سیاسی پارٹیوں میں برہمنوں کیخلاف اٹھتے سوالات
کانگریس ، بی جے پی اور بائیں بازو کی پارٹیاں برہمنیت کے شکنجے میں
نہال صغیر، ممبئی
بلقیس بانو کے مجرمین کو عمر قید سے رہائی دیے جانے کے بعد جہاں ایک جانب ملک میں خواتین کے حقوق اور ایک نظریہ فکر کی سطحیت پر گفتگو ہورہی ہے تو دوسری جانب برہمنوں کے تعلق سے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں ۔ بی جے پی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اپنی روسیاہی پر ان کا کوئی اعلیٰ رہنما بیان نہیں دیتا بلکہ کچھ پیادوں کو آگے کردیا جاتا ہے کہ وہ ہندوتوا کا دفاع کریں ۔ چنانچہ بلقیس بانو کے گیارہ مجرمین کے تعلق سے جب یہ سامنے آیا یہ سب برہمن ہیں تو گودھرا سے بی جے پی کے ایم ایل اے نے بیان دیا’’وہ گیارہ افراد برہمن اور مہذب ہیں‘‘۔ بی جے پی کے مذکورہ ایم ایل اے رائول جی نے کہا کہ انہوں نے پتہ نہیں جرم کیا یا نہیں ، ہوسکتا ہے کہ کسی انہیں پھنسانے کے مقصد سے ان پر جھوٹے الزام عائد کیے ہوں ۔
دوسری جانب مدھیہ پردیش میں گوالیار حلقہ کے بی جے پی رہنما پریتم سنگھ لودھی نے برہمنوں کی اصلیت بیان کرتے ہوئے کہا ’’یہ برہمن لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور خواتین پر گندی نظر رکھتے ہیں ، یہاں آکر کچھ برہمن بھاگوت کے نام پر پیسے کی اگائی کرتے ہیں ۔ لوگوں کو ورغلا کرپاگل بناتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں آکر خواتین گھروں سے گھی ، گیہوں اور چاول چرا کر ان کے قدموں میں رکھتی ہیں ، اسے اپنے بچوں کو دینے کی بجائے برہمن دیوتا کو دیا جاتا ہے‘‘۔اسی سے ملتا جلتا بیان بالو دھانوکر یا سریش ناراین دھانورکر نے آزادی گورو یاترا میں دیا ۔ انہوں نے کہا کہ’’برہمن مزے کررہے ہیں اور بہوجن پریشان ہیں ، پھڈنویس نے بدعنوانوں کو کلین چٹ دے رکھی ہے ، اب ہر کسی کو برہمن ہی پیدا ہونا چاہئے‘‘۔ دھانورکر پر ایف آئی آر بھی درج ہوا ہے ۔ یہ چندر پور حلقہ انتخاب سے کانگریس کے لوک سبھا کے لیے ایم پی ہیں ۔
ملک میں عدم مساوات پر مبنی نظام ہزاروں سال پرانا ہے ۔ ہمارے یہاں کے ہندو شدت پسند ہوں یا سیکولر پارٹیوں کے لیڈر وہ جس ہزاروں سال پرانی سنسکرتی پر ناز کرتے ہیں وہ یہی تہذیب ہے ۔ یہاں برہمن خود کو سب سے برتر اور عظمت والا سمجھتے ہی نہیں ویسا ہی عمل بھی کرتے ہیں ۔ آزادی کے امرت کال میں بھی زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے پچاسی فیصد آبادی محروم ہے اور پندرہ فیصد اونچی ذات کے لوگ ملکی وسائل پر قابض ہیں ۔
برہمنوں کے خلاف باتیں پہلے تو صرف پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں ہی کرتی تھیں لیکن شاید پہلی بار ہے کہ دو سیاسی پارٹیوں سے جہاں برہمنیت کا غلبہ ہے وہاں سے بھی ان کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں اور سوالات اٹھائے جانے لگے جو ایک اچھی علامت ہے ۔ حالانکہ دلت تنظیموں کا رویہ پوری طرح درست نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں سارے برہمن ایک جیسے ہیں ، جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ کوئی قوم ایک جیسا رویہ رکھنے والی ہو ۔ برہمنوں میں بھی ٹھیک اسی طرح چند اچھے اور سمجھدار لوگ ہیں جس طرح یہودیوں میں چند حق پسند جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے کہ ان میں بہت تھوڑے سے ہی حق قبول کرنے والے لوگ ہے ۔
اگر گجرات بی جے پی کے گودھرا سے ایم ایل اے نے بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی پر ان گیارہ مجرمین کی توصیف نہیں کی ہوتی تو شاید یہ دو ردعمل سامنے نہیں آتے ۔یا اسے دلت تنظیموں و اسکالر کی جانب سے مسلسل چلائی جارہی تحریک کا اثر بھی کہہ سکتے ہیں ۔ مدھیہ پردیش بی جے کے گوالیار کے لیڈر کے برہمنوں کیخلاف بیان پر تو صرف اعتراضات ہوئے ہیں جن میں کانگریس بھی شامل ہے مگر کسی جانب سے کسی ایف آئی آر کی اطلاع نہیں ہے مگر کانگریس کے چندر پور سے ایم پی دھانورکر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ۔ یعنی بی جے پی کانگریس کو برہمن مخالف بتانے کی کوشش کرے گی ۔لیکن کانگریس نے مدھیہ پردیش میں برہمنوں کیخلاف بیان پر اعتراض کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ برہمن مخالف نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس ، بی جے پی اور بائیں بازو کی پارٹیاں سبھی برہمنیت کے شکنجے میں ہیں ۔ میرے ایک فیس بک کے ساتھی وجے سنگھ نے چار سال قبل جب سیتا رام یچوری نے اٹل بہاری واجپائی کے اصولوں کی اہمیت بتائی تھی اس دن اس نے ہندی میں ایک لفظ استعمال کیا تھا’’وام سنگھی‘‘ یعنی بائیں بازو کے سنگھی ۔ اس کا ایک بنیادی ثبوت تو یہ ہے کہ مغربی بنگال میں تقریبا پینتیس سال تک بائیں محاذ کی حکومت رہی لیکن وہاں مسلمانوں کی حالت زار خود سچر کمیٹی نے پیش کی ۔اسی طرح ساورکر کے ہندو نیشنلزم کی طرف آئیں تو وہ خود ایک دہریہ تھا اور گوشت خور بھی لیکن سنگھ کے نظریہ سازوں میں شمار ہوتا ہے ۔
برہمنوں میں پائی جانے والی متکبرانہ سوچ اور ان کے اندروں پائی جانے والی خامیاں کئی جگہ نظر آتی ہیں ۔ منموہن حکومت کے وزیر خارجہ شری کرشنا نے اسرائیل دورہ پر کہا تھا کہ اسرائیل ان کا فطری شراکت دار ہے ۔ جب غور کریں گے تو کئی باتیں مزید کھل کر سامنے آئیں گی ۔ موجودہ دور میں اگرچہ مسلمان سب سے زیادہ ستائے جارہے ہیں مگر برہمنیت کی علمبردار حکومت جس نے وطن پرستی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے کے سائے میں سب سے زیادہ پسماندہ طبقات خاص طور سے دلت و آدیباسی ظلم و جبر کا شکار ہیں ۔ حد تو یہ کہ چھتیس گڑھ میں آدیباسیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے ایک شخص پر سپریم کورٹ پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا اور ان کے ذریعہ سارے الزامات کو من گھڑت قرار دے دیا ۔ امید ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے اندر سے برہمنوں کی منافرت پر مبنی فکر کیخلاف آواز اٹھنے کی وجہ سے دلت تنظیموں کی تحریک کو بھی عوامی مقبولیت ملے گی ۔ حالانکہ مین اسٹریم میڈیا جس پر برہمنیت کا غلبہ ہے اس تحریک کو کچلنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ۔ لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں حکومت کے ذریعہ کسی کی آواز کو دبا پانا ذرا مشکل ہی ہے ۔
دلتوں اور آدیباسیوں کے حقوق کے لیے نبرد آزما افراد یا تنظیموں کو شکایت بھی ہے کہ اُن میں ہماری تحریک کا اثر پوری طرح نہیں ہوپاتا ۔ اسے آپ ہزاروں سال کی غلامی میں ذہنیت کی تبدیلی کو سبب بتا سکتے ہیں ۔ شاہو کی زندگی پر لکھی ایک کتاب میں نے کئی جگہ دیکھی جب مہاتماشاہو نے دلتوں کے جلسہ عام میں یہ شکایت کی کہ تم بات سمجھتے نہیں ہو، برہمنوں کی غلامی نے تمہاری ذہنی حالت کو بگاڑ دیا ہے ۔ایک جگہ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر تمہارے لیے لڑرہے ہیں لیکن تم ہو کہ برہمنوں کی غلامی سے نکلنے پر راضی ہی نہیں ہو۔ میرا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ برہمنوں نے پسماندہ طبقات کو پوری طرح خود ساختہ مذہبی عقائد کے جال میں الجھا دیا ہے اور یہاں کی معیشت معاشرت اور سیاست پر پوری طرح قابض ہوگئے ہیں ۔ ایک برہمن ڈاکٹر جو میرے دوست ہیں ایک بار وہ پسماندہ طبقات کے چند نوجوانوں کو اسی طرح کی بے بنیاد باتیں سمجھا رہے تھے ۔ میں نے ان نوجوانوں سے کہا کہ کسی دن ڈاکٹر صاحب کے گھر جانا اور ڈھونڈنا کہ ان کے گھر میں کہاں مندر بنا ہوا ہے یا مورتیاں ہیں ، ہاں ان کے گھروں دفتروں میں کسی کی تصویریں ہوں گی تو وہ آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کی بڑی بڑی تصاویر۔یہی باتیں دلتوں کے دانشوروں کی جانب سے بتائی جاتی ہیں مگر شاید وسائل کی کمی کے سبب وہ اپنی باتیں پورے دلت طبقہ میں نہیں پہنچا پاتے اور دوسری جانب برہمنوں کے اقتدار اعلیٰ کے لیے وجود میں آنے والی تنظیم آر ایس ایس کے پاس بے پناہ وسائل ہیں جس سے وہ عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 28 اگست تا 3 ستمبر 2022