آر ایس ایس محب وطن ہے یا تشدد پسند؟

ضمیر احمد / نہال صغیر

دعوت نیوز سے خصوصی بات چیت میں یشونت شندے کا بے باکانہ جواب
آئے دن ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نئے نئے ایسے مسائل چھیڑ دیے جاتےہیں جن سے ہندو۔مسلم فساد بھڑک اٹھنے کا خدشہ لگا رہتا ہے اور کہیں کہیں تو فساد پھوٹ بھی پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں کون فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور ملک کے حالات کو خراب کرنے سے کس پارٹی کو سیاسی فائدہ مل رہا ہے؟ ممبئی کے رہنے والے سابق آر ایس ایس پرچارک یشونت شندے نے عدالت میں داخل کردہ اپنے حلف نامے میں آر ایس ایس پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ دعوت نیوز نے اس سے کئی سوالات کیے جن کے جوابات قارئین کی نذر ہیں۔
سوال : مسٹر شندے! تم کو عدالت میں یہ حلف نامہ داخل کرنے کی وجہ کیا بنی؟
جواب: سن 2003 میں میرے پاس بم بنانے کے لیے ٹریننگ کی تجویز آئی تھی۔ میں نے اسی وقت تجویز پیش کرنے والے کے سامنے کہا کہ کیا 2004 کے لوک سبھا الیکشن کے پیش نظر یہ منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور ملک کے ماحول کو خراب کر کے لوک سبھا میں جانے کا ارادہ ہے؟ وہ شخص میرے سوال سے لاجواب ہو گیا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں شامل ہوا تاکہ سازش کا پتہ چل سکے۔ اس کے لیے میں سنگھ کے گڑھ (پونے) گیا جہاں پورے مہاراشٹر سے کئی نوجوان آئے تھے۔ ناندیڑ سے ہمانشو پانسے بھی آیا تھا۔ وہاں تین چار دن کی ٹریننگ ہوئی۔ٹریننگ میں متھن چکرورتی نام کا شخص بم بنانے کی تربیت دیتا تھا۔ اس کا اصل نام روی دیو تھا اور بجرنگ دل کا کل ہند کو آرگنائزر تھا۔ راکیش جھابڑے جو مالیگاوں بم بلاسٹ 2008 (جس کی کلیدی ملزمہ پرگیہ سنگھ جو فی الوقت بی جے پی کی ایم پی ہے) کا ملزم ہے اور ابھی ضمانت پر باہر ہے، وہ ریسارٹ میں ہمارے ساتھ تھا۔ بم سازی کا ماہر روی دیو عرف متھن چکرورتی کو روزانہ لانا لے جانا راکیش جھابڑے کے ذمہ تھا۔ اس ساری ٹریننگ کا ایک ہی مقصد تھا کہ بڑے پیمانے پر بم دھماکوں کے ذریعہ ملک کا ماحول خراب ہو اور بی جے پی کو اقتدار تک پہنچنے کا موقع ملے۔ اس مقصد کے تحت بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے لوگوں نے مل کر یہ سازش رچی تھی۔
سوال: اتنی تاخیر سے یہ باتیں سامنے لانے کی وجہ کیا ہے کسی کا دباؤ تو نہیں؟ حالانکہ تم کو کئی بار اس کا موقع ملا ہو گا؟ آر ایس ایس جیسی تنظیم پر تم اتنا سنگین الزام لگا رہے ہو جبکہ وہ وطن پرست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے؟
جواب: مجھ پر کسی کا دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی میں کسی سے متاثر ہوں۔ آر ایس ایس وطن پرستوں کی ہی جماعت ہے مگر کچھ برسوں سے اس پر غلط اور منفی رجحان رکھنے والے لوگوں کا اثر قائم ہو گیا ہے جن کے دباؤ میں سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے کارکنوں کا استعمال بی جے پی کے لیے ہو رہا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ انہوں نے ہمانشو پانسے جیسے شخص کو بی جے پی کے لیے بلی کا بکرا کیوں بنایا؟ میرا مطالبہ ہے کہ ملند پرانڈے جو اس وقت وشو ہندو پریشد کا اہم ذمہ دار ہے اس کو گرفتار کیا جائے، اس کی گرفتاری سے کئی نام سامنے آجائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں اتنے برسوں سے خاموش نہیں بیٹھا تھا میں تنظیم کے اندر رہ کر کوشش کر رہا تھا۔ میں نے شری کانت جوشی کے ذریعہ کافی کوشش کی، انہوں نے موہن بھاگوت سے بھی گفتگو کی لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے شری کانت جوشی غمگین بھی تھے۔ وینکٹیش ابدیو جو وشو ہندو پریشد کی مرکزی نمائندوں میں سے تھے۔ میں نے سنیل دیودھر جو اس وقت مودی اور امیت شاہ کے قریبی ہیں اور کئی ریاستوں کے بی جے پی کے ذمہ دار بھی ہیں، ان سبھی سے گفتگو کی لیکن کسی نے میری باتوں کو اہمیت نہیں دی۔ ان ساری کوششوں کے درمیان ڈیڑھ سال قبل مجھے ایس ایم مشرف کی کتاب ’’کرکرے کا قاتل کون؟‘‘ پڑھنے کو ملی، اس سے مجھے کافی معلومات ملیں۔ مذکورہ کتاب میں ایس ایم مشرف نے جو باتیں لکھی تھیں اس کا میں عینی شاہد تھا۔ پھر میرا مشرف صاحب سے رابطہ ہوا، چار چھ ماہ تک تو انہوں نے مجھ پر اعتماد نہیں کیا پھر جب ان کا مجھ پر اعتماد قائم ہوا تو اب وہ اس معاملہ میں میرا ساتھ دے رہے ہیں۔ میرے سامنے پہلا کام یہ تھا کہ ہزاروں لوگ جو بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے تھے اسے روکا جائے۔ سنگھ، بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے اس زہریلے منصوبوں کو خاک میں ملایا جائے۔ لوک سبھا کا الیکشن جیتنے کا ان کا خواب چکنا چور ہو جائے۔ کارکنوں کا جو غلط استعمال ہونے والا تھا اسے میں نے روکا۔ اس کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کی جان بچائی۔ تنظیم کی ساکھ خراب ہونے سے بچائی۔ میں باہر رہ کر یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔
سوال: تمہارا یہ الزام ہے کہ 2000 کے بعد سارے بم دھماکوں میں آر ایس ایس ملوث رہی ہے اور تفتیشی ایجنسیوں نے صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی یا انہوں نے تفتیش کے نام پر عوام کو گمراہ کیا۔ اس سلسلہ میں ہمارا سوال یہ ہے کہ تم مرکزی تفتیشی ایجنسی سے کیا چاہتے ہو؟
جواب: آپ امبانی کے گھر کے باہر ایک کار میں جلیٹن کے کچھ چھڑیاں ملنے والے معاملہ کو دیکھیے جس کی این آئی اے نے بال کی کھال نکالی ہے اور اس پر سیاست بھی ہو رہی ہے، لیکن حقیقت میں جہاں بم ملے اور سازشیں ہوئیں وہاں تفتیشی ایجنسی نے کچھ لوگوں کو گرفتار کیا لیکن جو اصل سازشی تھے انہیں چھوڑ دیا، جبکہ انہیں اصل سازشیوں کو گرفتار کرنا چاہیے تھا۔ اگر ہیمنت کرکرے زندہ ہوتے تو آج یہ سارے منصوبہ ساز جیل میں ہوتے۔ بی جے پی اور سنگھ کے لوگوں کے جیل جانے کی لائن لگ گئی ہوتی، لیکن ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہیمنت کرکرے جیسے محب وطن قتل کر دیے گئے۔ اتنے عرصہ کے بعد میرے ذریعہ حقیقت آشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر میں اندر رہ کر کوشش نہ کرتا تو یہ لوگ اور تباہی مچاتے۔ اب میرے ذریعہ اس حلفیہ بیان کی وجہ یہ ہے کہ وہ سازشی اور شدت پسند جو منموہن سنگھ کی حکومت میں انڈر گراؤنڈ ہو گئے تھے اب وہ موجودہ حکومت میں 2014 سے پھر سے متحرک ہو گئے ہیں۔ اب ان کی پالیسی تبدیل ہوگئی ہے۔ جب یہ حکومت میں نہیں تھے تو وہ بم دھماکوں کے ذریعہ ماحول کو خراب کر کے اقتدار تک پہنچنے کی راہیں تلاش کر رہے تھے اور اب اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے، انہیں بے پناہ قوت حاصل ہے۔ اس وقت ان کی پالیسی نفرت پھیلاو کی ہے، جیسے یہ کہہ کر کہ مغربی بنگال میں ممتا ہندوؤں پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے یا تبلیغی جماعت والوں نے ملک میں کورونا پھیلایا ہے وغیرہ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کے نمستے ٹرمپ سے ملک میں کورونا کا پھیلاو ہوا۔ کبھی یہ حجاب کا مسئلہ اٹھا کر نفرت پھیلاتے ہیں تو کبھی نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر محمد (ﷺ) کی ہتک کر کے ملک کے ماحول کو خراب کرتے ہیں۔ نوپور شرما کے ذریعہ بیان اس لیے دلوایا گیا کیوں کہ انہیں کشمیر میں ہندوؤں کے قتل اور ہجرت سے عوام کے ذہنوں کو بھٹکانا تھا۔ اگر کشمیر کا معاملہ طول پکڑتا تو وزیر اعظم کی شبیہ خراب ہوتی، اس لیے انہوں نے نوپور شرما کے ذریعہ پیغمبر کی توہین کے معاملہ کو ہوا دی۔ آپ کسی بھی اندھ بھکت سے پوچھ لیں کہ اسے کشمیر کے بارے میں کیا معلوم ہے وہ کچھ نہیں بول پائے گا۔ نوپور شرما کو کشمیر کے لوگوں کی باتیں کیوں نہیں سمجھ میں آئیں جو حقیقی مسئلہ تھا لیکن اس کے بجائے ایسا مسئلہ اٹھایا جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر نوپور شرما کشمیر کا مسئلہ اٹھاتی تو اس سے بی جے پی اور مودی کی شبیہ داغ دار ہوتی اس لیے اس کا رخ موڑ دیا گیا۔ ایسے میں موہن بھاگوت، نریندر مودی اور سارے اعلیٰ عہدیدار خاموش ہیں۔ وہ چاہتے ہی یہ ہیں کہ ملک میں اسی طرح نفرت پھیلتی رہے، ملک کا ماحول خراب ہوتا رہے اور اس کا سیاسی فائدہ انہیں ملتا رہے۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022