قرآن میں سب سے زیادہ ’ یوم آخرت ‘ کا ذکر

پُر امن اور صالح معاشرے کی تشکیل میں جزا و سزا کے تصور کا نہایت اہم کردار

ابو فہد ندوی، نئی دلی

انسانوں کے بنائے ہوئے نام نہاد اصولوں کا مقابلہ نظامِ قدرت سے کسی صورت ممکن نہیں
یوں تو قرآن میں بے شمار موضوعات ہیں جو دنیا وآخرت کے تمام ضروری مباحث ومسائل کو محیط ہیں لیکن سورۂ فاتحہ میں جو ایک لفظ آیا ہے: ’’یوم الدین‘‘ یعنی یوم الحساب، وہ دن جب تمام انسانوں کو سارے جہاں کے مالک و مختار اور پالنہار کے روبرو کھڑا کیا جائے گا: یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المطففین: ۳۸) اور جس دن کوئی بھی انسان کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہوگا، اس دن تمام کی تمام ملکیت صرف اور صرف اللہ کی ہوگی۔ جس دن انسانوں کے سارے اختیارات اور تمام عارضی سہارے جو اسے دنیا میں حاصل تھے یک لخت ختم کر دیے جائیں گے: یَوۡمَ لَا تَمۡلِکُ نَفۡسٌ لِّنَفۡسٍ شَیۡئًا ؕ وَالۡاَمۡرُ یَوۡمَئِذٍ لِلہ (انفطار: ۱۹) جس دن کے بارے میں اللہ نے صاف صاف وضاحت فرمادی ہے کہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور حساب کتاب کا وقت ان کے سرپر آپہنچا ہے: اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِضُونَ (الانبیاء:1)
اگر آپ قرآن کا بغور مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں سب سے زیادہ اگر کسی چیز کا ذکر آیا ہے، سب سے زیادہ کسی ایک موضوع پر فوکس کیا گیا، مختلف ناموں، مناسبتوں اور الگ الگ مواقع پر کسی خاص بات پر زور دیا گیا ہے تو وہ یہی ’یوم حساب‘ ہے۔ یعنی دنیوی زندگی کے برعکس اخروی زندگی کا ذکر قرآن میں دیگر تمام موضوعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ احکام بیان کیے جا رہے ہیں تب، واقعات سنائے جا رہے ہیں تب، غیب کی خبریں دی جا رہی ہیں تب، اسی طرح کائنات کے رازہائے سربستہ کی نقاب کشائی کی جارہی ہے تب، ہر جگہ اور ہر موقع پر یوم حساب کی یاد ضرور دلائی جا رہی ہے۔ اور جا بجا تنبیہ کی جا رہی ہے۔ قرآن میں جا بجا دنیا اور اسبابِ دنیا کی ناپائیداری اور دنائت ومذمت مل جائے گی اور جابجا آخرت کی زندگی کی سرمدیت، اہمیت اور تعریف مل جائے گی۔ چنانچہ نبی ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہے: وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَىٰ ‎﴿الضحى: ٤﴾‏ سورہ توبہ میں ہے: أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (التوبہ: ۳۸) ’’کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیاہے؟ ایسا ہے تو خوب سمجھ لو کہ دنیوی زندگی کا سارا سامان آخرت میں بہت بے وقعت ٹھیرے گا۔‘‘ سورۂ قصص میں ہے: وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ‎﴿القصص: ٦٠﴾‏ ”دنیوی ساز وسامان کے برعکس اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے؟“ یہی مضمون کئی دیگر مقامات پر بھی بیان ہوا ہے۔ سورہ حشر میں اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہےکہ وہ ہر لمحے اللہ سے ڈرتے رہیں اور دنیا کی زندگی میں اخروی زندگی کے لیے اچھے اعمال جمع کر کے رکھیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر:18)’’اے ایمان والوں!اللہ سے ڈرتے رہو، اور ہر شخص اپنا محاسبہ کرتا رہے کہ وہ کل کے لیے آگے کیسے اعمال بھیج رہا ہے۔ دیکھو! اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے‘‘
