سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے قانون پی ایم ایل اے کے تحت گرفتاری اور جائیداد ضبط کرنے کے ای ڈی کے اختیارات کو برقرار رکھا

نئی دہلی، جولائی 27: سپریم کورٹ نے بدھ کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے قانون کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے ملزمین کو گرفتار کرنے اور جائیدادوں کو ضبط کرنے کے اختیار کو برقرار رکھا اور اس نے اس قانون کی دفعات کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کو خارج کردیا۔

جسٹس اے ایم کھانولکر، دنیش مہیشوری اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے قانون کی مختلف دفعات کے جواز کو چیلنج کرنے والی 241 عرضیوں کے بیچ پر یہ حکم دیا۔

اپنے حکم میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کا سیکشن 45 آئینی ہے اور غیر معقول نہیں۔ یہ شق اس قانون کے تحت آنے والے جرائم کو قابل سماعت اور ناقابل ضمانت بناتی ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی جاتی ہے تو عدالت کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ ملزم مجرم نہیں ہے اور رہائی کے بعد کوئی جرم نہیں کرے گا۔

ججوں نے اس قانون کے سیکشن 24 کو بھی برقرار رکھا جس میں کہا گیا ہے کہ ملزم خود اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ ’’مجرم ثابت ہونے تک بے گناہ‘‘ کے قائم کردہ فوجداری قانون کے اصول کے خلاف ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ منی لانڈرنگ کے معاملات میں انفورسمنٹ کیس انفارمیشن رپورٹ یا ECIR کو دوسرے جرائم میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کے برابر نہیں کیا جا سکتا۔ ججوں نے کہا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ ملزم کو ای سی آئی آر فراہم کرے، صرف گرفتاری کی وجوہات کا انکشاف کرنا کافی ہے۔

عدالت نے اس قانون کے سیکشن 3 کو بھی برقرار رکھا جو منی لانڈرنگ کی تعریف کرتا ہے۔

2019 کی ایک ترمیم میں منی لانڈرنگ کی تعریف کے اندر آنے والے جرائم سے حاصل ہونے والی آمدنی کو شامل کرنے کے لیے قانون کی دفعات کو تبدیل کر دیا گیا تھا۔

دریں اثنا عدالت نے 2019 میں ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔

عرضی گزاروں نے عرض کیا تھا کہ ترامیم منی بلز کے ذریعے لائی گئی ہیں جنھیں صرف لوک سبھا میں پاس کرنے کی ضرورت ہے، راجیہ سبھا میں نہیں۔ درخواست گزاروں نے استدلال کیا تھا کہ یہ تبدیلیاں غلط ہیں کیوں کہ یہ قانون منی بلز کے دائرہ کار سے باہر ہے، جس کا مقصد سرکاری محصولات اور اخراجات سے متعلق معاملات سے نمٹنا ہے۔

منگل کی سماعت میں عدالت نے کہا کہ اس کا فیصلہ سات ججوں کی بنچ کو کرنے کی ضرورت ہے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق کانگریس کے رکن پارلیمنٹ کارتی چدمبرم سمیت درخواست گزاروں نے الزام لگایا تھا کہ یہ قانون آئین کی دفعہ 20 اور دفعہ 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

انھوں نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو دی گئی بے لگام طاقت اور کسی بھی جرم کو منی لانڈرنگ کے جرم میں تبدیل کرنے کے قانون کے دائرۂ کار کو بھی چیلنج کیا تھا۔

عدالت نے 27 اکتوبر کو درخواستوں کی سماعت شروع کی تھی اور 15 مارچ کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے سامنے اس قانون کے بارے میں کئی سوالات اٹھائے گئے۔

اپنے دفاع میں مرکزی حکومت نے دلیل دی تھی کہ یہ قانون، اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق منی لانڈرنگ کے خلاف لڑنے کے ہندوستان کے عزم کو آگے بڑھاتا ہے۔