نہال صغیر ، ممبئی
مسلمان صبر کی روش پر۔ برادران وطن سے تعلقات مزید استوار کرنے کی ضرورت
ایم این ایس سربراہ راج ٹھاکرے کے اذان کے خلاف بیان اور مسجد کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھنے کے اشتعال انگیز بیان کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خود ایم این ایس میں ہی ٹکراو کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس طرح کے بیان کے سبب جہاں ایم این ایس کے مسلم ارکان وکارکنان نے استعفیٰ دیا تو وہیں کئی شہروں میں ہندو ارکنان یا عہدیداروں نے مذکورہ اشتعال انگیز بیان سے خود علیحدہ کر لیا۔
یہ بات عوامی طور پر تسلیم شدہ ہے کہ راج ٹھاکرے اپنے سیاسی وجود کے حصول کے لیے وہ راستہ منتخب کر رہے ہیں جو ریاست مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ خود ان کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ویسے ایک خیال یہ بھی ہے کہ راج ٹھاکرے اسی دُھن پر رقص کرتے ہیں جس سے ان کا مالی مفاد وابستہ ہوتا ہے ۔ ایک سیاسی تجزیہ کار کے مطابق ۲۰۱۹ میں انہیں شرد پوار سے ایسی ہی کوئی امید محسوس ہوئی تھی جس کی وجہ سے وہ نریندر مودی کے خلاف میدان میں آئے اور جگہ بجگہ ان کے جلسہ عام میں ’’ویڈیو لاورے‘‘ کا مشہور جملہ سننے کو ملتا تھا ۔ اس سے قبل وہ مودی کے گجرات ماڈل کو دیکھنے بھی گئے تھے۔ وہ ایک سیمابی کیفیت کے مالک ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گرگٹ کی طرح رنگ تبدیل کرنے میں کافی ماہر ہیں۔ راج ٹھاکرے کے موجودہ اشتعال انگیز بیان پر لوک ستہ کے ایڈیٹر گریش کُبیر کا تبصرہ سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا ’’گڈی پاڑوا کی تقریر سن کر ایسا محسوس ہوا کہ ان کی اپنی کوئی آزادانہ سیاسی سوچ وحکمت عملی نہیں ہے‘‘۔
مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کے صدر راج ٹھاکرے کے گڈی پاوڑا ریلی کے دوران مساجد میں ہونے والی اذان کے خلاف موقف سےخود ان کی اور پارٹی کی ساکھ کو خطرات لاحق ہیں۔ ایم این ایس پونے شہر کے صدر وسنت مورے نے واضح طور پر کہا ہے کہ میں اپنے وارڈ میں مساجد کے سامنے ہنومان چالیسا نہیں کروں گا۔ ان کی اس عدول حکمی کے سبب راج ٹھاکرے نے پونے شہر کی کمان اپنے دوسرے وفادار سائیں ناتھ بابر کو سونپ دی۔ وسنت مورے نے واضح طور پر کہا کہ وہ اپنے وارڈ میں ہر حال میں امن برقرار رکھنے کو ترجیح دیں گے۔ اس طرح کی باغی زبان عام طور پر ایم این ایس میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ کسی ایک شہر یا ایک علاقہ تک نہیں محدود نہیں ہے۔
پونے میں عہدیداروں کے استعفیٰ کے بعد کلیان کے مسلم ایم این ایس کارکنوں نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ایم این ایس کے ریاستی سکریٹری عرفان شیخ نے براہ راست ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان ہم سے سوال کر رہے ہیں۔ عرفان شیخ نے سوشل میڈیا پر راج ٹھاکرے کے کردار پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ راج ٹھاکرے کے اذان اور مدرسہ کے خلاف اشتعال انگیز بیان سے مسلم کمیونٹی میں غصہ پایا جاتا ہے۔ مسلمان مسلم کمیونٹی میں ایم این ایس کے عہدیداروں سے پوچھ رہے ہیں کہ پارٹی نے ایسا کردار کیوں اپنایا؟ حالانکہ ناسک سے یہ خبر آئی ہے کہ ایم این ایس کے بعض مسلم ارکان اور عہدیداروں نے راج ٹھاکرے کے بیان کی حمایت کی ہے۔ خبر دینے والوں نے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ وسنت مورے کو پارٹی سے نکالے جانے کے خوف سے یہ مسلم ممبران حمایت کر رہے ہیں۔