سورۂ تغابن میں اہل کفر کو تنبیہ کی جا رہی ہے: ’’انکار کرنے والے اس خام خیالی میں ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایاجائے گا۔ اے نبی! کہہ دو کہ میرے رب کی قسم تمہیں ضرور بالضرور دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ پھر تمہیں تمہارے کرتوتوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ اور یہ سب کرنا اللہ کے لیے انتہائی آسان ہے۔‘‘ (التغابن:7)
اس دن کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اس قدر ہول ناک ہوگا کہ بچوں کو بھی بوڑھا کردے گا۔ فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿المزمل: ۱۷﴾ ’’اگر تم نے بھی کفر کیا تو اس دن کے عذاب سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘
قرآن میں ’’یَوۡمُ الدِّیۡن‘‘ کا سب سے مشہور نام یَوۡمُ الۡقِیَامَۃ ہے، ایک سورت کا نام بھی ’القِیَامَۃ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ نام تقریبا ستر مرتبہ آیا ہے۔ پھر جن مختلف ناموں سے اس کا ذکرکیا گیا ہے ان میں سے کچھ نام اس طرح ہیں: یَوۡمُ الآخِرَۃ، یَوۡمُ الحَسۡرَة، یَوۡمُ النَّدَامَة، یَوۡمُ الۡمُحَاسَبَة، یَوۡمُ الۡمَسۡألَة، یَوۡمُ الۡوَاقِعَة، یَوۡمُ الۡقَارِعَة، یَوۡمُ الرَّاجِفَة، یَوۡمُ الرَّادِفَة، یَوۡمُ الطَّلَاق، یَوۡمُ الۡفِرَاقۡ، یَوۡمُ الۡحِسَابۡ، یَوۡمُ التَّنَادۡ، یَوۡمُ الۡعَذابۡ، یَوۡمُ الۡفِرَارۡ، یَوۡمُالۡحَقۡ، یَوۡم‘الۡحُکۡم، یَوۡمُ الۡفَصۡل، یَوۡمُ الۡجَمۡع، یَوۡمُ التَّغَابُن، یَوۡمٌ عَظِیۡمٌ، یَوۡمٌ کَبِیۡرٌ، یَوۡمٌ اَلِیۡمٌ، یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ، یَوۡمٌ مُحِیۡطٌ، یَوۡمٌ مَجۡمُوۡعٌ، یَوۡمٌ مَشۡہُوۡدٌ۔
خود ’’یَوۡمُ الدِّیۡن ‘‘ کی ترکیب قرآن میں بیسیوں مقامات پر استعمال ہوئی ہے۔ پھر اس سے بھی زائد مرتبہ ’’یَوۡم‘‘ کا لفظ اسی معنیٰ میں تنہا بھی وارد ہوا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں: يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ، يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ، َيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا،‏ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ، يَوْمِ يُبْعَثُونَ، يَوْمَ تُبْلَى السَّرَائِرُ، يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ، يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا، يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ، يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
