انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے ؟

نور اللہ جاوید، کولکاتا

اقلیتوں کی سیاسی خود اختیاری کے لیے موثر حکمت عملی کے ساتھ طویل جدوجہد کی ضرورت
فرقہ پرستی کے موجودہ ماحول میں سیاسی نمائندگی میں اضافے کی غیر حکیمانہ لڑائی سے مزید نقصان پہنچ سکتا ہے
وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر بی جے پی کے عام کارکن تک سبھی ’اس بار 400 کے پار‘ کے ’نعرہ مستانہ‘ میں جھوم رہے ہیں، انہیں یقین ہے کہ وہ تیسری مرتبہ زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں واپسی کریں گے۔ وزیر اعظم مودی اور ان کے حامیوں کے اس یقین کی بنیاد کیا ہے؟ کیا بی جے پی کو 300 سے زائد سیٹیں ملیں گی؟ اور بی جے پی آخر 400 سیٹوں پر کامیابی کیوں چاہتی ہیں اور تیسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد ان کے عزائم کیا ہیں؟ گرچہ انتخابی موسم میں یہ سوالات کافی اہم ہیں مگر آج ہمارا موضوع مسلمانوں کی سیاست اور اقتدار میں حصہ داری ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی 400 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں کی حصہ داری کیا ہوگی؟دراصل اسی ہفتے وزیر اعظم مودی نے کیرالا کے بال گڑھ میں روڈ شو کیا۔اس روڈ شو کے دوران ان کے ساتھ بی جے پی کے امیدوار تھے۔ لیکن اس میں مالاپورم سے بی جے پی کے مسلم امیدوار کو وزیر اعظم کی سیکیورٹی عملے نے گاڑی میں سوار ہونے نہیں دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کے 400 سے پار کے نعرے میں مسلمانوں کی شمولیت کیا ہوگی۔’’ اقلیت سوزی اور اکثریت نوازی‘‘ کے اس دور میں مسلمان بتدریج سیاست اور اقتدار سے غائب ہو جاتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غیر موجودگی خود مسلمانوں کے لیے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور اس کے ملک کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، کیا مسلمانوں کی نمائندگی آبادی کے اعتبار سے ہوسکتی ہے؟ تاہم اس حقیقت کو بھی ذہن نشیں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کا بحران کوئی مودی دور حکومت یا پھر 90 کی دہائی کے بعد منڈل کی سیاست کے مقابلے کمنڈل کی سیاست کی بدولت فرقہ پرستی کے عروج کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کی نمائندگی ہمیشہ کم رہی ہے۔
1941 میں غیر منقسم بھارت کی آبادی 318 ملین تھی جس میں 66 فیصد ہندو اور 24 فیصدمسلمان تھے۔ 1951 میں آبادی 361 ملین تھی، لیکن تقسیم کے بعد ساخت ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی گئی تھی۔ آزاد بھارت میں آبادی کے لحاظ سے 84 فیصد ہندو اور 10 فیصد مسلمان تھے۔مسلم طبقہ میں اعلیٰ شرح پیدائش کی وجہ سے اسی مدت کے دوران ان کی آبادی 12 فیصد سے بڑھ کر 15 فیصد ہوگئی ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق 2060 تک بھارت دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بن جائے گا۔ یعنی 19 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہو جائے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ سیاست اور اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ این ڈی ٹی وی کے سابق پروموٹر اور مشہور صحافی پرنائے رائے اور دوراب سوپاری والا نے اپنی مشترکہ کتاب ’’دی ورڈکٹ‘‘ بھارت کی انتخابی سیاست کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا مرحلہ 1952 سے 1977 تک، دوسرا مرحلہ 1977 سے 2002 تک اور تیسرا اور موجودہ مرحلہ 2002 میں شروع ہوا ہے۔اس کتاب میں کہا گیا ہے کہ تینوں مرحلوں میں پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی مسلسل کم رہی ہے۔ ان کی نمائندگی تقریباً 25 سے 35 ارکان پارلیمنٹ کے درمیان رہی ہے۔ یعنی لوک سبھا میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح اوسطاً 5 فیصد رہی ہے جب کہ مسلمانوں کی آبادی 16 فیصد ہے۔ موجودہ مرحلے (2002 سے اب تک) میں مسلمانوں کی نمائندگی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کا اوسط 28 ہے، جو کہ 74 سے بہت کم ہے۔اعداد و شمار یہ واضح کرتے ہیں کہ انتخابی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کا فقدان حالیہ بحران نہیں ہے۔ یہ جمہوریہ ہند کی پیدائش کے بعد سے ہی غالب ہے۔ بی جے پی کے حالیہ انتخابی عروج نے صرف اس رجحان کو بڑھاوا دیا ہے اور مسلمانوں کو سیاسی پسماندگی کی طرف مزید دھکیل دیا ہے۔ ماہر سیاسیات کرسٹوف جیفریلوٹ نے اپنی کتاب (Majoritrain state : How Hindu Nationalism is changing Indai) ’’اکثریتی ریاست: ہندو قوم پرستی ہندوستان کو کیسے بدل رہی ہے‘‘ میں بھارت کی سیاست میں مسلمانوں کی غیر موجودگی سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب بھی بی جے پی کسی نئی ریاست کو فتح کرتی ہے، مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد میں کمی آتی ہے۔ سب سے واضح مثال اتر پردیش میں ملتی ہے ۔2012 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ممبران اسمبلی کی شرح 17 فیصد تھی مگر 2017 جس میں بی جے پی نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اس میں مسلم ممبران کی شرح 6 فیصد تک نیچے گر گئی ۔
سیاسی اقتدار سے مسلمان غائب کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ کیا اس کی واحد وجہ فرقہ پرستی کا عروج اور ہندتو کے نام پر ہندو ووٹوں کی لام بندی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہندو اکثریت پسندی کے رجحان میں تقویت اور سیاسی میدان میں مسلمانوں کی سکڑتی ہوئی نمائندگی سے براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی میں کمی کی یہ واحد وجہ نہیں ہے۔ ایک بڑی وجہ برطانوی بھارت سے وراثت میں ملنے والا سیاسی نظام بھی ہے۔ جہاں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب ہوجاتا ہے۔پرنائے رائے اور دوراب سوپاری والا نے اپنی کتاب’’ دی ورڈکٹ‘‘ میں فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ووٹنگ First-past-the-post voting syestem کو اقلیتوں کے لیے ایک دو دھاری تلوار قرار دیا ہے۔ کیوں کہ اس نظام سے ایک علاقے میں مرتکز کمیونیٹی کو زیادہ سے زیادہ سے فائدہ ملتا ہے۔ اس کے برعکس، فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ کا نظام اقلیتی برادریوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔کیوں کہ اقلیت بالخصوص مسلمانوں کی آبادی ایک علاقے میں مرتکز نہیں ہے۔ پورے ملک میں زیادہ یکساں طور پر منتشر ہیں۔اس لیے اپنے نمائندوں کو کامیاب کرانے میں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں صرف 50 پارلیمانی حلقے ایسے ہیں جہاں رائے دہندگان میں مسلمانوں کا حصہ 30 فیصد سے زائد ہے۔ اس کے باوجود ان میں سے زیادہ تر سیٹوں پر ہندو امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں ۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مسلم ووٹ سیکولر پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ بی جے پی اور اس کے حلیف جماعتوں کو ہوتا ہے۔مالدہ شمال مغربی بنگال کا ایک پارلیمانی حلقہ ہے، جہاں مسلم ووٹروں کی شرح 49 فیصد کے قریب ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے ایک اعلیٰ سطح پر فرقہ وارانہ پولرائزنگ مہم چلائی اور مالدہ شمال میں صرف 37.59 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوگئی۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ مسلم ووٹ تین جماعتوں کے امیدواروں کانگریس کے عیسیٰ خان چودھری، ترنمول کانگریس کی موسم نور اور سی پی آئی ایم کے بسوناتھ گھوش کے درمیان تقسیم ہو گئے تھے۔ ایسا ہی معاملہ بنگال کی اور پارلیمانی نشست رائے گنج کا بھی ہے۔ یہاں مسلم رائے دہندگان جملہ ووٹروں کا تقریباً 50 فیصد ہیں۔ بی جے پی کے حق میں ہندو ووٹوں کے اکٹھے ہونے اور مسلم ووٹ تین سیکولر پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہونے کی وجہ سے بی جے پی نے 40 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مسلمان ریاست کی آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود 2019 میں ریاست مغربی بنگال میں بی جے پی کے عروج کے نتیجے میں، ریاست سے مسلم ارکان پارلیمنٹ کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا کی ریاست کی 42 نشستوں میں سے 2014 میں صرف آٹھ مسلمان منتخب ہوئے تھے۔ 2019 میں یہ تعداد کم ہو کر چار رہ گئی۔ اس مرتبہ مغربی بنگال کی حکم راں جماعت ترنمول کانگریس نے صرف 6 مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں جب کہ مالدہ شمال، رائے گنج جہاں مسلم ووٹوں کی تعداد 45 فیصد سے زائد ہے، وہاں سے غیر مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ مسلم نمائندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں، یہاں تک کہ سیکولر جماعتیں، اپنے زیر اثر علاقوں میں اپنی آبادی کے مطابق مسلم امیدوار نہیں اتارتی ہیں اور نہ ہی مسلم ووٹ کسی ایک پارٹی کو جاتے ہیں۔ زیادہ مسلم ارتکاز والی ریاستوں میں سرگرم سیکولر جماعتیں ان حلقوں میں مضبوط امیدوار کھڑے کرتی ہیں جن میں مسلم آبادی زیادہ ہوتی ہے اور اپنے حق میں ووٹوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ بالآخر مسلم ووٹوں کی تقسیم کا باعث بنتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلم امیدواروں کی شکست ہوتی ہے۔ان رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے سابق سفارت کار سے سیاست دان بننے والے سید شہاب الدین مرحوم نے 2004 کے عام انتخابات کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والی قومی اور علاقائی جماعتیں عام طور پر اپنے غیر مسلم بیس ووٹوں کو کسی مسلم امیدوار کو منتقل کرنے کی اہلیت پر اعتماد نہیں رکھتی ہیں۔ یہ سیکولر زاویہ سے ہمارے انتخابی نظام کی بنیادی کم زوری ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا کہ کس طرح 2004 میں 36 میں سے 28 مسلم ایم پی مسلم اکثریتی حلقوں سے منتخب ہوئے تھے۔
مسلم نمائندگی کی ضرورت کیوں ہے؟
یہ سوال کافی اہم ہے کہ آخر مسلم نمائندگی کی ضرورت کیوں ہے؟ کیا مسلم نمائندگی میں کمی مسلمانوں کی اقتصادی، معاشرتی اور تعلیمی پس ماندگی کی وجہ سے ہے یا پھر نمائندگی میں اضافے سے اقتصادی، تعلیمی اور معاشرتی پس ماندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کی پس ماندگی کے خاتمے میں سیاسی نمائندگی میں اضافے پر زور دیا گیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرف سے منتخب ہونے والے مسلم نمائندگان کی پارلیمنٹ میں کارکردگی کیا ہے؟ کیا ان مسلم ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کے ایشوز اٹھائے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ اگر مسلم نمائندگان اگر پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی سیکیورٹی، تعلیم اور معاشی مسائل کو نہیں اٹھائیں گے تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر عبدالرحمن اپنی کتاب Absent in Politics and power political Exclusion on indian Muslim میں صفحہ نمبر 269 میں مسلم قانوں سازوں کی کی کارکردگی کے عنوان سے تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اسدالدین اویسی کے علاوہ زیادہ تر مسلم ممبران پارلیمنٹ نے مسلمانوں کی سیکیورٹی، تعلیم ،صحت اور معاشی مسائل پر خاموشی اختیار کی ہے۔