راج ٹھاکرے کے ذریعہ اپنی سیاسی زمین کے حصول کی کوشش خود ان کی ذات اور پارٹی کے لیے سیاسی خود کشی ثابت ہو سکتی ہے۔ وسنت مورے کی ایم این ایس سے وداعی پر گزشتہ سال ایم این ایس سے ترک تعلق کرنے والی روپالی تھومبرے نے کہا جب میں نے ایم این ایس سے علیحدگی اختیار کی تو وسنت مورے نے کہا تھا کہ روپالی نے سیاسی خود کشی کی ہے، اب انہیں معلوم ہوا ہو گا کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔ روپالی نے یہ بھی بتایا کہ وسنت مورے ایک ایماندار عوامی نمائندہ ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ راج ٹھاکرے اپنے بیان کی وجہ سے ایک مشکل موڑ پر آگئے ہیں جہاں ان کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی نظر آرہی ہے۔مراٹھی صحافی ضمیر قاضی کا ماننا ہے کہ راج ٹھاکرے خواہ کچھ بھی کہیں لیکن انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ان کے پاس اس کی صلاحیت ہے نہ کیڈر ہے اور نہ کارپوریشنوں میں سیٹیں بڑھ رہی ہیں۔ اس کے برعکس ان کا دائرہ مسلسل سمٹ رہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان کا سیاسی قد چھوٹا ہو رہا ہے۔ ایک اور مراٹھی کی خاتون صحافی یاسمین شیخ کہتی ہیں ’راج ٹھاکرے زیادہ سے زیادہ شیو سینا کی کچھ سیٹوں کو معمولی طور سے متاثر کرسکتے ہیں‘۔ شیو سینا کے سپریمو بال ٹھاکرے سے بغاوت کرکے ایم این ایس بنانے والے اور اپنے پارٹی کے پرچم میں رنگوں کا انتخاب ان کے باہمی اخوت ومحبت کو بیان کرتا تھا، خود ان کی تقریروں میں یہ واضح ہوتا تھا کہ وہ پورے مہاراشٹر اور اس کے باشندوں کی فلاح کے لیے پرعزم ہیں لیکن الیکشن میں کامیابی نہ ملنے پر ان کے رنگ تبدیل ہوتے رہے۔ پہلے شمالی ہند والوں کے خلاف سڑکوں اور گلیوں میں طوفان بدتمیزی، اس کے بعد مودی کی مدح سرائی اور پھر مودی کی مخالفت اور اب پھر سے نئی دہلی کے اشارے پر اذان کےخلاف مہم۔
بہر حال اذان کے خلاف بیان سے فی الحال مہاراشٹر میں محض سیاسی ماحول گرم ہوا ہے لیکن عوام کی اس بیان پر کوئی خاص توجہ نہیں ہے نہ ہی کہیں سے کوئی فرقہ وارانہ فضا میں بگاڑ کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں راج ٹھاکرے کے اشتعال انگیز بیان پر بھی کوئی خاص رد عمل نہ آنے کا سبب کیا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں؟ اول تو یہ کہ یہاں سنگھ کا ہیڈ کوارٹر ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ ماحول کی صورتحال زیادہ خراب نہیں رہی ہے۔ دوئم یہاں دلت تحریکوں کی وجہ سے بھی شاید ہندو مسلم منافرت کی آگ زیادہ نہیں بھڑک سکی۔ سوئم مسلمانوں کا اخلاق وکردار جس نے انہیں یہاں کے برادران وطن سے دوری کی بجائے رابطہ کو بحال رکھنے میں مدد کی ہے۔ ویسے ایک اور بات یہ ہے کہ بھارت میں ہندو مسلم منافرت کا محور ہندی زبان والی ریاستیں ہیں اور وہیں کے لوگوں میں منافرت اتنی بھر دی گئی ہے کہ اس کے ازالہ کے لیے دہائیاں درکار ہوں گی۔ اس کے برعکس غیر ہندی ریاستوں میں منافرت کا طوفان اتنا زیادہ نہیں ہے۔ مہاراشٹر بھی اسی طرح کی ایک ریاست ہے جہاں ہندی کی بجائے مراٹھی بولی جاتی ہے۔