قرآن مجید سے جذباتی رشتہ قائم کریں

محی الدین غازی

جسم و جذبات پر قرآن کی اثر آفرینی محسوس نہ ہوتو سمجھنا چاہیے کہ ہماری طرف سے کہیں کچھ کوتاہی ہو رہی ہے۔ اس کوتاہی کو دور کرنے کے بعد ہی قرآن اور ہمارے جسم و روح کے بیچ مطلوب رشتہ قائم ہوسکے گا۔
جبیر بن مطعم مکہ کے سردار تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کر چکے تھے، مکہ سے دشمنوں کی ایک فوج مدینہ پر حملہ کرنے پہنچی، بدر کے مقام پر جنگ ہوئی، دشمنوں کو بری طرح شکست ہوئی، بہت سے دشمن قیدی بنالیے گئے۔ پھر قیدیوں کو چھڑانے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ مکہ سے جبیر بن مطعم قیدیوں کے سلسلے میں گفتگو کرنے مدینہ پہنچے۔ شام کا وقت تھا۔ وہ مسجد نبوی کے پاس پہنچے تو مغرب کی نماز ہورہی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نماز میں سورۃالطور کی آیتیں پڑھ رہے تھے۔ جبیر کے کانوں میں آیتوں کے الفاظ پڑے۔
أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ(35)
’’کیا یہ کسی خالق کے بغیر خود پیدا ہو گئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟‘‘
أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوقِنُونَ(36)
’’کیا زمین اور آسمانوں کو اِنہوں نے پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے‘‘
أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ(37)
’’کیا تیرے رب کے خزانے اِن کے قبضے میں ہیں؟ یا اُن پر اِنہی کا حکم چلتا ہے؟‘‘
ان آیتوں کو سن کر جبیر کی حالت غیر ہوگئی اور ان کا دل بے قابو ہونے لگا۔پھر ایک دن اللہ کی توفیق سے وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ ان آیتوں پر غور کریں، ایک طرف اللہ کی عظمت و قدرت، دوسری طرف انسان کی بے بسی و لاچاری۔ انسان اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز کائنات ہے، لیکن مخلوق ہے۔ آسمان اور زمین بہت بڑے ہیں، لیکن وہ بھی مخلوق ہیں۔ اور اگر وہ مخلوق ہیں تو ان کا خالق کتنا عظیم اور قدرت والا ہوگا۔ اس کائنات میں خزانے تو بہت ہیں۔ لیکن وہ کس کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ کیسا غنی اور زبردست ہوگا۔ غرض یہ تین آیتیں انسان کو اپنے رب کے آگے سجدہ ریز کرادینے والی ہیں۔ اگر حضرت جبیرؓ یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں کو سن کر میرا دل بے قابو ہوگیا، کاد یطیر قلبی، تو حقیقت یہ ہے کہ یہ آیتیں ہیں ہی نہایت عظیم الشان۔
ہمیں اسلام کی تاریخ میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں، جب قرآن مجید کی آیتیں کسی غیر مسلم کے کانوں تک پہنچتیں اور پھر دل میں اتر جاتیں اور وہ اسلام کی دولت سے مالا مال ہوجاتا۔
یہی نہیں، بہت سے لوگ جو کلمہ گو ہوتے ہیں، لیکن عمل کی دولت سے محروم ہوتے ہیں، ان کی زندگی لہو و لعب میں گزر رہی ہوتی ہے۔ ان کے روز و شب نیک عمل سے خالی ہی نہیں بلکہ برائیوں میں لت پت ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت ان کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔
