روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ۔ایک سخت امتحان
2013میں منموہن سنگھ حکومت کو نشانہ بنانے والے نریندر مودی خاموش کیوں؟
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
حالیہ دنوں میں روپے کی قدر میں جس تیزی سے تنزلی ہوئی ہے وہ قابل تشویش ہے۔ یہ اب تک کی تاریخی گراوٹ ہے اس کے بعد کئی بھارتی کمپنیاں اپنے تحفظ فارورڈ کور کی قواعد میں ہیں۔ تشویش اور خدشات سنگین ہیں کیونکہ فیڈرل ریزرو شرح سود میں مسلسل اضافہ کرتا جارہا ہے جس سے ڈالر کو مزید تقویت ملے گی۔ کئی ماہ سے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ نے خام تیل کی قیمت میں کافی غیر یقینی صورتحال پیدا کردی ہے اور سپلائی چین کو تہس نہس کردیا ہے اس کے علاوہ چین اور تائیوان کےدرمیان تناو کی وجہ سے دنیا میں معاشی مندی کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امکان ہے کہ اس سے روپیہ کی قیمت مزید گرسکتی ہے، اس سے بہتر ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ بیرونی زر مبادلہ کا ذخیرہ بھی دو سالوں میں کم ہوکر 545.65ارب ڈالر ہوگیا ہے جبکہ چند ماہ قبل یہ 640ارب ڈالر تھا۔ اس سے خام تیل اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور اکثر درآمداتی اشیا مہنگے ہوجائیں گے۔ اس کا اثر عام لوگوں کی زندگی پر پڑنا لازمی ہے کیونکہ مہنگائی ویسے ہی لوگوں کی کمر توڑ رہی ہے مگر روپے کی گراوٹ کا فائدہ فارما، ٹکسٹائل اور آئی ٹی جیسے مختلف اشیا کے برآمدات پر مثبت ہوگا اس کے ساتھ ہی زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں مندی کے ممکنات کی وجہ سے برآمدات پر بھی اثر پڑنے کا امکان ہے۔ روپے میں گراوٹ کی وجہ سے ڈالر کی طلب میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ 2022کے ابتدائی سے ہی غیر ملکی سرمایہ کاروبار بازار سے روپے نکالتے دیکھے گئے۔ دوسری طرف فیڈرل ریزرو بینک شرح سود میں تیزی سے اضافہ کرتا رہا ہے۔ اس لیے سرمایہ کار، سرمایہ کاری کے لیے بھارت کو چھوڑ کر امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ابھی تو ڈالر کا ہی طوطی بول رہا ہے۔ ڈالر کی مضبوطی کی وجہ سے 85فیصد تجارت ڈالر میں کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 65فیصد ملکوں میں ڈالر کا ہی چلن ہے اور 39فیصد ممالک میں قرضوں کا لین دین بھی ڈالر ہی میں ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری 85فیصد خام تیل کی ضروریات درآمد سے ہی پوری ہوتی ہیں۔ اس لیے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے خام تیل و دیگر اشیا کی خریداری میں بھارت کو نسبتاً زیادہ ہی خرچ کرنا پڑتا ہے اب تو بنا سپتی تیل، کھاد اور ادویات کے خام مال اور کیمیکلس باہر سے منگوانے کی وجہ سے درآمدات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے بھی ڈالر کی ضرورت زر مبادلہ کے طور پر زیادہ ہی بڑھ گئی ہےاور ملک کو تجارت کے توازن میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حال یہ ہوگیا ہے کہ سرمایہ کار ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایہ کاری کو ترجیحی طور پر متبادل تسلیم کرنے لگے ہیں۔
روپیہ کی ناقدری کی وجہ سے حکومت اور آر بی آئی کافی متفکر ہے۔ کیونکہ روپے کی قدر میں تاریخی گراوٹ کی وجہ سے لوگوں میں خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کہیں ڈالر کی قیمت سنچری نہ بنالے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ 82روپے فی ڈالر تاریخی تنزلی ہے۔ اب تو بھارت اور بیرون بھارت کے ماہرین اقتصادیات یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگر ملک کی معاشی حالت کو سنبھالنے کی فوری کوشش نہیں کی گئی تو ملک معاشی اور سماجی طور پر بالکل تباہ ہوجائے گا۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی گراوٹ دراصل حکومت کی نا اہلی اور غلط پالیسی کا نتیجہ ہے کیونکہ جملہ باز وزیراعظم مودی نے بغیر سوچے سمجھے نوٹ بندی کی اور اس کے معاً بعد جی ایس ٹی کا نفاذ عمل میں لایا۔ اس سے ملکی معیشت بالکل ہی تباہ ہوگئی مگر حکومت بضد ہے کہ ہم دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہیں۔ اکنامکس کے پروفیسر ڈی ایم دیواکر کہتے ہیں کہ نریندر مودی نے 2014سے 2019تک سپنے بیچنے کا کام کیا۔ مگر اب اصل چیلنجز کا سامنا ہے۔ وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری جو بی جے پی کے صدر رہ چکے ہیں اور آر ایس ایس کے قریبی ہیں نے کہا کہ ہماری اکنامی دنیا کی سب سے بڑی بڑھنے والی اکنامی ہے اب دنیا میں ہمارا پانچواں نمبر ہے We are rich nation with a poor population(ہمارا دیش اتنا ہی دھنوان ہے جنتا غریب ہے)گڈکری نے کہا کہ بھارت کے لوگ بھکمری، بے روزگاری، ذات پات، چھوت چھات اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے دوچار ہیں اور امیر و غریب کے درمیان فاصلہ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اسی طرح آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریاہوسابلے نے کہا کہ ملک میں بیس کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غربت اور عدم مساوات کی خطرناکی سے لڑنے کے لیے مضبوط پالیسی کی ضرورت ہے۔ آج سے 9سال قبل 2013میں روپے کی قیمت 69روپے فی ڈالر تھی اور روپے میں 15فیصد تنزلی کے ساتھ 58سے 69روپے تک پہونچ گئی تھی۔ مگر اب تو جملہ بازوں کے دور حکومت میں 82روپے سے اوپر فی ڈالر ہوگئی ہے مگر وزیراعظم اور وزیر مالیات اپنی کمزوروں کو کورونا قہر، عالمی مندی اور روس۔ یوکرین جنگ کو ڈھال کے طور پر پیش کررہے ہیں۔2013میں یہی سنگھی اور وزیراعظم کا چہرہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو کوستے ہوئے نہیں تھکتے تھے۔ اب تو مودی جی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور الیکشن موڈ میں آکر گجرات کے الیکشن میں تن من دھن سے لگ گئے ہیں۔
در حقیقت ہماری معیشت کے لیے کمزور روپیہ اور افراط زر دونوں گمبھیر مسائل ہیں آربی آئی کو اپنی مانیٹری پالیسی کے ذریعے اس کا فوری حل نکالنا ہوگا۔ لوگ سخت حالات میں رہ رہے ہیں جہاں مائکرو اکنامک کا نظم عالمی معیشت کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ فی الحال آر بی آئی نے شرح سود کو بڑھادیا ہے جس کے نتائج اندرون ملک اور عوام الناس پر پڑنے والے ہیں۔ اب تو ادھار کی قیمت زیادہ چکانی ہوگی مگر لوگوں کی آمدنی متعین ہے۔ مانیٹری پالیسی کے ذمہ داروں کو حساسیت کے ساتھ دونوں مسائل پر غور کرنا ہوگا کیونکہ روزگار بازار میں ناپید ہے اور پیداوار بھی کم ہورہی ہے۔ نتیجتاً تمام شعبوں کی سپلائی میں تبدیلی تباہ کن ثابت ہوگی اور طلب میں گراوٹ آئے گی۔ ایسے حالات میں forex reserves کا استعمال بہت مناسب ہوگا۔ اس سے زر مبادلہ کی تنزلی کو قابو میں کیا جاسکے گا۔ لیکن اس سے اس گراوٹ کو کتنا روکا جاسکے گا یہ بھی ایک سوال ہے۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ آر بی آئی ہمہ جہتی طریقہ کار اپنائے۔ آر بی آئی نے بھارتی بازار میں ڈالر کے بہاو میں تیزی لانے کا طریقہ اختیارکیا ہے جس میں قلیل مدتی فارن پورٹفولیو انوسٹمنٹ بھی ایک سبیل ہے۔ اس طرح کی اسکیم 2014میں این آر آئی انوسٹمنٹ کو راغب کرنے کے لیے بنائی گئی تھی اگرچہ روپے کی قدر میں تنزلی کافی دنوں سے جاری ہے جو اب بہت تیز ہے۔ واضح رہے کہ مئی 2022میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھارتی بازار سے 1.50لاکھ کروڑ روپے نکال لیے ہیں۔ ایسے دباو کی کیفیت میں روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم سے کم تر ہوگئی ہے۔
***
***
در حقیقت ہماری معیشت کے لیے کمزور روپیہ اور افراط زر دونوں گمبھیر مسائل ہیں آربی آئی کو اپنی مانیٹری پالیسی کے ذریعے اس کا فوری حل نکالنا ہوگا۔ لوگ سخت حالات میں رہ رہے ہیں جہاں مائکرو اکنامک کا نظم عالمی معیشت کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ فی الحال آر بی آئی نے شرح سود کو بڑھادیا ہے جس کے نتائج اندرون ملک اور عوام الناس پر پڑنے والے ہیں۔ اب تو ادھار کی قیمت زیادہ چکانی ہوگی مگر لوگوں کی آمدنی متعین ہے۔ مانیٹری پالیسی کے ذمہ داروں کو حساسیت کے ساتھ دونوں مسائل پر غور کرنا ہوگا کیونکہ روزگار بازار میں ناپید ہے اور پیداوار بھی کم ہورہی ہے۔ نتیجتاً تمام شعبوں کی سپلائی میں تبدیلی تباہ کن ثابت ہوگی اور طلب میں گراوٹ آئے گی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022