جنوبی ہند

اڈپی:طالبات کو حجاب کی اجازت نہیں یا حجاب یونیفارم میں شامل نہیں؟

سید احمد سالک ندوی

کالج انتظامیہ کلاس میں حجاب کی اجازت نہ دینے اور طالبات پہننے پر مُصر
مسئلہ میڈیا کے ذریعہ اچھالے جانے سے شدت پسند عناصر کا فائدہ یقینی۔ نوجوان ملی قیادت کی حکمت کو سمجھیں
ریاست کرناٹک کی ساحلی پٹی پر واقع ضلع اڈپی کا ایک سرکاری ویمنس کالج پچھلے کچھ ہفتوں سے مسلسل سرخیوں میں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وہاں مسلم طالبات کو حجاب پہننے کا مسئلہ در پیش ہے اور کئی دنوں سے وہاں کی کچھ طالبات احتجاج پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں حجاب کے ساتھ کلاس میں داخلے کی اجازت نہیں مل رہی ہے اس لیے ان کی پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے۔ ابھی تک عموما اس واقعہ کا یہی ایک رخ سامنے آیا ہے مگر جب ہم نے اس واقعہ کی تہہ تک جانے کی کوشش کی تو کچھ اور باتیں بھی سامنے آئیں۔
اصل واقعہ کیا ہے؟
اس مسئلہ پر گورنمنٹ کالج میں گزشتہ تین ہفتوں سے یہ مسئلہ گرمایا ہوا ہے۔ اس مسئلہ پر ایک طرف کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ برقعہ یا حجاب کے ساتھ کلاس روم میں حاضری کی اجازت نہیں دے سکتے تو دوسری طرف کچھ طالبات کا اصرار ہے کہ انہیں دستور ہند کے تحت اپنی پسند کے لباس کا حق دیا جائے ۔
کالج انتظامیہ دلیل دیتا ہے
اس سلسلے میں جب کالج کی انتظامیہ کے موقف کو جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ کالج میں برقع یا حجاب کے ساتھ کلاس روم میں حاضر ہونے کی اجازت تو ہے لیکن دوران تدریس طالبات کو اپنا حجاب اتار کر پڑھنا چاہیے۔ کالج انتظامیہ سوال کرتا ہے کہ بیس سال سے کالج میں کسی کو کوئی مسئلہ در پیش نہیں ہوا اور کالج میں لیکچررز بھی زیادہ تر خواتین ہی ہیں تو ان لڑکیوں کو کلاس میں پڑھائی کے دوران حجاب اتار کر رکھ دینے میں آج کیا دشواری پیش آ رہی ہے؟ اور جو لڑکیاں اس وقت احتجاج کر رہی ہیں وہ بھی اب تک بغیر حجاب کے پڑھتی رہی ہیں مگر ان کو اچانک اپنا آئینی اور دستوری حق کیوں یاد آگیا جو یہ حجاب پر اصرار کررہی ہیں؟
حالانکہ طالبات نے داخلے کے وقت یہ ساری شرائط قبول کی تھیں لیکن اچانک ان کے خیالات میں تبدیلی سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کو کہیں سیاسی فائدہ کے لیے تو استعمال نہیں کیا جا رہا ہے؟
چونکہ اڈپی ہندو مسلم فرقہ وارانہ ماحول کے اعتبار سے ریاست کرناٹک کا ایک انتہائی حساس علاقہ ہے اس لیے یہاں کسی ایشو کو مذہبی رنگ دینے سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید الجھنے کے اندیشے زیادہ رہتے ہیں۔
فریق ثالث کوشاں ہے
مسئلہ کی اور علاقائی صورتحال کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے ملی تنظیموں اور جماعتوں کے وفاق ’اڈپی مسلم اوکوٹا‘ نے بھی معاملے کو حل کرنے کی طرف پہل کی ہے۔ اڈپی مسلم اوکوٹا سے وابستہ ایک ذمہ دار عبدالعزیز نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ کالج کی ان طالبات کو جنہیں کلاس سے باہر کیا گیا ہے ان کے ساتھ، ان کے سرپرستوں اور کالج انتظامیہ کے ساتھ مسلم اوکوٹا نے بات چیت کی اور معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے طالبات کے سامنے مسئلہ کو پر امن طریقہ سے حل کرنے کے تین متبادل رکھے لیکن طالبات نے ان میں سے کسی ایک کو بھی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ پہلا یہ کہ وہ کالج پرنسپل سے بات کر کے کلاس میں اسکارف پہننے کی اجازت حاصل کریں گے۔( بعد میں معلوم ہوا کہ پرنسپل نے اس کی اجازت بھی نہیں دی) دوسرا یہ کہ جب کلاس میں مرد حضرات پڑھانے کے لیے آئیں تو طالبات کو نقاب پہننے کی اجازت دی جائے۔ تیسرا یہ کہ اگر کالج انتظامیہ اس میں سے کسی بھی بات کو قبول نہ کرے تو پھر قانونی طریقہ سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن طالبات حجاب کے مطالبے پر ڈٹی رہیں اور کسی بھی آپشن پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا، حالانکہ طالبات کے سرپرستوں کو یہ تمام متبادل قبول تھے اور کچھ طالبات ان آرا کو قبول کرنے کے حق میں بھی تھیں لیکن انمیں سے بعض حجاب پہننے کے اپنے مطالبے پر بضد تھی۔
اڈپی مسلم اوکوٹا کا موقف
