شعرو ادب کے لیے جمہوری ماحول ضروری
موجودہ حالات میں اہل قلم کی ذمہ داریاں دو چند ۔آزادی کے امرت مہوتسو کے موقع پر شعرا اور ادبا اپنی کوششوں کا شعوری جائزہ لیں
ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی، بھٹکل
پندرہ اگست 1947 کو جب یہ ملک آزاد ہوا تو اس ملک کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے تمام شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک دستور کی ضرورت پیش آئی، چنانچہ 26 جنوری 1950 کو ملک میں باقاعدہ دستور نافذ العمل ہوا جس میں مساوات، انصاف، آزادی، جمہوریت اور سیکولرزم کے ساتھ شہریوں کے تمام حقوق وفرائض تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ایک تفصیلی تحریری اور ضخیم دستور ہے۔ جمہوریت ایک طرز حکومت کا نام ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں اور تولنے کا معیار اور کسوٹی بھی موجود ہے۔ اس دستور میں فرد کی آزادی کے ساتھ فکر و رائے اور اظہار خیال کی آزادی کو بھی نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ شعر وادب کی تخلیق کے لیے جمہوری ماحول اور اقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب جب کہ ہمارا ملک جمہوریت کی 75ویں سال گرہ منانے جا رہا ہے، اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں اور جائزہ لیں کہ ہم جمہوریت کی حقیقی منزل کی طرف کتنا آگے بڑھے ہیں، اس راہ میں ہم سے کیا کیا کوتاہیاں ہوئیں اور دستور ہند کے روشن صفحات کی جگمگاہٹ اور قومی آزادی کی تاب ناک تاریخ نے ہندوستانی سماج پرعملی اثرات کس حد تک ڈالے ہیں؟ موجودہ سیاسی وسماجی تناظر میں یہ تمام سوالات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس وقت ہم اپنی تاریخ کے ایک نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں خصوصاً گزشتہ چند برسوں سے جمہوریت بنام فسطائیت کی جو محاذ آرائی ہے اسے ہم کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پارلیمانی جمہوریت کے چاہے جو نقائص بھی بیان کیے جائیں، ان تمام کمیوں کے باوجود اس ملک کے جمہوری مزاج نے جس خوش اسلوبی سے اس نظام کو برتا اور اپنایا ہے، اس کے یقینا خوش گوار اثرات ہماری سیاسی وسماجی زندگی میں مرتب ہوئے ہیں۔ یقینا اس کی جڑیں اس سرزمین میں گہری ہیں مگر ہماری جمہوری سیاست کو ہمارے اجتماعی اخلاق واقدار سے ہم آہنگ ہونا ابھی باقی ہے۔ مبنی بر اقدار سیاست ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ سیاست واخلاق کے باہمی ربط تعلق کا معاملہ ہماری اجتماعی زندگی کا ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے جس کا حسین امتزاج ہمارے قومی شعار میں پایا جانا چاہیے۔
آج سے پون صدی پہلے جب ملک عزیز پر آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا تو ہمارے بزرگوں نے آزاد ہندستان کی تعمیر کا ایک خواب دیکھا، ایک نقشہ سوچا اور اس میں رنگ بھرنے کی کوششیں کیں۔ ملک کا نیا دستور مرتب ہوا اور ملک وقوم کو نیا سمت سفر عطا کیا گیا۔ ساتھ ہی سماج کے کم زور پس ماندہ طبقوں، اقلیتوں اور دبے کچلے انسانوں کو اوپر اٹھانے، آگے بڑھانے، ان کی تعلیمی ومعاشی پس ماندگی دور کرنے اور سماج میں ان کو باعزت مقام دلانے کا آئینی وقانونی حق عطا کیا گیا۔ اگر ہمارے دستور کے الفاظ وروح پر ایمان داری اور سچائی سے عمل کیا جائے تو آج بھی ہمارا ملک ہندستان جنت نشان بن سکتا ہے۔
عوام کی کردار سازی اور ملک کی تعمیر وترقی کے لیے جمہوریت کی اعلی قدریں بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اس کے بنیادی اقدار آزادی، مساوات اور اخوت ہیں۔ ملک میں تمام افراد کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ ایک اعلی جمہوری حکومت میں انسانی زندگی میں عدل کا قیام، سماج سے ظلم وجور کے خاتمے کے ساتھ ساتھ خیر اور بھلائی کا فروغ اور برائی اور ظلم وسرکشی کی سرکوبی جیسے بڑے مقاصد ایک اعلی جمہوری حکومت میں شامل ہیں۔ اس طرح ایک اچھی جمہوری فلاحی ریاست میں رہنے والے تمام انسانوں کے بنیادی حقوق مندجہ ذیل نکات پر مشتمل ہو سکتے ہیں:
1۔ فرد کی آزادی کا تحفظ۔ 2۔ جان و مال کا تحفظ اور عزت و آبرو کا تحفظ۔3۔ نجی زندگی اور حقوق ملکیت کا تحفظ ۔4۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کا حق۔ 5۔ آزادی اجتماع اور جماعت بنانے کا حق تاکہ معاشرے کی فلاح و بہبود کا منظم کام ہو سکے۔ 6۔ فکر و خیال اور عقیدے کی آزادی۔7۔ یہ حق کہ کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی ثبوت اور انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیرنہ ہوں۔ 8۔ مذہبی دل آزاری سے تحفظ کاحق۔ 9۔ یہ حق کہ حاجت مندوں کی ناگزیر ضروریات مہیا کی جائیں۔ 10۔ اور یہ حق کہ ریاست اپنی رعایا کے درمیان تفریق و امتیاز نہ کرے بلکہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرے۔
ایک حقیقی جمہوری حکومت کے یہی اعلی اقدار ہیں جس کے پس منظر میں ہماری جمہوریت کو پروان چڑھنا چاہیے۔ کسی قوم کا جمہوری مزاج اس کے ادب پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ فرد کی آزادی، جمہوری ماحول، آزادی فکر و خیال، اختلاف رائے کو سننے اور برداشت کرنے کی صلاحیت کا پیدا ہونا وغیرہ وہ اعلی جمہوری قدریں ہیں جو ہماری روحانی واخلاقی اور ادبی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ وہی شعر وادب اچھا ہے جس سے فرد و معاشرے کی اخلاقی ترقی ہو اور جو تمام انسانوں کے درمیان اخوت ومحبت کے فروغ کا وسیلہ اور ذریعہ ہو۔
موجودہ جمہوری نظام میں ادیبوں پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ادب کو کس طرح جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتے ہیں۔ آج ہمارا ادب کن راہوں پر گامزن ہے اور اس کی منزل کیا ہے؟ کیا ادیب معاشرے کا حصہ بن رہا ہے؟ کیا جمہوریت نے ادب کے لیے کوئی گنجائش بھی چھوڑی ہے تاکہ ادب کے ثمرات معاشرے تک پہنچ سکیں؟ جشن آزادی کے اس امرت مہوتسو کے اس موقع پر ہمیں ان تمام سوالات پر غور کرنا چاہیے تاکہ ہمارا شعر وادب فرد و معاشرے کی مکمل عکاسی کر سکے ساتھ ہی ساتھ موجودہ بحرانی دور میں ادیب کا فرض ہے کہ وہ فن کی جمالیات کی فکر کی اخلاقیات سے ہم آہنگ اعلیٰ ادب کی تخلیق کرے اور اس کی دینی آزادی کی تصویر اس کے فن میں پائی جائے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ہمیں غور کرنا ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی وسماجی ماحول میں اہل قلم کا فرض منصبی کیا ہے۔
ہمارا سماج کوئی جامد وجود نہیں ہے، اس میں تبدیلی کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی بیداری، معاشرے کی نئی تعمیر اور ایک ہمہ گیر انقلاب کو برپا کرنے میں ادیب و شاعر اور اہل قلم کا بڑا اہم کردار ہا ہے۔ چوں کہ ادیب وشاعر سماج کا حساس اور دانشور طبقہ ہوتے ہیں، اس لیے سماجی تبدیلی میں عام آدمی کے مقابلے میں وہ زیادہ موثر رول ادا کر سکتے ہیں۔ ان میں خیر وشر کی قوتوں کا تصادم یا معروف ومنکر کی کش مکش کئی سطحوں پر جاری رہتی ہے لہذا سماج میں لڑائی کا کوئی ایک مورچہ نہیں ہوتا۔ اقبال نے کہا تھا۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
لہذا سماجی تبدیلی اور تغیرات کے مختلف مورچوں میں ادب ایک اہم محاذ ہوتا ہے۔ ادب کا رشتہ جمالیات کے حوالے سے انسان کے شعور، اس کے لطیف احساسات، نازک جذبات اور داخلی کیفیات سے ہوتا ہے۔ اس طرح ادب حق و باطل کی جنگ میں جذبے اور احساس کے اہم مورچے پر برسر پیکار رہتا ہے۔ قوموں کی تہذیبی نشونما میں زبان وادب کی تاثیر بے مثال رہی ہے۔ یہ معاشرے کی فکری و تہذیبی صورت گری اور عملی شائستگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ شعر و ادب بجائے خود مقصد نہیں بلکہ یہ ایک بڑے مقصد کے حصول کا ذریعہ اور وسیلہ ہے۔
ادب انسانی خیالات، جذبات اور اقدار کو زندہ رکھنے اور بنانے بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے۔ دنیا کی تمام تحریکات نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا ہے اور بہتر سے بہتر استعمال بھی۔ فرانس کا عوامی انقلاب والٹیر اور روسو کے قلموں کو نہیں بھول سکتا ہے۔ روس کا اشترا کی انقلاب مارکس، ٹراٹسکی، گورکی اور دوسرے ادیبوں اور شعرا کے جنبش قلم پر چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ جرمنی کا نازی انقلاب اس تصور سے ابھرا ہے جو نیٹشے نے اپنی تحریروں میں چھوڑا تھا۔ ان سب کے قلموں کی سیاہی دراصل ان انقلابات کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہے۔
