گروپ میں تقسیم کر دیا جائے، اول اعلیٰ (Above average) دوم اوسط (average) سوم ادنی (below average) پہلے اور تیسرے گروپ کے طلبا کی تعداد بہت کم ہوگی، تو استاد اپنی تدریس کا اہم ہدف (main target) اوسط (average) گروپ کو بنائے اور استاد درجے میں تدریس کے ساتھ ان دونوں جماعتوں کا خیال رکھتے ہوئے ایسی سرگرمیاں (activities) فراہم کرے جن سے اوسط گروپ کے ساتھ مذکورہ دونوں گروپس بھی اس سے مطمئن ہوجائیں۔ اس طریقے سے استاد کلاس روم میں انفرادی فرق (Individual differences) کاخیال رکھنے کی کوشش کرے گا اور کلاس روم کے باہر تو یہ بآسانی ممکن ہے ۔
مقصد کا اصول
(Principle of Goal)
تدریس کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ طالب علم کو استاد بالترتیب حصول مقصد سے روشناس کرائے۔ مقصد کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ طویل المدت ۲۔ سریع المدت
طویل المدت یہ ہے کہ طالب علم یہ خواہش کرے کہ مجھے اچھا طالب علم بننا ہے یا آئی اے ایس آفیسر بننا ہے یا عالم بننا ہے۔ سریع المدت یہ ہے کہ طالب علم کی خواہش ہو کہ اس وقفے میں مجھے یہ چیز سیکھنی ہے۔ استاد کو چاہیے کہ پہلے مقصد کے تعین میں طالب علم کی مدد کرے، اگر مقصد کا تعین ہوگیا تو اندرونی طور پر اس کی حوصلہ افزائی ہوگئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ استاد نے اسے مقصد یعنی سمجھ داری کے ساتھ کام کرنے کا طریقہ سکھا دیا۔ اب طالب علم جو کچھ بھی کام کرے گا سمجھ داری کے ساتھ کرے گا۔ اس کی حیثیت ان کٹھ پتلیوں کی طرح نہیں ہوگی جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ وہ جس طرح سے ڈور کھینچتا ہے اسی طرح سے ان کو ناچنا پڑتا ہے۔ طالب علم تو طالب ہے۔استاد کو اس بات کاخیال رکھنا چاہیے کہ وہ جس مقصد کے تحت درس دے رہاہے ، وہ مقصد طالب علم خود اپنی تعلیم (learning) کے لیے اپنا لے۔
مقصد کی ترتیب کا اصول
(Principle of Goal setting)
جب کوئی شخض کسی چیز پر رد عمل کا اظہار کرتا ہے تو وہ چیز اس کے لیے مہیج (stimulus) یعنی ہیجان برپا کرنے والی ہوتی ہے۔ مہیج (stimulation) کا مطلب یہ ہے کہ استاد جونبھی تدریسی تجربات (provide teaching experiences) کر رہا ہے یا تدریس کے لیے جو سرگرمیاں اختیار کر رہا ہے وہ سرگرمی ایسی ہو کہ اس پر عمل آوری کے لیے طالب علم آمادہ ہوجائے ، ظاہر ہے کہ اس کے لیے بہت سارے اصولوں کو اپنانا ہوگا۔ مثلاً ایک اصول تنوع (Variety) کا ہو سکتا ہے۔ استاد تدریس کا ایسا طریقہ اپنائے جس میں تنوع ہو، اگر ایک جیسا انداز ہوگا تو تھوڑی دیر کے بعد اس سے دل چسپی ختم ہو جائے گی، اس میں تحریک (stimulate) محسوس نہیں کرے گا، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس میں تنوع (variety) ہو۔ اس کے لیے اور بھی بہت سے اصول ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے طالب علم کو رد عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہے ۔
اجتماعی اصول
(Principal of association)
تدریس کا اصول یہ بھی ہے کہ بہت سی چیزوں کو اکٹھا (associate) کر کے سکھایا جائے۔ یہ عمل مماثلت (similarities) یا برعکس (opposite) کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ اجتماعیت کا اصول (laws association) جس کامطالعہ ہم نفسیات (psychology) میں اس طرح کرتے ہیں کہ ایک چیز کا دوسری چیز سے تعلق بتاکر پہلی معلوم (known) چیز کی مدد سے دوسری نا معلوم چیز کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مطالعے کا اصول
Principle of Study )
استاد تدریس کے لیے جس قسم کی سرگرمیوں کا انعقاد کرے طلبا دل چسپی کے ساتھ ان میں شرکت کے لیے آمادہ اور تیار ہوسکے ، اس طرح اس میں سیکھنے کی دل چسپی پیدا ہو جائے گی۔
اثر کے اصول
(Principle of effect)
استاد کو چاہیے کہ طلبا کے ذریعے پوچھے ہوئے سوال کو توجہ سے سنے اور پھر اس پر تبصرہ کرے، ورنہ طلبا تذبذب کے شکار ہوجائیں گے کہ آیا وہ جواب صحیح ہے یا غلط۔ نتیجتاً ان پر آموزشی اثرات مرتب نہیں ہوں گے کہ انہوں نے کتنا سیکھ لیا ہے۔ لہٰذا انہیں اپنی رائے (feedack) فراہم کرے۔
یہ نفسیاتی تدریس کے چند اصول تھے جو بیان کیے گئے کہ کس طرح سے ان کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے کوئی بھی استاذ کامیابی کے ساتھ اپنے تدریسی ہدف تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کا دوسرا اور اہم حصہ تدریس کے عمومی اصول ہیں جو ان شاء اللہ اگلے شمارے میں پیش کیے جائیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024