اڈپی مسلم اوکوٹا کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک مقامی مسئلہ ہے اور اسے ڈائیلاگ کے ذریعہ ہی سلجھانا چاہیے۔ میڈیا میں اسے جس طریقہ سے اچھالا گیا ہے اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مزید پیچیدہ ہی ہوگا۔ حالانکہ مسلم اوکوٹا میں شامل بعض تنظیمیںکسی طرح بھی مذکورہ نکات پر راضی نہیں ہیں اور دستوری حق کا حوالہ دے کر احتجاج کے ذریعے سے مسئلہ کو سلجھانا چاہتی ہیں۔ اگر چہ کہ احتجاج ان کا حق ہے لیکن جب بات بنتی دکھائی نہ دے تو پھر صلح کا راستہ اپناناچاہیے۔
این ایس یو آئی کا پیٹیشن فائل کرنے کا منصوبہ
نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) نے رپورٹ لکھے جانے تک اس معاملے میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے پرنسپال کے خلاف ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کرنے کا انتباہ دیا ہے۔ این ایس یو آئی کے ریاستی سکریٹری ستابش شیوّنا نے کہا کہ این ایس یو آئی اس معاملے کو لے کر ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے کیونکہ حجاب پہن کر کلاسس میں حاضر ہونا ان کا بنیادی حق ہے جس کو چھینا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’لڑکیوں کا احتجاج جائز ہے اور ہم ان کو اپنا بھرپور تعاون دیں گے‘‘۔
پریشانی کہاں ہے؟
کالج انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ اگر کالج ان کے مطالبات کو مان کر انہیں حجاب کی اجازت دی جائےتو فوراً ہی بھگوا تنظیمیں بھگوا شال کے ساتھ کالج میں آنے کی اجازت کا مطالبہ کرسکتی ہیں، اگر کالج انتظامیہ اجازت نہ دے تو دونوں طبقوں کے درمیان خلیج بڑھے گی اور کشیدگی پیدا ہو گی جس کے بعد دونوں طرف کے سخت گیر موقف رکھنے والے لوگ راست طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اس پریشانی اور خطرات کو نظر میں رکھ کر کالج انتظامیہ کوئی جوکھم مول لینا نہیں چاہتا۔
یہ بھی حقیقت ہے
واقف کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال اڈپی میں غیر مسلموں کے جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں جہاں مسلم لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں انہیں کہیں بھی حجاب کو لے کر پریشانی نہیں ہے، صرف ایک سرکاری ویمنس کالج ہے جہاں زیادہ تر خواتین ہی پڑھاتی ہیں، وہاں دوران تدریس حجاب سے چہرہ ڈھانکنے پر پابندی ہے۔ کالج انتظامیہ اس سلسلے میں یہ بھی دلیل دیتا ہے کہ یونیفارم میں حجاب داخل نہیں ہے اس لیے بھی انہیں حجاب کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ کل ملا کرخطرہ یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا اور اس ایشو کو مزید گرمایا گیا تو صرف ضلع اڈپی ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں اسے زبردستی لاگو کیا جا سکتا ہے، ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اسے آسانی سے ایسے جذباتی مسائل سے کھیلنےکا ہنر آتا ہے ۔ اس لیے حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ نوجوانوں کے ان دھڑوں کو جذباتیت کی بجائے مقامی ملی قیادت کو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اٹھانا چاہیے۔ اس طرح انفرادی سوچ کو سماج میں تھوپنے کی ضد سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک قدم آگے بڑھانے کی کوشش میں ہم کئی قدم پیچھے ہوجائیں۔
***

 

***

 اڈپی میں غیر مسلموں کے جتنے بھی تعلیمی ادارے ہیں جہاں مسلم لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں انہیں کہیں بھی حجاب کو لے کر پریشانی نہیں ہے، صرف ایک سرکاری ویمنس کالج ہے جہاں زیادہ تر خواتین ہی پڑھاتی ہیں، وہاں دوران تدریس حجاب سے چہرہ ڈھانکنے پر پابندی ہے۔ کالج انتظامیہ اس سلسلے میں یہ بھی دلیل دیتا ہے کہ یونیفارم میں حجاب داخل نہیں ہے اس لیے بھی انہیں حجاب کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ کل ملا کرخطرہ یہ ہے کہ اگر اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا اور اس ایشو کو مزید گرمایا گیا تو صرف ضلع اڈپی ہی نہیں بلکہ پوری ریاست میں اسے زبردستی لاگو کیا جا سکتا ہے، ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اسے آسانی سے ایسے جذباتی مسائل سے کھلینے کا ہنر آتا ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022