قرآن میں کم وبیش 13 مرتبہ ’السَّاعَۃ‘ کا لفظ آیا ہے جو قیامت کے معنیٰ میں ہے اور جن جن مقامات پر اور جن جن حوالوں سے یہ لفظ آیا ہے ان میں سے بیشتر حوالوں اور مقامات پر یہی واضح کیا گیا ہے کہ قیامت بس آنے ہی والی ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔ چند مقامات ملاحظہ کریں: وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ‎﴿الحجر: ٨٥﴾‏ إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ ‎﴿طه: ١٥﴾‏ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا ‎﴿الحج: ٧﴾‏ إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا ‎﴿غافر: ٥٩﴾‏ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا ‎﴿الكهف: ٢١﴾‏ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا ‎﴿الأحزاب: ٦٣﴾‏ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ ‎﴿الشورى: ١٧﴾‏
پھر آخرت کے ضمن میں ہی جنت اور جہنم کا ذکر بھی آتا ہے۔ جہنم کا ذکر بھی دیگر کئی ناموں کے ساتھ آیا ہے، جیسے: جَحِیۡمٌ، سَقَرٌ، سَعِیۡرٌ اور اَلنَّارۡ وغیرہ۔ اسی طرح جنت کا ذکر بھی کئی ناموں کے ساتھ آیا ہے جیسے: دَارُالسَّلام، دَارُالۡخُلۡد، دَارُالمُقَامَہ، دَارُالآخِرَۃ، مَقَامٌ اَمِیۡنٌ، اَلۡفِرۡدَوۡسُ، وغیرہ۔ اسی طرح لفظ ’’الآخرۃ‘‘ قرآن میں کم بیش 115 مرتبہ آیا ہے۔ جیسے: ’’وَبِالآخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ ‘‘ (البقرۃ : ۴) وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ (غافر:۳۹) وَ إِنَّ الآخِرَۃَ ھِيَ دَارُ الْقَرَارِ (المؤمن : ۳۹) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ (سورۃ الاعلى، آیت۱۷:
جنت اور جہنم اور ان کے مشابہ معانی پر مشتمل الفاظ کی کثرت اور تکرار کے علاوہ ان دونوں کا تفصیلی بیان بھی قرآن میں بہت کثرت کے ساتھ ملتا ہے۔ اور یہ بہت ہول ناک بھی ہے۔ سورۃ الغاشیہ کی ابتدائی آیات دیکھیں:
ترجمہ :’’کیا تمہیں ہر سو چھا جانے والی آفت یعنی قیامت کی خبر پہنچی ہے؟ اس دن کتنے ہی لوگ ذلیل وخوار ہوں گے، سخت محنت کر رہے ہوں گے اور تھکے جا رہے ہوں گے، بھڑکتی ہوئی آگ میں گرے جا رہے ہوں گے۔ انہیں کھولتے ہوئے چشمے کا پانی پلایا جائے گا، خار دار سوکھی گھاس کے سوا انہیں اور کچھ کھانے کو نہیں ملے گا، جو نہ جسم کو فربہ کرے گی اور نہ ہی بھوک مٹا پائے گی۔ ان کے برعکس کتنے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اپنے نیک اعمال کی بدولت خوش وخرم ہوں گے، وہ عالی شان جنت میں ہوں گے، اس میں وہ کوئی بے بے ہودہ بات نہیں سنیں گے،جنت میں ہر سُو چشمے بہہ رہے ہوں گے، اونچے اونچے تخت بچھے ہوں گے اور قرینے سے رکھے ہوئے پیالے ہوں گے، قطار در قطار رکھے گاؤ تکیے ہوں گے، سلیقے سے بچھی ہوئی مسندیں ہوں گی‘‘
سورۂ القارعۃ میں قیامت کا منظر ملاحظہ کیجیے:
ترجمہ: ’’کھڑکھڑا دینے والی اور کیسی کھڑکھڑا دینے والی اور تم کیا جانو کہ وہ کھڑکھڑا دینے والی کیا ہے۔ وہ قیامت ہے جب وہ واقع ہوگی تو لوگ ایسے ہوجائیں گے جیسے بکھرے ہوئے پروانے اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دھنکی ہوئی رنگ برنگی اون۔‘‘
کم وبیش یہی ہولناک منظر سورۂ واقعہ، سورہ انفطار، سورۂ حج، سورۂ تکویر اور سورۂ زلزلۃ میں بھی بیان ہوا ہے۔ سورۂ واقعہ میں ہے : ترجمہ: ’’ذرا اس وقت کی ہول ناکی کا بھی دھیان کرو، جب قیامت واقع ہوگی، جس کے واقع ہونے میں ذرا بھی شک نہیں ہے، تہہ وبالا کر دینے والی، جب زمین یکبارگی زور سے ہلادی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور غبار بن کر اڑتے پھریں گے۔‘‘
