بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کہا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزین بنگلہ دیش پر ’’بڑا بوجھ‘‘ ہیں

نئی دہلی، ستمبر 4: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اتوار کو کہا کہ روہنگیا پناہ گزین ان کے ملک پر ایک ’’بڑا بوجھ‘‘ ہیں اور ان کی حکومت ان کی میانمار واپسی کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی برادری سے رابطہ کر رہی ہے۔

حسینہ نے اے این آئی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے لیے یہ [روہنگیا پناہ گزین] ایک بڑا بوجھ ہیں۔ ہندوستان ایک وسیع ملک ہے… آپ ایڈجسٹ کر سکتے ہیں لیکن آپ کے یہاں زیادہ (روہنگیا) نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں… 1.1 ملین روہنگیا ہیں۔‘‘

پچھلی دہائی کے دوران ہزاروں روہنگیا میانمار سے بھاگنے پر مجبور ہوئے کیوں کہ اس ملک کی حکومت نے اس کمیونٹی کو بے وطن کر دیا اور پھر اس پر بڑے پیمانے پر تشدد کا نشانہ بنایا۔

تقریباً 1.1 ملین (10 لاکھ سے زیادہ) روہنگیا پناہ گزین اس وقت بنگلہ دیش کے کاکس بازار اور بھاسن چار جزیرے میں رہ رہے ہیں۔ دریں اثنا تقریباً 16,000 روہنگیا پناہ گزین بھارت کے مختلف حصوں میں بتائے جاتے ہیں۔

اتوار کو حسینہ نے اے این آئی کو بتایا کہ ان کی حکومت نے انسانی ہمدردی کے پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے روہنگیا کی دیکھ بھال کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’انسانی بنیادوں پر ہم انھیں پناہ دے رہے ہیں اور سب کچھ فراہم کر رہے ہیں۔ اس Covid-19 وبائی بیماری کے دوران ہم نے تمام روہنگیا کمیونٹی کو ویکسین دی، لیکن وہ کب تک یہاں رہیں گے؟‘‘

حسینہ نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم اور اقوام متحدہ کے ساتھ روہنگیا پناہ گزینوں کے حوالے سے بات چیت کر رہی ہے۔

حسینہ نے مزید کہا ’’لیکن بھارت ایک پڑوسی ملک کے طور پر اس میں بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایسا مجھے لگتا ہے۔‘‘

حسینہ پیر سے بھارت کے چار روزہ دورے پر رہیں گی۔

اے این آئی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں حسینہ نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف حملوں کی اطلاع ملنے پر ان کی حکومت فوری کارروائی کرتی ہے۔

انھوں نے کہا ’’میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ممالک [بھارت اور بنگلہ دیش] کو اپنی عظمت اور اپنے حصے کا مظاہرہ کرنا چاہیے، آپ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش ایک سیکولر ملک ہے اور ہمارے یہاں بہت سے مذاہب ہیں۔ اور یہاں مذہبی ہم آہنگی بہت زیادہ ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں گذشتہ سال کومیلا ضلع میں سوشل میڈیا کے ذریعے قرآن پاک کی بے حرمتی کی افواہیں پھیلنے کے بعد ہندوؤں کے خلاف تشدد کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس تشدد میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