فضیل بن عیاض کی جوانی بد اعمالیوں میں گزر رہی تھی، لٹیروں کی ٹولی کے وہ سردار تھے۔ تجارتی قافلوں کو لوٹنا ان کا مشغلہ تھا۔ ان کی زندگی میں شراب و کباب ہی سب کچھ تھا۔ ایک رات کی بات ہے۔ بری نیت کے ساتھ ایک لڑکی کے گھر کی دیوار پر چڑھ رہے تھے۔ پڑوس میں کوئی اللہ کا بندہ قرآن مجید کی تلاوت کررہا تھا۔ سورۃ الحدید کی ایک آیت کا ایک ٹکڑا ان کے کان تک پہنچا اور دل میں اتر گیا۔ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ۔(16) ’’کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔‘‘ یہ سننا تھا کہ فضیل کے دل کی کایا پلٹ گئی۔ ان کی زبان سے نکلا: ہاں میرے رب، وہ وقت آگیا ہے۔ دل کی کیفیت ایسی ہوئی کہ برائی کے خیال کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی، وہ الٹے پاؤں واپس پلٹے اور اپنی ٹولی کے پاس جاکر اپنی توبہ کی انہیں خبر دی۔ اس کے بعد وہ حرم پاک میں جاکر مقیم ہوگئے۔ قرآن مجید کی ایک آیت کے ایک ٹکڑے نے انتہائی بگڑے ہوئے انسان کو وقت کا سب سے پرہیزگار انسان بنادیا۔ انہوں نے ایسی توبہ کی کہ ان کی توبہ کو دیکھ کر ہزاروں لوگوں نے توبہ کی۔ زہد و پرہیزگاری کی تاریخ میں آج بھی فضیل بن عیاض کا نام بہت احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
فضیل بن عیاض کے ہم زمانہ ایک اور بزرگ عبداللہ بن مبارک تھے۔ وہ تو نہ صرف عابدوں کے سردار تھے بلکہ مجاہدوں کے بھی سردار تھے۔ وہ بھی نوجوانی میں شیطان کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔ شکار کھیلنا ان کا شوق اور گانا بجانا ان کا مشغلہ تھا۔ رقص و سرود کی غفلت میں زندگی گزر رہی تھی۔ ایک دن انہوں نے بھی قرآن کی وہی آیت سنی، اور اس کے ساتھ ہی ان کا دل توبہ کے لیے جھک گیا۔
ابراہیم بن ادہم بھی زاہدوں کے امام شمار ہوتے ہیں، وہ بھی اپنے لڑکپن میں سارا دن شکار کھیلنے میں گزارتے تھے۔ ان کے باپ صاحب ثروت تھے، عیش و عشرت میں ان کی زندگی بسر ہورہی تھی۔ ایک موقع پر ان کے کان میں سورۃ المؤمنون کی یہ آیت پڑی:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔ (115)
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘
اس ایک آیت نے انہیں زندگی کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا۔ آنکھوں پر پڑا غفلت کا پردہ چاک کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے زندگی ایسی بامقصد گزاری کہ لوگوں کے لیے نمونہ بن گئے۔
ایک اور بزرگ عمرو بن جریر کا قصہ یہ ہے کہ وہ اپنی نوجوانی میں بدکاری کی نیت سے کہیں جارہے تھے، کہیں سے سورة المدثر کی یہ آیت انہیں سنائی دی:
كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ (38)
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے‘‘
اس آیت نے انہیں اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ نیک اعمال کی شاہراہ پر گامزن ہوگئے۔
قرآن مجید کا بہت بڑا اعجاز اس کی قوت تاثیر ہے۔ یہ کلام دل و دماغ کو تبدیل کردینے کی قوت رکھتا ہے۔ قرآن مجید پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ زمین کا کلام نہیں آسمان کا کلام ہے۔ اس کے اندر ایسی گرج ہے، ایسی ہیبت ہے، ایسا شکوہ ہے، کہ زمین پر ایسا کلام وجود ہی میں نہیں آسکتا ہے۔ یہ گرج انسان کے پورے وجود کو دہلا کر رکھ دیتی ہے، اگر اس نے غفلت و بے حسی کی چادر نہیں اوڑھ رکھی ہے۔
یہ آیات ملاحظہ فرمائیں:
سورۃ البقرۃ میں سود سے بچنے کا حکم دیا جارہا ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ(278)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم مومن ہو۔‘‘
’اللہ سے ڈرو‘ اور ’ اگر واقعی تم مومن ہو‘ کہنے سے اس حکم میں کتنا زور پیدا ہوگیا۔ لیکن اتنا ہی نہیں، اس کے بعد کی گرج دار بات سننے کے بعد کون سود کھانے کی جرأت کر سکے گا، کہا گیا:
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ۔(279)
’’لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔‘‘
