روزگار کہاں ہے؟

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے 35 فیصد فارغین کو کیمپس پلیسمنٹ میں مایوسی

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہنرمندی کے فروغ ، صنعتی تربیت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کی ضرورت
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) کا شمار ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی معتبر اور نامور اداروں میں ہوتا ہے۔ سخت مشقت اور مسابقہ جاتی امتحانات کے بعد ایسے اداروں میں داخلہ ہوتا ہے جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی پُر مشقت ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اس ادارہ کے تعلق سے ایک بڑی چونکا دینے والی خبر یہ ہے کہ امسال وہاں کے 30 تا 35 فیصد فارغ التحصیل گریجویٹس کی کیمپس پلیسمنٹ میں کسی طرح کی تقرری نہیں ہو پائی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں روزگار کی حالت سخت اور سست بھی ہے کیونکہ انفارمیشن ٹکنالوجی میں عالمی سطح پر بحالی بہت ہی کم ہے جس کا اثر ہمارے ملک پر بھی ہو رہا ہے۔ زیادہ تر طلبا کی اولین ترجیح سرکاری نوکریوں کی ہی ہوتی ہے تاکہ ان کا کریئر محفوظ و مامون رہے۔ آج کامیاب آئی آئی ٹی کے طلبا کی بڑی تعداد نوکری کی کمیابی کی وجہ سے بہت سارے کوچنگ سنٹروں سے منسلک ہو جاتی ہے جن کو وہاں بہت کم تنخواہیں ملتی ہیں کیونکہ مینجمنٹ، انجینئرنگ اور ٹکنالوجی میں کسی طرح کی ویکنسی ہی نہیں ہے۔ روزگار کی موجودہ حالت بہت ہی تشویشناک ہے۔ صنعتی دنیا کو آگے بڑھ کر ایسے ذہین افراد کو مواقع فراہم کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کے تعلیم گاہوں سے فارغ التحصیل مختلف اداروں کے گریجویٹوں کا بڑا حصہ کسی طرح روزگار کا اہل نہیں ہے۔ حالیہ جاری کردہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور انسٹیٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہنر اور تربیت سے ہماری تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر روزگار پر رہنے کی اہلیت نہیں ہے۔ حالیہ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور انسٹیٹیوٹ آف ہیومن ڈیولپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہنر (Skill) اور تربیت کا فقدان تعلیم یافتہ نوجوان گریجویٹوں کے اندر بے روزگاری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ملک کی تعلیمی صنعت 117 ارب ڈالر سے زیادہ کی ہے اور بڑی تیزی سے نئے نئے کالجز اور یونیورسٹیاں بھی کھل رہی ہیں، ساتھ ہی ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جسے ڈیموگرافک ڈیوڈینڈ بھی کیا جاتا ہے جو معیشت کو متحرک رکھنے اور اس کی بہتری میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ترقی کے اس تیز رفتار دور میں نوجوانوں نے ہنر مندی اور تربیت کا فقدان ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی معیشت یا پانچویں بڑی معیشت سے دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کے راہ میں نوجوانوں کے اندر ہنر مندی کی کمی ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مودی کے اسٹارٹ اپ انڈیا کی گودی میڈیا نے دھوم مچا رکھی ہے مگر وہ اتنی بڑی آبادی کو اسکِلڈ بنا کر ورک فورس میں شامل کرنے کا اہل نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کے چند معیاری اداروں