سورۃ انفطار میں ہے: ترجمہ: ’’جب آسمان پھٹ جائے گا، جب تارے بکھر جائیں گے، جب سمندر پھاڑ دیے جائیں گے، اور جب قبریں کھول دی جائیں گی، اُس وقت ہر شخص کو اُس کا اگلا پچھلا سب کیا دھرا معلوم ہو جائے گا۔‘‘
سورۂ حج میں ہے: ترجمہ: ’’بے شک قیامت کا زلزلہ بڑا ہی ہول ناک ہوگا، جس دن تم اسے دیکھو گے تو تمہیں اس کی ہول ناکی کا علم ہوگا، وہ اس قدر ہول ناک دن ہوگا کہ دودھ پلانے والی عورتیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھی بھول جائیں گی اور تمام حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے۔ تمہیں ایسا محسوس ہوگا جیسے لوگ نشے میں پڑے جھوم رہے ہیں،
حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی یہ حالت اللہ کے عذاب کی شدت کی وجہ سے ہوگی۔‘‘ ‎﴿الحج: ۱-۲﴾‏
سورۂ تکویر میں ہے: ترجمہ: ‎’’جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور جب ستارے گرا دیے جائیں گے اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب حاملہ اونٹنیاں آوارہ چھوڑ دی جائیں گی اور جب وحشی جانور جمع کر دیے جائیں گے (یعنی خوف ووحشت کی وجہ سے اکھٹے ہوجائیں گے) اور جب سمندروں میں آگ لگا دی جائے گی اور جب روحوں کو جسموں سے جوڑ دیا جائے گا اور جب زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سے گواہی لی جائے گی، کہ اسے آخر کس جرم میں درگور کیا گیا تھا اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں گے اور جب آسمانون کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم بھڑکائی جائے گی اور جب جنت قریب تر کر دی جائے گی، اس دن ہر انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے اپنے آگے کیا بھیجا تھا۔ (نیکیاں بھیجی تھیں یا بد اعمالیاں)‘‘ ‎﴿ التكوير۱-١٤﴾‏
ذرا سورة الزلزلة کی ہول ناکی بھی ملاحظہ کریں، کیا ادبیت ہے، کیسی منظر نگاری ہے اور کیسا بیانیہ ہے: ترجمہ :’’ جب زمین پوری شدت سے ہلائی جائے گی اور وہ اپنے اندر کا سامان باہر نکال پھینکے گی، لوگ اسے دیکھ کر وحشتناک ہوجائیں گے اور گھبراہٹ کے عالم میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے، آخر اسے ہوا کیا ہے؟ (یہ اتنی زور زور سے کیوں ہل رہی ہے) اس دن زمین اپنے تمام رازہائے سر بستہ بیان کر دے گی، کیونکہ اللہ نے اسے حکم دیا ہوگا۔ اس دن لوگ اپنے اعمال دیکھنے کے لیے گروہ در گروہ سرپٹ دوڑتے پھریں گے۔ تو جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی اچھائی کی ہوگی وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ ‘‘
جہنم کے ہول ناک بیان کے ساتھ ساتھ جنت کا خوش گوار نظارہ بھی بار بار پیش کیا گیا ہے، تاکہ انسان کو جنت کی ترغیب ملے اور مقصود اس سے بھی وہی ہے کہ لوگ صلاح وتقویٰ کی زندگی اختیاریں اور گناہوں کی روش سے باز آجائیں۔ اور اس طرح ایک صالح معاشرے کی تشکیل ہو اور ایک پرامن دنیا وجود پذیر ہو۔