ایسا پر شکوہ کلام جو پورے وجود کو دہلا کر رکھ دے، کسی انسانی بھٹی سے ڈھل کر نہیں نکل سکتا۔
سورة النساء کی یہ آیت سنیں:
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا۔(10)
’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں در حقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘
اس ہیبت ناک دھمکی کے بعد کس کی مجال ہوگی کہ وہ یتیم کے مال کی طرف غلط نگاہ ڈالے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے، اس لیے آدمی ان لرزہ خیز آیتوں کو نظر انداز بھی کرپاتا ہے۔ ورنہ یہ وہ آیتیں ہیں کہ پہاڑ بھی ان کی تاب نہیں لاسکیں گے۔
قرآن مجید صرف ’یہ کرو‘ اور ’یہ نہ کرو‘ پر اکتفا نہیں کرتا ہے۔ وہ ساتھ میں وعدے اور وعیدیں شامل کرتا ہے، اپنے ان اوصاف کا ذکر کرتا ہے جو دل پر اس کی قدرت و جلال کی ہیبت قائم کرتے ہیں، ایسے الفاظ کا انتخاب کرتا ہے جو دل کے اندر تک سرایت کرجائیں، ایسے اسالیب کا استعمال کرتا ہے جو حکم کو بے حد اطمینان بخش اور اس حکم کی نافرمانی کو بہت خطرناک باور کرائیں۔ اس طرح وہ عبارت محض ایک حکم نہیں رہتی ہے، بلکہ انسان کو اپنی گرفت میں لینے والی عظیم غیبی طاقت بن جاتی ہے۔
اگر قرآن مجید کی چند آیتیں عمر کو حضرت عمر فاروقؓ بناسکتی ہیں، شاہ حبشہ کو آنسو بہانے پر مجبور کرسکتی ہیں اور اگر صرف ایک آیت میں یہ تاثیر ہے کہ وہ فضیل ڈاکو کو حضرت فضیل بن عیاضؒ بنادے، تو سوچیں کہ اللہ کی اس کتاب میں ایسی چھ ہزار سے زائد آیتیں ہیں، اور وہ سب کی سب اپنے اندر انسان کو تبدیل کرنے کے ایسے ہی طاقت ور امکانات رکھتی ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کا اتنا زبردست انتظام ہے کہ اس سے زیادہ بہتر انتظام کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید کے اندر ایک طرف تو وہ ہیبت اور شکوہ ہے، جس کے آگے انسان پوری طرح جھک جائے۔ پھر قرآن مجید میں اطمینان عطا کرنے والا عقلی استدلال بھی بہت اعلی درجے کا ہے۔ قرآن پڑھتے ہوئے انسان کو یہ محسوس نہیں ہوسکتا ہے کہ اسے ڈرا کر اور خوف زدہ کر کے اطاعت پر مجبور کیا جارہا ہے۔
پھر قرآن مجید میں بلندی ہے۔بہت اونچی بلندی۔ قرآنی تعلیمات انسان کو پستی سے نکال کر بلندی کی طرف لے جانے والی ہیں۔ یہ قرآن کا بہت بڑا اعجاز ہے۔ قرآن کی کوئی ایک تعلیم ایسی نہیں ہے جو انسان کو پستی میں رہنے دے۔ ہر تعلیم کسی نہ کسی طور سے پستی سے بلندی کے سفر میں آگے بڑھاتی ہے۔ قرآن مجید کے تمام وعدے اور ساری وعیدیں دراصل انسان کو مہمیز لگانے والی ہیں۔
قرآن کے اوصاف جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں، زندگی پر اس کی تاثیر کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔
لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ [الزخرف: 4]’’بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب‘‘
وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ[فصلت: 41]’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے‘‘
إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [الواقعة: 77]’’بے شک یہ خوبیوWں سے مالا مال قرآن ہے‘‘
بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ [البروج: 21] ’’بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے‘‘
