شرجیل امام کی تقریر نے تشدد کو ہوا نہیں دی، نہ ہی اس نے ہتھیار اٹھانے کی کال دی: الہ آباد ہائی کورٹ نے ضمانت دیتے ہوئے کہا

نئی دہلی، نومبر 30: الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے اپنے ضمانتی حکم نامے میں کہا کہ کارکن شرجیل امام نے جنوری 2019 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں تشدد یا ہتھیار اٹھانے کی کال نہیں دی۔

جسٹس سومِترا دیال سنگھ نے 27 نومبر کو حکم سنایا تھا، جس کی تفصیل پیر کو دستیاب ہوئی۔ جج نے امام کی ضمانت منظور کر لی۔

عدالت نے کہا ’’…درخواست گزار [امام] کے خلاف لگائے گئے درست الزام کا حوالہ دیے بغیر، یہ بات غیر متنازعہ طور پر قابل ذکر ہے کہ نہ تو درخواست گزار نے کسی کو ہتھیار اٹھانے کے لیے بلایا اور نہ ہی امام کی طرف سے کی گئی تقریر کے نتیجے میں کوئی تشدد ہوا تھا۔‘‘

تاہم ہائی کورٹ نے کہا کہ امام نے جو بالکل واضح بیانات دیے تھے اور ان کا کیا اثر تھا اس کی جانچ اس مقدمے کی سماعت کے وقت کی جا سکتی ہے، جو ابھی شروع ہونا ہے۔

جسٹس سنگھ نے مزید کہا کہ امام ایک سال اور دو ماہ سے زیادہ عرصے سے حراست میں ہیں، جب کہ اسے مجرم ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ سزا تین سال کی قید ہو سکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ صرف اسی وجہ سے درخواست گزار اس مرحلے پر کیس کے غیر متنازعہ حقائق میں ضمانت کا حق دار بن گیا ہے۔

عدالت نے امام کو 50,000 روپے کے ذاتی مچلکے کے ساتھ اتنی ہی رقم کی دو ضمانتیں بھی جمع کرانے کی ہدایت کی۔ کارکن کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ گواہوں کو ڈرانے یا ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہ کرے اور مقدمے میں تعاون کرے۔

تاہم شرجیل امام ابھی بھی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہے کیوں کہ اس پر دہلی فسادات کی سازش سے متعلق کیس اور جامعہ تشدد سے متعلق کیس میں بھی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