اسی طرح خود انبیائی تاریخ پر اگر ہم ایک نگاہ ڈالیں تو دیکھیں گے کہ انبیا علیہم السلام نے اپنے اپنے دور میں جو تحریکیں چلائیں، ان میں خدا کے لکھائے ہوئے اسالیب بیان کو اپنی دعوت کے فروغ کے لیے پورے طور پر استعمال کیا۔ قرآن مجید کا ادبی اعجاز اس سلسلے کا آخری نمونہ ہے۔ ہر دور کی اسلامی تحریک نے یہ تقاضا کیا ہے کہ حق کے علم بردار ادب کی طاقت کو معرکہ خیر وشر میں استعمال کریں۔ خود مدینہ منورہ میں جب اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا اور بزم رسالت سجائی گئی تو رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے خدا اور رسول کی مدد تلواروں سے کی ہے آخر وہ اپنے شعر و ادب سے اس مقصد خاص کی اشاعت کیوں نہیں کرتے۔‘ یہ سنتے ہی حضرت حسان بن ثابت اٹھے اور عرض کیا: ’’میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں‘‘۔ چناں چہ اس دور میں جب حق و باطل کی قوتیں نبرد آزما تھیں ل، اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ مخالفین کا سر نیچا کرنے کے لیے فن ہجو گوئی سے کام لیا جائے۔عربوں میں یہ صنف بہت مقبول اور موثر تھی۔ رسول اکرمﷺ نے حضرت حسان کے بارے میں فرمایا ’’حسان کے اشعار مخالفین اسلام پر تیر سے کہیں زیادہ کاری ضرب لگاتے ہیں۔ چناں چہ آج بھی سماجی اصلاح اور سیاسی مسائل کے تدارک کے لیے شعرا و ادبا اور اہل قلم حضرات کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس عہد کے فن کاروں کو آگے بڑھ کر اپنے منصب کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے قلم کو تلوار اور زخموں کو پھول بنانا ہوگا۔
ان نا گفتہ بہ حالات میں وقت آ گیا ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنی سرگرمیوں اور ترجیحات کا جائزہ لیں اور نئے عزم اور نئی قوت کے ساتھ ایک نیا لائحہ عمل بنائیں۔ ایک نئی شاہراہ تلاش کریں جس پر ایثار و عزیمت اور صبر واستقامت کے ساتھ گامزن ہو جائیں۔ اب یہ کوششیں چو طرفہ ہوں گی۔کئی کئی محاذوں پر ایک ساتھ جد وجہد کرنی ہو گی۔ سماج کے تمام طبقوں اور دائروں کو متحرک اور منظم کرنا ہوگا جس کے لیے بڑی بصیرت اور ہمت کی ضرورت ہے۔
حالات کی تبدیلی کے لیے شعور کی بیداری ضروری ہے اور مختلف زبانوں میں تحریک اسلامی کی ادبی تصنیفی کوششیں یقینا اسی سمت میں ایک ٹوٹی چھوٹی اور کم زور کوشش سہی لیکن یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ جب اندھیرا ہر طرف پھیل جائے تو اندھیرے کا نوحہ کرنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ انسان ایک موم بتی ہی جلا دے۔ کہیں ایک شمع ہی روشن کر دے، اس امید پر کہ کبھی نہ کبھی چراغ سے چراغ جلتے جائیں گے، روشنی پوری آب وتاب کے ساتھ پھیلے گی اور اندھیرے پوری طرح کافور ہو جائیں گے، اس لیے کہ اندھیروں کو تو بہر حال جانا اور روشنی کو غالب آنا ہے اس لیے ہمیں بدلتے ہوئے حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مومنین کے لیے قرآن میں غلبہ اسلام کی بشارتیں آئی ہیں جن سے اطمینان ہوتا ہے اور امید کے چراغ جل اٹھتے ہیں لیکن صرف اطمینان کافی نہیں ہے بلکہ تعمیر پسند اہل قلم کے لیے نوشتہ دیوار اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے اور ایک صالح انقلاب کے لیے تیاریوں کا آغاز اور عملی اقدام کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں قرآن کی ان بشارتوں کے پس منظر میں خدا کی اس زمین پر خدا کا نظام غالب ہوتے ہوئے دیکھ سکیں۔
جہاں ان کی یورشیں ہیں وہیں آشیاں بنے گا
کوئی جا کے بجلیوں کو میرا فیصلہ سنا دے
(سابق صدر، شعبہ اردو، انجمن ڈگری کالج،بھٹکل، کرناٹک ،سابق قومی صدر،ادارہ ادب اسلامی ہند)
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2022