معلوم ہوا کہ قرآن میں حکمت بھی ہے، شکوہ بھی ہے اور خوبی و بلندی بھی ہے۔ جس کلام میں یہ صفات جمع ہوجائیں، زندگی پر اس کی اثر آفرینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے یہ صفات ہر ہر آیت میں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں۔ ہر آیت حکمت کا شاہکار ہے، ہر آیت میں کسی خوبی کی طرف رہنمائی ہے، ہر آیت میں رب کائنات کا شکوہ جھلکتا ہے اور ہر آیت میں بلندی کی طرف مہمیز ہے۔
قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یہ بلندی سے آکر بلندی کی طرف لے جانے والی کوئی طاقت ہے۔ انسان کے اندر یہ کلام عجیب قسم کی قوت پرواز پیدا کردیتا ہے۔ پھر یہ دنیا اس کی منزل نہیں رہتی۔ وہ دنیا میں رہتے ہوئے عالم بالا کی طرف سفر کررہا ہوتا ہے۔ موت اسے عالم بالا تک لے کر نہیں جاتی ہے، بلکہ وہاں پہنچ جانے کی خبر دیتی ہے۔ وہ تو اپنی زندگی ہی میں وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس دنیا کے اسباب اس کے لیے پرواز کا ایندھن بنتے ہیں، دنیا میں قید کردینے والی بیڑیاں نہیں۔
انسانی زندگی پر قرآن مجید کی اثر آفرینی کا حال یہ ہے کہ وہ پوری زندگی کو تبدیل کردینے والی ہے۔ یہ خوبی بھی قرآن کا بڑا اعجاز ہے۔دنیا کے کسی بھی نظریے کو ماننے کی صورت میں زندگی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ تبدیلی بہتر کی طرف ہو۔ لیکن اگر وہ بہتر کی طرف ہو تب بھی پوری زندگی کو بہتری کے راستے پر ڈالنے والی نہیں ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ زندگی اتنی پیچیدہ اور پہلو دار ہوتی ہے کہ اس کی مکمل رہنمائی کرنا کسی انسانی نظریے کے بس کی بات نہیں ہے۔ مکمل رہنمائی اور کامل تبدیلی صرف قرآن مجید سے ممکن ہے۔
خود مسلمانوں کے درمیان اپنی جماعت، اپنے مسلک اور اپنے طریقے کی طرف دعوت دینے والے اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں، کہ ان کی وہ دعوت زندگی کے کسی ایک یا چند گوشوں کی اصلاح کرسکتی ہے۔ پوری زندگی کی اصلاح کے لیے قرآن کی دعوت دینا ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ قرآن پر ایمان رکھنے والی امت پر قرآن مجید کے اثرات ظاہر کیوں نہیں ہوتے؟اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن مجید سے مسلمانوں کا رشتہ محض تلاوت کا ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے ہیں، وہ تو صرف تلاوت کرتے ہی ہیں، لیکن جو عربی جانتے ہیں وہ بھی صرف تلاوت ہی کرتے ہیں۔ غیر عرب معاشرے میں ترجمہ بیدہ سے قرآن پڑھنے کا رجحان بہت کم زور ہے۔ ترجمہ پڑھنے والے بھی صرف پڑھنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ عرب کا ایک غافل انسان عربی جاننے کے باوجود قرآن پڑھتا ہے تو اس کا پڑھنا محض الفاظ کی ادائیگی ہوتا ہے، اسی طرح غیر عرب ملکوں میں بہت سے لوگ قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہیں تو محض عبارت خوانی کرتے ہیں۔
قرآن سے فائدہ اٹھانے کے لیے توجہ سے سننا ضروری ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم قرآن پڑھ تو رہے ہوتے ہیں، لیکن پڑھتے ہوئے سن نہیں رہے ہوتے ہیں۔ ہماری توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ اگر پڑھتے ہوئے سننے کا عمل بھی ہو تو قرآن کی اثر انگیزی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ قرآن سننے سے دل پر کیا کیفیت طاری ہوتی ہے، اس آیت میں وہ دیکھی جاسکتی ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ [المائدة: 83]