راج ٹھاکرے کی منافرت کے فلاپ شو کی اصل وجہ مسلمانوں کا صبر اور ان کا رابطہ قائم رکھنے کا سلسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اذان کے خلاف ہنومان چالیسا کہ بات کی جاتی ہے تو اسی پارٹی یا گروہ کے ارکان و عہدیداران انکار کر دیتے ہیں کہ ہم اپنے حلقہ میں ایسا کرنے سے معذور ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے ووٹروں میں مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ ہم کیسے انہیں ناراض کر دیں یا ان کے مذہب کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں؟ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو برادران وطن کے ساتھ تعلقات کو مزید استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی مہاراشٹر کے نائب امیر حلقہ سید ضمیر الحسن کہتے ہیں ’’ہمیں اسلام نے وہ اخلاق سکھائے ہیں کہ بری باتوں کا جواب بھی اچھے اور احسن طریقے سے دیں ، اس لیے حالات خواہ کتنے ہی مخالف ہوجائیں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ برادران وطن سے رابطہ کو کبھی منقطع نہ کریں، ہمیں ہر حال میں یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ رابطہ اور باہمی خیر سگالی کا راستہ کبھی ترک نہ کریں۔ ہم خیر امت ہیں اور برادران وطن سے خیر سگالی والے جذبہ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔
معروف عالم دین اور سماجی کارکن مولانا محمود دریا بادی کا ماننا ہے کہ ’’راج ٹھاکرے ایک بوسیدہ کارتوس ہے اسی لیے اس نے یہ معاملہ اٹھایا لیکن عوامی سطح پر اس کی پذیرائی نہ ہونے کا سبب دو طرفہ تعلقات ہیں جن کو مزید فروغ دینا چاہیے‘‘ ان دو طرفہ تعلقات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا موجودہ حکومت میں شیو سیناکی بھی کوشش رہی ہے کہ حکمت کے ساتھ مسلمانوں سے دوری کو ختم کیا جائے اور مسلمان بھی شیو سینا کے قریب آئیں۔ مولانا نے کہا ’’مسلمانوں کو اسلامی اخلاق کی مثال پیش کرتے ہوئے صرف سیاسی پارٹیوں سے ہی نہیں بلکہ برادران وطن کے ساتھ تعلقات کی نئی نئی راہیں ڈھونڈنی چاہیے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر کی حد تک صورتحال ٹھیک ہے مگر ملکی سطح پر ایسا نہیں ہے۔ مولانا کے مطابق راج ٹھاکرے کے اعلان سے مہاراشٹر میں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا مگر دوسری ریاستوں میں اس کی بنیاد پر شر انگیزی کی شروعات ہو گئی، جیسے کرناٹک اور اتر پردیش کے کئی شہروں سے ایسی خبریں آئیں۔
قرآن کا فرمان ہے ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے‘‘۔(حم السجدہ آيت ۳۴) مسلمانوں پر الزام ہے کہ وہ تشدد پسند ہیں اور ان کا دین انہیں تشددکی تعلیم دیتا ہے جبکہ قرآن مسلمانوں کو بہتر اور خوش گفتاری کے ساتھ برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے اور اس پر انہیں یہ پیشن گوئی بھی کرتا ہے کہ جو دشمن ہو گا وہ تمہارا دوست بن جائے گا۔ تاریخ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں جب مسلمانوں کے اخلاق حسنہ کے سبب کئی شہر فتح ہو گئے اور کئی ممالک مسلمانوں کی پناہ میں آگئے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوگا، اگر ہم نے اسلام کو ٹھیک ٹھیک برادران وطن تک پہنچائیں۔
***
راج ٹھاکرے کے اعلان سے مہاراشٹر میں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا مگر دوسری ریاستوں میں اس کی بنیاد پر شر انگیزی کی شروعات ہو گئی، جیسے کرناٹک اور اتر پردیش کے کئی شہروں سے ایسی خبریں آئیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 17 تا 23 اپریل 2022