کے فارغین دنیا کے مختلف اداروں میں رہنمائی کے مقام پر فائز ہیں مگر یہ بھی درست ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کے فارغ شدہ گریجویٹوں کی بڑی تعداد کے پاس معمولی قسم کے روزگار کی اہلیت بھی نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں محض 3.8 فیصد انجینئرس ہیں جن کے پاس اسٹارٹ اپ ہے اور سافٹ ویر کی نوکری کے لیے بھر پور صلاحیت موجود ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم اور طلب کے مد نظر نجی شعبہ میں بہتر صلاحیت کو پروان چڑھانے کا جذبہ بہت زیادہ ہونا چاہیے جس کا ہمارے نجی شعبوں میں فقدان ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بہترے ادارے ایسے ہیں جہاں لائق اساتذہ کی بڑی کمی ہے۔ تجربہ گاہیں ناپید ہیں۔ تعلیم و تربیت کا معیار انتہائی ناقص ہے۔ ابتدائی تعلیمی نظام تواور بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لاکھوں پرائمری اسکولس ہیں جہاں محض ایک ہی استاد ہے۔ پانچویں کلاس کے بچے دوسرے درجے کی کتابوں کو پڑھ نہیں سکتے، حالانکہ ہمارے یہاں سرکاری اور نجی اداروں کی نگرانی کے لیے مرکزی اور ریاستی سطح پر اداروں کی نگرانی کرکے ان کی اہلیت کو پروان چڑھانے کے شعبہ جات بھی موجود ہیں۔ پھر بھی ہمارے اداروں میں عالمی تعلیمی اداروں سے مسابقت کی صلاحیت نہیں کے برابر ہے جو قابل تشویش ہے۔ ملک کے آئی آئی ٹی گریجویٹوں کو آج یا کل کہیں نہ کہیں نوکری مل جائے گی کیونکہ وہ باصلاحیت ہیں مگر ملک کے بقیہ ناقص اداروں سے فارغین کی صلاحیت اور تربیت کے تعلق سے سوچنا ضروری ہے۔
چند دنوں قبل جینوا میں قائم بین الاقوامی تنظیم برائے محنت کش (آئی ایل او) اور ہمارے ملک کا ادارہ انسٹیٹیوٹ فار ہیومن ڈیولپمنٹ نے مشترکہ طور پر ایئر انڈیا ایمپلائمنٹ رپورٹ برائے 2024،300 صفحات پر مشتمل شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں ہمارے ملک میں محنت اور روزگار پر تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ انہی اداروں نے محنت کش اور عالمگیریت اور 2016 میں مینوفکچرنگ میں روزگار کی بہتری پر رپورٹ شائع کی تھی۔ حالیہ رپورٹ میں 2000 کے بعد کی دو دہائیوں کے اوقات کا ڈیٹا پیش کیا گیا ہے۔ 2018 سے قبل ڈیٹا کا اہم ذریعہ روزگار پر کیے جانے والے پانچ سالہ سروے تھا۔ اس کے بعد ہر تین ماہ پر آنے والی لیبر فورس کا سروے اس کا ذریعہ بن گیا۔ یہ تمام تر اعداد و شمار محققین کے لیے آج بھی دستیاب ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت کی آبادی کا شرح اضافہ کم ہوکر سالانہ 0.8 فیصد رہ گیا ہے۔ مگر لیبر فورس اب بھی سالانہ دو فیصد کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ میں دو دہائیوں سے روزگار 14 فصید کے کل لیبر فورس پر جامد ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں سب سے بڑی وجہ حسب ضرورت ہنر مندی کا فقدان ہے۔ نوجوانوں میں 34 سال سے کم عمر کے 83 فیصد بے روزگار ہیں۔ اس عمر کے بعد نوکری پانے کے امکانات یکلخت بڑھ جاتے ہیں خواہ کم اجرت پر ہی کیوں نہ ہو۔ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب 27 فیصد اور عمر کے بڑھنے پر 2036 تک 23 فیصد رہ جائے گا کیونکہ کالجوں میں اندراج بڑھ رہا ہے تو ایسے نوجوان لیبر فورس کا جز نہیں ہوں گے اور اس طرح لیبر فورس میں شراکت کم ہو سکتی ہے۔ اب تو نوجوانوں میں بے روزگاری بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے۔ یہ دو دہائیوں میں پانچ فیصد سے بڑھ کر 2019 میں 17.5 فیصد ہوگئی ہے اور 2022 میں کم ہو کر 12.1 فیصد پر آگئی ہے، جس کا راست تعلق تعلیم سے ہے۔ 2022 میں لکھنے پڑھنے سے معذور نوجوانوں میں شرح بے روزگاری 3.4 فیصد، مڈل یا اس سے زائد تعلیم یافتہ نوجوانوں میں 18.4 فیصد اور گریجویٹوں میں 29.1 فیصد تھی۔ کیونکہ ہمارے یہاں Skill Development کے اداروں کی بہت کمی ہے اور صنعتی تربیت کی طرف تو توجہ ہی نہیں ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہم اپرینٹس شپ پروگراموں کو رفتار دیں۔ قومی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 کے تحت روزگار کی صلاحیت، ہنر مندی میں اضافہ، روزگار دینے والوں کے ساتھ شراکت کے تجربہ کے حصول پر بھرپور توجہ ہونی چاہیے مگر سنگھیوں کے خواب تو بڑے سہانے ہوتے ہیں۔ انہیں جب ہندو-مسلم، مندر-مسجد شمشان-قبرستان، اونچ نیچ اور فرقہ وارانہ زہر کی آبیاری پر مطلوبہ طاقت مل جاتی ہے تو لوگوں کو روزگار سے لگانے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کی سبیل پیدا کرنے کی حاجت کیوں محسوس ہوگی؟ وہ اب عوام کے سامنے 2047 کا روڈ میپ لانے جا رہے ہیں جبکہ لوک نیتی کے سروے میں روزگار اور مہنگائی 36 فیصد کے لوگوں کے لیے سب سے بڑے مسائل ہیں۔ 65 فیصد شہریوں کے لیے روزگار ہی سب سے بڑا سوال ہے۔
بھارت میں معاشی بہتری کے لیے امید رہتی ہے۔ شعبہ زراعت کے فاضل محنت کشوں کو مینوفیکچرنگ اور خدمات کے شعبوں میں لایا جائے، اس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ جی ڈی پی میں 1984میں اشیاء اور خدمات کے برآمدات کا حصہ محض 6.3 فیصد ہی تھا جو 2022 میں بڑھ کر 22 فیصد تک ہوگیا ہے۔ عالمی بازار میں مواقع بڑھنے سے ملک میں روزگار میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ برآمداتی ترقی کو مشرقی ایشیا کے اکثر ممالک موثر طریقے سے استعمال کر رہے ہیں جہاں محنت کشوں کے مفاد کو خاطر میں لاکر برآمدات ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں برآمدات کے تعلق سے ہمیشہ منفی رویہ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ حالات بدلیں مگر نئے چیلنجز بھی آئیں گے کیونکہ اسرائیل-فلسطین جنگ کے دائرہ کی وسعت سے تجارتی رکاوٹوں میں اضافہ اور آٹومیشن کی وجہ سے روزگار پر نئی مصیبت آسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ آئندہ دہائی بھارت کی انسانی پونجی (Human Capital) کو بڑھانے میں صرف ہو اور اسے سرمایہ کاری کی دہائی بنانے کی کوشش ہو۔
***

 

***

 مینوفیکچرنگ میں دو دہائیوں سے روزگار 14 فیصد کے کل لیبر فورس پر جامد ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اس میں سب سے بڑی وجہ حسب ضرورت ہنر مندی کا فقدان ہے۔ نوجوانوں میں 34 سال سے کم عمر کے 83 فیصد بے روزگار ہیں۔ اس عمر کے بعد نوکری پانے کے امکانات یکلخت بڑھ جاتے ہیں خواہ کم اجرت پر ہی کیوں نہ ہو۔ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب 27 فیصد اور عمر کے بڑھنے پر 2036 تک 23 فیصد رہ جائے گا کیونکہ کالجوں میں اندراج بڑھ رہا ہے تو ایسے نوجوان لیبر فورس کا جز نہیں ہوں گے اور اس طرح لیبر فورس میں شراکت کم ہو سکتی ہے۔ اب تو نوجوانوں میں بے روزگاری بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 اپریل تا 04 مئی 2024