سورۃ الحج میں ہے‎: ترجمہ‎: ’’اللہ اہل ایمان کو اور نیک عمل کرنے والوں کو ایسے باغات میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جنتیوں کو سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار پہنائے جائیں گے اور ان کا لباس ریشمی لباس ہوگا۔‘‘ ‎﴿الحج:٢٣﴾‏
سورہ واقعہ، سورہ معارج، سورہ حاقہ، سورہ قیامہ، سورہ تکویر اور سورہ نبا، یہ وہ سورتیں ہیں جن میں قیامت اور آخرت کی ہول ناکیوں اور مجرمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے، نیز روزِ محشر کی تفصیلات ہیں۔ اسی لیے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ھود، واقعہ، مرسلات، النبا اور الشمس سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔
مذکورہ تفصیلات سے تھوڑا بہت اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ قرآنی بیانیے پر آخرت کا تصور کس طرح حاوی ہے، جبکہ یہ تو صرف ایک جھلک ہے، اگر اس موضوع پر تمام آیات کا مطالعہ کیا جائے اور ان تمام آیات کو بھی پیش نظر رکھا جائے جو بالواسطہ طور پر تصور آخرت سے متعلق ہیں تو پھر اس موضوع پر سیر حاصل کلام کرنے کے لیے ایک مضمون یا مقالہ ناکافی ہوگا۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ قرآنی بیانیے میں آخرت کا تصور دوسرے کسی بھی تصور یا موضوع کے مقابلے میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے۔
قرآن میں آخرت کی زندگی کا زیادہ ذکر شاید اس لیے ہے کہ آخرت کا تعلق غیب سے ہے اور انسان کو دنیا کے بعد کی زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہے، اس لیے قرآن نے سب سے زیادہ اسی بات کو مؤکد کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بہرحال برتر اور اعلیٰ ہے کہ یہ عارضی ہے اور وہ دائمی، اِس کی نعمتیں اور آسائشیں محدود اور وقتی ہیں جبکہ آخرت کے نعمتیں اور بہاریں بے بہا اور دائمی ہیں، اس لیے آخرت کا ذکر دنیا کے ذکر سے زیادہ ہونا ہی تھا اور ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کی دنیوی زندگی کی نیک نامی اور صالحیت کا انحصار و مدار اسی آخرت کی زندگی کے ایمان پر استوار ہے، کیونکہ آخرت کے ہونے اور پھر دنیا کی زندگی کا حساب وکتاب دینے کا احساس واستحضار جس انسان کے دل میں جتنا زیادہ ہوگا دنیا کی زندگی میں وہ اتنا ہی زیادہ حساس، باخبر اور محتاط ہوگا۔
پھر عقیدۂ آخرت کا تصور اس لیے بھی ضروری ہے کہ توحید کا تصور بھی اس سے جڑا ہوا ہے۔ اگر آخرت کا تصور نہیں ہے تو پھر توحید کا تصور بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے بھی قرآن میں آخرت کا ذکر دیگر تمام باتوں اور موضوعات کے برخلاف بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ تصور آخرت یہی تو ہے کہ اس ہستی کا ایک خالق ہے اور ایک دن اس کے حضور کھڑا ہونا ہے اور اپنے تمام اچھے برے اعمال کا حساب دینا ہے۔
دنیا میں صالح معاشرے کا مدار آخرت کے تصور کے بغیر ناممکن ہے۔ دنیا میں انسانی معاشروں کو منظم رکھنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں، مگر وہ قوانین اپنی نہاد میں بہت سخت ہونے کے باوجود بھی ناکافی ہیں۔ پھر ان قوانین سے بچ نکلنے کے راستے موجود ہیں، پھر سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ قوانین ملک کے غریب عوام پر زیادہ لاگو ہوتے ہیں، معاشرے کے ہائی کلاس لوگوں کے لیے قوانین ہی نہیں ہوتےہیں، بلکہ ان قوانین میں انہیں استثنیات حاصل ہیں، کسی کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے اور کسی کو صدارتی استثنی ملا ہوا ہے۔