انہوں نے اشوکا یونیورسٹی میں ترویدی سنٹر فار پولیٹکل ڈاٹا کے ایک ریسرچ جسے سالونی بوگھلے نے ترتیب دیا ہے کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1999 سے 2017 کے درمیان مسلمانوں کے مسائل کے حوالے سے کل 1,875 سوالات پوچھے گئے جس میں صرف 22 سوالات مسلم ممبران پارلیمنٹ نے پوچھے ہیں۔ انہوں نے دو اہم واقعات کا حوالہ دیا ہے۔ ایک طلاق ثلاثہ پر پارلیمنٹ میں بحث میں مسلم ممبران کی شمولیت سے متعلق لکھا ہے کہ کل 23 مسلم ممبران پارلیمنٹ میں سے صرف دو ممبران نے اس میں حصہ لیا۔ حیرت انگیز طور پر مشہور عالم دین مولانا اسرارالحق قاسمی جو کشن گنج سے کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے انہوں نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی قیادت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ترنمول کانگریس کے تمام مسلم ممبران پارلیمنٹ نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا۔ اسی طرح انہوں نے اتر پردیش کے مظفر نگر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد اتر پردیش اسمبلی میں بحث کے دوران مسلم ممبران پارلیمنٹ کی خاموشی کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ممبر اپنے حلقے کے تمام عوام کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ کسی ایک مذہب کا نمائندہ نہیں ہوتا ہے، مگر مسلم ممبران پارلیمنٹ سے عمومی طور پر یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی محرومی سے متعلق سوالات اٹھائیں گے کیوں کہ انہیں اس کا زیادہ علم ہوتا ہے۔ تاہم اس نکتے پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر سیاسی جماعتوں کے مسلم نمائندے اس معاملے میں ناکام کیوں ہیں۔
جہاں تک سوال مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافے کی ضرورت سے متعلق ہے، تو مسلم دانش وروں کے ایک بڑے حلقے کی یہ رائے ہے کہ اکثریت نوازی اور اقلیت کشی کے اس دور میں کسی بھی سیٹ سے مسلم امیدواروں کی کامیابی بہت ہی مشکل ہے، یہاں تک کہ ان حلقوں میں جہاں مسلم ووٹ 40 فیصد سے زائد ہیں وہاں بھی مسلم امیدواروں کی کامیابی غیر یقینی ہے۔ چناں چہ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں مغربی بنگال کے شمال مالدہ، رائے گنج کی ایسی سیٹیں ہیں جہاں مسلم ووٹ کی شرح 49 سے 50 فیصد ہے لیکن اس کے باوجود بی جے پی کامیاب ہو گئی۔ جب مسلم امیدوار ایسی سیٹوں پر کامیابی درج نہیں کر پا رہے ہیں جہاں وہ 50 فیصد ہیں تو پھر جہاں 30 اور 25 فیصد ہیں وہاں کامیابی کیسے ملی گی؟ اس طبقے کی رائے ہے کہ مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں کسی بھی جماعت کا مہرہ بننے کے بجائے اپنی توجہ تعلیم اور اقتصادیات کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد اس طرح کے خیالات کی تائید میں ماضی کے رویے اور تاریخی حوالوں سے کہتے ہیں ’’آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد کے اتر پردیش کی سیاست کا جائزہ لینے پر اور معروف امریکی ماہرین سیاست، تھیوڈور پی رائٹ جونئر (1926سے 2021) پال آر براس (1936 سے 2022) ہیری ڈبلیو بلئر وغیرہ کی تحقیقات سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ جمہوری نظام میں اقلیتی شناخت والی آبادی کے جائز ترین مفادات سیاسی نمائندگی میں اضافہ کرنے سے حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ اگر سیاست اقلیت سوز اور اکثریت پرست خطوط پر چل نکلے، تب تو سیاسی نمائندگی میں اضافے کی مہم مزید مشکلات کھڑی کرسکتی ہے۔ 2014ء کے بعد حالات مزید مشکل اور ابتر ہو گئے ہیں۔ مسلم مخالف نفرت کی سیاست کو روز افزوں تقویت مل رہی ہے۔ ایسے میں سیاسی نمائندگی اور تناسب میں اضافے کا ایجنڈا مزید کم زور ہو جاتا ہے۔ ایسے مشکل اور نامساعد حالات میں کچھ صبر آزما تدبر، مصلحت پسندی، عملیت پسندی کی ضرورت ہے۔ محض تجربہ کے طور پر کمیونیٹی کیپیسیٹی بلڈنگ والے اقدام کو ترجیح دی جائے اور انتخابی سیاست سے ایک مدبرانہ اور محتاط رشتہ قائم کیا جائے، یعنی ایک یا دو انتخابات میں اپنی شرکت کو کم سے کم دکھانے کی کوشش کی جائے۔ خاموشی سے ووٹ ڈال کر آئیں، لیکن کسی مخصوص پارٹی سے منسلک ہونے کے اظہار سے پرہیز کیا جائے۔ بہ الفاظ دیگر، ہندوؤں کے غیر فرقہ پرست لبرل اور لفٹ اپنی قوم کے فرقہ پرست طاقتوں سے مزاحمت کریں۔ مسلمانوں کی حمایت خاموش ووٹر کی حیثیت ہی سے رہے۔ اور انتخابی سیاست سے اس محتاط شرکت یا علیحدگی (محض تجربہ کے طور پر) کے ساتھ ساتھ کیپیسیٹی بلڈنگ (تعلیمی، تجارتی) ترجیحات پر مرکوز کریں۔ رہائشی اسکولوں کے قیام کی جانب توجہ دیں اور سیاسی پارٹیوں کو موٹی رقم دے کر ٹکٹ حاصل کرکے اور مزید موٹی رقم خرچ کرکے الیکشن لڑنے کے بجائے، ایسے تمام وسائل کو اسکول و ہسپتال قائم کرنے اور تجارتوں کو فروغ دینے کی جانب لگا دیں۔ یقیناً کچھ نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم امیدوار رہیں گے (یعنی مکمل بائیکاٹ کی تجویز قطعی نہیں ہے، اور ووٹ تو بہر حال ڈالنے ہیں۔ بس ریلیوں کی بھیڑ کا حصہ نہیں بننا ہے) کیوں کہ اکثریت پرستی کی شدت عروج پر ہو تو اقلیت کی آبادی کسی نشست پر 49 فی صد بھی ہوگی تب بھی الیکشن میں شکست ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم والی انتخابی سیاست میں یہی مسئلہ ہے۔
تاہم ایک دوسرے بڑے حلقے کی رائے ہے کہ انتخابی سیاست سے بے توجہی اور کنارہ کشی ’’سیاسی خود کشی‘‘ کے مترادف ہوگی۔اس ملک کے شہری کی حیثیت سے مسلمانوں کی بھی وہی ذمہ داریاں ہیں جو ملک کے دوسرے طبقات کی ہیں۔ ملک کو اقتصادی، سماجی اور تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن اور ہمہ جہت ترقی کی راہیں نکالنے میں اگر مسلمانوں نے حصہ ادا نہیں کیا تو مسلمان عضو معطل ہو کر رہ جائیں گے۔ اس حلقے کی رائے ہے کہ ہندتو طاقتوں کے ایجنڈے میں مسلم ووٹ کو غیر اہم بنانا اور مستقبل میں مسلمانوں سے حق رائے دہی سے محروم کرنا شامل ہے، جس کا وہ بسا اوقات برملا اظہار کرتے ہیں۔
اگر سیاست میں شمولیت لازمی ہے تو پھر مسلمانوں کو کن ایشوز پر توجہ دینی چاہیے؟ عام سیاسی ایشوز پر مسلم لیڈر آواز کیوں نہیں بلند کرتے ہیں یا پھر ان ایشوز پر مسلم قیادت کی آواز کو اہمیت کیوں نہیں دی جاتی ہے اور مسلم سیاسی قیادت کی گفتگو کا محور کیا ہونا چاہیے؟ اگر سیاست میں نمائندگی اہمیت کی حامل ہے تو پھر ایک ایسے وقت میں جب ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہندتو کے ایجنڈ ے پر ملک کی اکثریت کو پولرائز کر رہی ہے تو پھر نمائندگی میں اضافہ اور سیکیولر سیاسی جماعتوں کی کامیابی کو یقینی بنانے کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کو ناکام بنانے کے لیے مسلمانوں کو کن خطوط پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ فرقہ واریت کے نام پر مسلمانوں کی آواز کو خاموش کرنے کی بھی کوششیں ہو رہی ہیں۔ فرقہ واریت کا خوف دلا کر سیکولر سیاسی جماعتیں مسلم ایشوز پر بولنے سے گریز کرنے لگی ہیں۔ کیا مسلمانوں کو بھی اس معاملے میں سر تسلیم خم کرلینا چاہیے؟ ان سوالوں کو ہم آئندہ کے لیے چھوڑتے ہیں اور ان کے جواب ہم ماہرین اور سیاسی اور ملی قیادت کی رائے کے حوالے سے دینے کی کوشش کریں گے تاکہ اگلے مہینے سے شروع ہونے والے انتخابات میں ہم مسلمانوں کے سامنے واضح تصویر پیش کرسکیں۔ قومی انتخابات کسی بھی ملک کے لیے صرف اقتدار کی تبدیلی کا ذریعہ نہیں ہوتے بلکہ ان کے نتائج ملک کی داخلی و خارجی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے اس ملک کی ایک بڑی آبادی ہونے کے ناطے مسلمان اس پورے معاملے سے لا تعلق نہیں رہ سکتے ہیں لہٰذا انہیں اس معاملے میں جذباتیت سے اوپر اٹھ کر غور و فکر کے ساتھ حکمت عملی طے کرنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 مارچ تا 06 اپریل 2024