’’جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اترا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ حق شناسی کے اثر سے اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں وہ بول اٹھتے ہیں کہ پروردگار! ہم ایمان لائے، ہمارا نام گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک بار اپنے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے عرض کیا: میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا! فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اسے دوسروں سے سنوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا: فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا(النساء: 41) (پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے)۔ تو آپ نے مجھ سے فرمایا: رک جاؤ! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔‘‘
قرآن پڑھنے کا حق یہ ہے کہ اپنے تمام جذبات و احساسات کے ساتھ قرآن مجید پڑھا جائے۔ قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ جذباتی کیفیت بھی تبدیل ہوتی رہے۔ جنت کا تذکرہ ہو تو جذباتی کیفیت الگ ہو اور جہنم کا ذکر ہو تو جذباتی کیفیت دوسری ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ جہنم کی آیتیں ہوں یا جنت کی آیتیں، اندرونی کیفیت یکساں رہتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ قرآن پڑھتے وقت جذبات و احساسات بیدار نہیں ہیں، کہیں اور مشغول یا خوابیدہ ہیں۔
قرآن مجید پڑھتے ہوئے اللہ کی عظمت کا خیال ہونا ضروری ہے۔ جب اللہ کے خیال کے ساتھ قرآن مجید پڑھا جائے تو اس کی اصل تاثیر ظاہر ہوگی۔اللہ کا خیال اپنے آپ میں زندگی کو بدلنے والی بہت بڑی قوت ہے، اور جب اس خیال کے ساتھ اللہ کے الفاظ بھی دل کو جھنجھوڑ رہے ہوں اور اہتزاز کی کیفیت پیدا کر رہے ہوں تو پھر اس کی اثر انگیزی بے پناہ ہوجاتی ہے۔
سورۃ البقرۃ کے شروع میں قرآن کو هُدًى لِلْمُتَّقِين کہا گیا۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پڑھتے وقت اللہ کا خیال دل میں رہے اور آخرت کی فکر ذہن پر سوار ہو، ایسی صورت میں قرآن کی ہدایت سے انسان بہت قریب ہوجاتا ہے۔
قرآن مجید پڑھتے ہوئے انسان کی جذباتی کیفیت کیسی ہو، اس کا اندازہ اس آیت سے کیا جاسکتا ہے:
اللَهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ [الزمر: 23]
’’اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزاء ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں اُسے سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں یہ اللہ کی ہدایت ہے جس سے وہ راہ راست پر لے آتا ہے جسے چاہتا ہے اور جسے اللہ ہی ہدایت نہ دے اس کے لیے پھر کوئی ہادی نہیں ہے.‘‘
اس آیت میں قرآن سنتے ہوئے جسم کی کھال اور دل کے جذبات پر ہونے والے اثرات سے ہدایت کے معاملے کو مربوط کیا ہے۔
جب تک جسم و جذبات پر قرآن کی ایسی اثر آفرینی محسوس نہ ہو، سمجھنا چاہیے کہ ہماری طرف سے کہیں کچھ کوتاہی ہو رہی ہے۔ اس کوتاہی کو دور کرنے کے بعد ہی قرآن اور ہمارے جسم و روح کے بیچ مطلوب رشتہ قائم ہوسکے گا۔
***

 

***

 قرآن میں حکمت بھی ہے، شکوہ بھی ہے اور خوبی و بلندی بھی ہے۔ جس کلام میں یہ صفات جمع ہوجائیں، زندگی پر اس کی اثر آفرینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے یہ صفات ہر ہر آیت میں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں۔ ہر آیت حکمت کا شاہکار ہے، ہر آیت میں کسی خوبی کی طرف رہنمائی ہے، ہر آیت میں رب کائنات کا شکوہ جھلکتا ہے اور ہر آیت میں بلندی کی طرف مہمیز ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022