دنیا کے ہر ملک کی موجودہ سیاست میں جو لوگ سرگرم ہیں چونکہ ملک کا پورا سسٹم انہی کے اشاروں پر کام کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اقتدار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ مال جمع کرتے ہیں، خود کو، اپنے رشتہ داروں کو اور دوستوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور عوام پر ظلم کرتے ہیں۔ اس سسٹم میں اثر و رسوخ والے افراد جرمانہ و سزا کے قوانین سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ان کی زندگیوں میں جھوٹ، مکر و فریب اور ظلم و زیادتی کی بہتات پائی جاتی ہے۔ کرپشن ہے، گھوٹالے ہیں، جہاں غریب دانے پانی کو ترس رہے ہیں وہیں وی آئی پیوں کو جنت جیسا ماحول ملا ہوا ہے، دنیا کے چند افراد ساری دنیا کی اکنامی کو کنٹرول کر رہے ہیں اور دنیا کے سادھنوں کے پچھتر فیصد کے مالک بنے ہوئے ہیں اور پوری طرح اپنے اور اپنے پریوار اور پرستاروں پر خرچ کر رہے ہیں۔ باجود اس کے کہ ٹیکس کا نظام قائم ہے، جرمانے کا نظم ہے اور غریبوں کے نام پر چندے وصول ہو رہے ہیں اور ایڈس دیے جارہے ہیں، پھر بھی جو غریب ہے وہ مزید غریب ہوتا جا رہا ہے اور جو امیر ہے وہ مزید امیر ہوتا جا رہا ہے۔
بعض بڑے ممالک نے مل کر ایک بڑی فوج بنالی ہے اور پانچ طاقت ور ممالک نے مل کر ویٹو کرنے کا قانون بنا لیا ہے اور ان میں سے کچھ بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اور دنیا میں امن وامان قائم کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ہے تاکہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات کو کنٹرول کیا جا سکے اور تمام مادی وسائل انہیں حاصل ہوتے رہیں۔ دنیا کی موجودہ صورت حال میں بھی، جب دنیا کے کئی ممالک میں جمہوریتیں قائم ہیں، عالمی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں، سائنسی ترقیاں ہیں اور عام مساوات کی بڑی بڑی باتیں ہیں، لیکن ان سب کے باوجود دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں ہر روز جنگ برپا ہے، بستیاں اجاڑی جا رہی ہیں، نسل کشی کی جا رہی ہے اور اقلیتوں اور کمزوروں کو دبایا اور کچلا جارہا ہے بلکہ انہیں نیست ونابود کیا جا رہا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ دنیا کے سیاسی ومعاشی نظام کو کنٹرول کرنے والوں کے اندر تصور آخرت نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ بہت کمزور ہے، ان کا عقیدہ انہیں غلط بیانی، غلط گواہی اور غلط حکم اور فیصلوں سے باز نہیں رکھ سکتا، ان میں سے زیادہ تر تو ملحد ہی ہیں، جن کے پاس کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے پاس معدودے چند خود ساختہ اصول ہیں اور بس۔ باقی ان کا سارا نظام دھونس دھاندلی اور عسکری و ٹیکنالوجی کی طاقت کے بل پر چل رہا ہے۔ یہاں جو جسے جتنا دبا اور ڈرا لے اور جتنا زیادہ مجبور کر دے وہ اس سے اسی قدر اپنی بات منوا سکتا ہے۔ مفاد اور پریشر کی پالیسیاں ہی دنیا کے سیاسی وجمہوری نظام کو کنٹرول کرتی ہیں اور لوگ اسی اصول کے تحت ایک دوسرے سے اپنے کام نکالتے ہیں۔ اگرچہ وہ انسانی و اخلاقی اصولوں کی بات کرتے ہوں۔
