جموں میں روہنگیا پناہ گزینوں پر خوف کے سائے

اقوام متحدہ کی ہدایات کے باوجود بے وطن برادری کو جہاں میں کہیں اماں نہیں ناگفتہ بہ حالات کے باوجود پناہ گزین کیوں قابل رحم نہیں؟

دعوت نیوز ڈیسک

سپریم کورٹ نے جموں میں محروس روہنگیا پناہ گزینوں کی فوری رہائی کے لیے داخل کردہ ایک تازہ درخواست پر اپنا فیصلہ محفوظ کر دیا ہے اور مرکز کو حکم دیا ہے کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو میانمار واپس بھیجنے سے باز رہے۔ عدالت عظمیٰ اس معاملہ میں بہت جلد اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ جموں میں روہنگیا برادری پہلے سے ہی خوف و سراسیمگی کے عالم میں زندگی گزار رہی ہے۔

پچھلے دنوں جموں و کشمیر انتظامیہ نے ’’تنقیح کی کارروائی‘‘ کے حصہ کے طور پر ۱۵۰ سے زائد پناہ گزینوں کو گرفتار کیا تھا۔ میڈیا کے مختلف گوشوں میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق جموں میں تقریباً ۶۵۰۰ روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں جن میں سے ۱۵۵ روہنگیائی مسلمانوں کو ’ہولڈنگ سنٹرس‘ بھیجا گیا ہے۔ اس پر کانگریس لیڈر سلمان نظامی نے سوال اٹھایا ہے کہ روہنگیاوں کی تنقیح کیوں کی جا رہی ہے کیا محض اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں؟ ان گرفتاریوں کی کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی شدید مذمت کی ہے اور دہلی میں احتجاج بھی کیا گیا۔ کشمیر کے مقامی سیاسی لیڈروں نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر روہنگیا مسلمانوں کو جموں میں رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق وزارت امور داخلہ کی ہدایات پر تنقیح کا عمل شروع کیا گیا ہے اور ۱۵۰ سے زائد افراد بشمول خواتین، بچوں اور معمر افراد کو ایم اے ایم اسٹیڈیم پر جمع کیا گیا اور ان میں سے بہت سوں کو ’’ہولڈنگ سنٹرس‘‘ میں رکھا گیا ہے۔ مرکز کے اس فیصلے کے خلاف دو روہنگیا مسلم پناہ گزینوں محمد سلیم اللہ اور محمد شاکر نے سپریم کورٹ میں سینئر وکیل پرشانت بھوشن کے ذریعے عرضی داخل کی ہے جبکہ حکومت کی حمایت میں بی جے پی کے لیڈر اشونی کمار اپادھیائے، آر ایس ایس کے کے این گوندآچاریہ اور بعض دوسروں نے عدالت میں روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے مسلم پناہ گزینوں کے اخراج کے حق میں عرضیاں دائر کی ہیں۔

اخبار ہندو کی رپورٹ کے مطابق ایک روہنگیا مسلم سلامت اللہ نے کہا ’’ ہم ایک دن چلے جائیں گے چونکہ میانمار کی صورتحال ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے اس لیے ہم یہاں ہیں۔ پولیس ہمیں (جموں میں) طلب کر رہی ہے۔ وہ ۱۳ افراد جنہیں ہفتے کو پولیس اسٹیشن آنے کے لیے کہا گیا تھا وہ ابھی تک واپس نہیں ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’یہاں روہنگیا خاندان موجود ہیں جن کے بڑے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور بچوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ میں میزبانی اور ہمیں معاش کمانے کا موقع دینے کے لیے ہندوستان کا شکر گزار ہوں لیکن تازہ اقدام کے بعد بچے اپنے بڑوں کو نہ پا کر رو رہے ہیں اور انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان بچوں کو اپنے خاندانوں سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے‘‘۔

روہنگیا پناہ گزینوں کے معاملے میں موجودہ حکومت کا رویہ شروع سے ہی تنقیدوں کی زد میں ہے جس نے سپریم کورٹ میں دو روہنگیا پناہ گزینوں کی تازہ درخواست پر اپنا یہ موقف پیش کیا ہے کہ ’’ہندوستان روہنگیاوں کے لیے ’صدر مقام‘ نہیں بن سکتا‘‘ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ کوئی بھی اس امر کی وکالت نہیں کر رہا ہے کہ بھارت کو روہنگیا برادری کے لیے صدر مقام بننا چاہیے بلکہ بات صرف اتنی سی کہ ان کے معاملہ کو انسانیت کے نظریہ سے دیکھا جائے اور پناہ گزینوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو عالمی طور پر مسلمہ ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۷ میں ایک سنوائی کے دوران سپریم کورٹ نے بھی مرکزی حکومت سے کہا تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے مسئلے کو قومی سلامتی کے بجائے انسانیت کی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔

مذکورہ مقدمہ کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ روہنگیائی بچوں کو قتل و غارت گری اور جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے اور میانمار میں فوج بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کا پاس و لحاظ رکھنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ مرکز کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وکیل دفاع ان مسائل کو پیش کر رہے ہیں جو میانمار میں موجود ہیں۔ اس پر مسٹر بھوشن نے بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ میانمار نے ایک محفوظ گروہ کے طور پر رہنے کے روہنگیا برادری کے حقوق کو تسلیم کرنے سے متعلق کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر انتظامیہ نے جموں میں ان روہنگیاوں کو گرفتار کر رکھا ہے جن کے پاس رفیوجی کارڈس موجود ہیں اور ان کا بہت جلد اخراج کیا جائے گا۔

پرشانت بھوشن نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ دستور کی دفعہ ۲۱ کے تحت ان روہنگیاوں کو گرفتار کرکے ملک بدر نہ کیا جائے۔ اس کے جواب میں تشار مہتا نے کہا کہ یہ سب لوگ سرے سے پناہ گزیں ہیں ہی نہیں اور یہ عدالت عظمیٰ میں مقدمہ بازی کا دوسرا دور ہے۔اس سے پہلے ایک درخواست گزار کی جانب سے جو خود بھی روہنگیا تھا، دائر کردہ درخواست مسترد کی جاچکی ہے۔ اس سے قبل اسی طرح کی ایک درخواست آسام کے لیے بھی داخل کی گئی تھی۔

سالسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا’’ درخواست گزار نے مطالبہ کیا ہے کہ کسی روہنگیا کا اخراج نہ کیا جائے جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ ہم قانون کی پابندی کریں گے۔ یہ لوگ غیر قانونی مہاجر ہیں۔ ہم ہمیشہ میانمار سے رابطے میں رہے ہیں اور جب بھی وہ توثیق کریں گے کہ کوئی فرد ان کا شہری ہے تو ہم اسی وقت اس کا اخراج کریں گے‘‘ اس پر بنچ نے کہا کہ آیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ (مرکز) صرف اسی وقت اخراج کریں گے جب میانمار تسلیم کرے گا، مہتا نے کہا ’جی ہاں‘ حکومت کسی افغانی شہری کو میانمار نہیں بھیج سکتی۔ اس بحث کے بعد بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملہ میں اپنا فیصلہ محفوظ کر رہی ہے۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ سپریم کورٹ اس مسئلہ میں اپنے سابقہ موقف کو دہراتی ہے یا اس کے برعکس کوئی موقف اختیار کرتی ہے۔

اب یہ معاملہ پوری طرح عدالت کے رحم و کرم پر ہے کیونکہ حکومت سے کوئی اچھی توقع نہیں کی جاسکتی جس کے ایک وزیر کرن رجیجو آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ’’سبھی ۲۰ ہزار روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر کیا جائے گا ان کے پاس یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے وہ سبھی غیر قانونی مہاجرین ہیں یو این ایچ سی آر کے رجسٹریشن کی کوئی وقعت نہیں ہے کیونکہ ہم اس کا حصہ نہیں ہیں‘‘۔ یو این ایچ سی آر نے ملک میں ۷۱ ہزار کے قریب روہنگیا پناہ گزینوں کارجسٹریشن کیا ہے تاہم بھارت اس رجسٹریشن کو بھی نہیں مانتا۔

یو این تنظیم کے ملک میں موجود دفتر نے کرن رجیجو کے جواب میں کہا تھا کہ ’’قانون کے حساب سے مہاجرین کو اس جگہ واپس نہ بھیجنا جہاں ان کو خطرہ لاحق ہو بین الاقوامی قانون کا حصہ ہے۔ تمام ممالک اس اصول کے پابند ہیں اور وہ ممالک بھی جنہوں نے مہاجر کنونشن ۱۹۵۱ پر دستخط نہیں کیے ہیں‘‘۔ اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی ستمبر ۲۰۱۴ میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ملک میں کئی ممالک کے ۲ لاکھ کے قریب پناہ گزین کئی دہوں سے رہ رہے ہیں جن میں ایک لاکھ ۹ ہزار تبتی بودھ، ۶۶ ہزار سری لنکن تامل ہندو، ۱۰ ہزار افغان مہاجرین کے علاوہ صومالیہ، روہنگیا اور شام کے پناہ گزین شامل ہیں۔

ہندوستان کا تعارف دنیا بھر میں آج بھی بڑی حد تک ایک امن پسند اور انسانی حقوق کے پاسدار ملک کے طور پر ہے جس نے کورونا وبا کے بحران میں بھی عالمی برادری بالخصوص غریب ملکوں کا خیال رکھا ہے اور بڑے پیمانہ پر ویکسین کی فراہمی کے ذریعہ دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ اقوام عالم کے لیے ایک ہمدرد ملک ہے۔ ہمارے ملک کے حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ جب مسلمانوں کا معاملہ سامنے آتا ہے تو ہمدردی کے پیمانے کیوں بدل جاتے ہیں۔

***

مرکزی حکومت کی طرف سے 26مارچ کو سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے کی قیادت والی بینچ کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک میانمار کی حکومت برما کے پناہ گزین شہریوں کی شناخت کرکےانہیں واپس لے جانے پر راضی نہیں ہوتی اس وقت تک روہنگیا مسلمانوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔
لیکن اس سے پہلے حکومت کا علانیہ موقف رہا ہے کہ وہ برما میں ظلم و ستم سہنے والے بھارت میں روہنگیائی شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیج دے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021