اس کے برعکس آخرت کا عقیدہ پریشر اور مفاد کی پالیسی سے زیادہ طاقت ور اور زیادہ مؤثر ہے، اس میں ایمان داری اور اخلاص سب سے مضبوط فیکٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ایک شفاف عقیدہ رکھنے والا انسان اپنی غلطیوں کی تلافی کی کوشش کرتا ہے بھاگنے، چھپنے اور نظر میں نہ آنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ اس لیے اگر اس سے جانے انجانے میں گناہ کا کام ہو بھی جاتا ہے تو وہ استغفار کرتا ہے، صدقہ وخیرات کرتا ہے اور گناہوں کی تلافی کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ اسے گناہ کرکے ندامت ہوتی ہے اور وہ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے جبکہ دنیا پرست انسان جس کے پاس عقیدہ آخرت نہیں ہے یا پھر اس درجے کا نہیں ہے جس درجے میں مطلوب ہے، وہ گناہوں پر جری ہو جاتا ہے اور دوسری، تیسری بار پہلے سے بڑے اور سنگین جرائم میں ملوث ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے پکڑے جانے کا خوف نہیں ہوتا اور اس کے سامنے کوئی مخالف قوت نہیں ہوتی جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے، رہے پولیس، عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے افراد اور ادارے تو جرائم پیشہ افراد اور خاص کر اثر و رسوخ رکھنے والے افراد ان سے بھی بچ نکلنے کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ ایک صاحب ایمان شخص کو ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ دنیا میں بھلے ہی وہ پکڑا نہ جائے مگر اللہ کی عدالت میں تو اس کی پکڑ ضرور ہوگی اس لیے وہ اپنا احتساب کرتا ہے اور جرائم سے باز رہنےکی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے سیاست میں جو لوگ ہیں، خاص کر مسلم ممالک کے سربرآوردہ سیاسی لوگ اگر وہ بہت زیادہ مذہبی نہ بھی ہوں تب بھی ان کا عقیدۂ آخرت بہت پختہ ہونا ضروری ہے۔

 

***

 یوم آخرت کے مختلف نام
قرآن میں ’’یَوۡمُ الدِّیۡن‘‘ کا سب سے مشہور نام یَوۡمُ الۡقِیَامَۃ ہے، ایک سورت کا نام بھی ’القِیَامَۃ‘ رکھا گیا ہے۔ یہ نام تقریبا ستر مرتبہ آیا ہے۔ پھر جن مختلف ناموں سے اس کا ذکرکیا گیا ہے ان میں سے کچھ نام اس طرح ہیں: یَوۡمُ الآخِرَۃ، یَوۡمُ الحَسۡرَة، یَوۡمُ النَّدَامَة، یَوۡمُ الۡمُحَاسَبَة، یَوۡمُ الۡمَسۡألَة، یَوۡمُ الۡوَاقِعَة، یَوۡمُ الۡقَارِعَة، یَوۡمُ الرَّاجِفَة، یَوۡمُ الرَّادِفَة، یَوۡمُ الطَّلَاق، یَوۡمُ الۡفِرَاقۡ، یَوۡمُ الۡحِسَابۡ، یَوۡمُ التَّنَادۡ، یَوۡمُ الۡعَذابۡ، یَوۡمُ الۡفِرَارۡ، یَوۡمُالۡحَقۡ، یَوۡم‘الۡحُکۡم، یَوۡمُ الۡفَصۡل، یَوۡمُ الۡجَمۡع، یَوۡمُ التَّغَابُن، یَوۡمٌ عَظِیۡمٌ، یَوۡمٌ کَبِیۡرٌ، یَوۡمٌ اَلِیۡمٌ، یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ، یَوۡمٌ مُحِیۡطٌ، یَوۡمٌ مَجۡمُوۡعٌ، یَوۡمٌ مَشۡہُوۡدٌ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024