اداریہ

مودی کے گجرات میں ۔۔۔ عالمی رسوائی

وزیر اعظم مودی کی ریاست گجرات کےدارالحکومت احمدآباد میں واقع ایک سرکاری یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبا کے ساتھ ہندتو غنڈوں کی غنڈہ گردی کے واقعے نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے ہمارے ملک کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔ گجرات یونیورسٹی میں تقریباً 300 غیر ملکی طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میں افغانستان، سری لنکا، ازبکستان، ترکمنستان، قزاقستان اور مختلف افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبا شامل ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 17؍ مارچ سنیچر کی رات ساڑھے دس بجے کچھ مسلم طلبا اپنے ہاسٹل کی صحن میں ہر سال کی طرح نماز تراویح پڑھ رہے تھے کہ ہندتو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کچھ طلبا ہاسٹل میں داخل ہوئے اور اشتعال انگیز انداز میں نعرے لگاتے ہوئے ان کے نماز تراویح ادا کرنے پر اعتراض کرنے لگے۔ طلبا نے انہیں کہا کہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے یونیورسٹی کی انتظامیہ کی اجازت سے ہی یہاں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پر ان کے درمیان بحث و تکرار ہو گئی۔ مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کچھ دیر بعد غنڈوں کے ایک بڑے گروپ نے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ ہاسٹل میں ان غیر ملکی طلبا پر حملہ کر دیا، ان کے کمروں میں موجود سامان کو توڑ پھوڑ دیا گیا اور ان کی موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ اس حملے میں پانچ سے زائد طلبا زخمی ہوگئے جن میں دو طلبا ہسپتال میں شریک ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ گجرات کی ریاستی حکومت اور پولیس نے اس پر سخت کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور اب تک دو لوگوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ حالاں کہ بعض اطلاعات کے مطابق غنڈہ گردی کا یہ واقعہ پولیس کی موجودگی میں ہوا اور خود پولیس نے حملے کے بعد غنڈوں کو گرفتار کرنے کے بجائے انہیں آسانی کے ساتھ جانے دیا۔ مرکزی حکومت کی وزارت خارجہ بھی اس سلسلے میں سخت کارروائی کی خواہاں ہے، کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اس واقعے سے بیرونی ممالک میں ہندوستان کی شبیہ کافی خراب ہو گی اور غیر ملکی طلبا کی آمد پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
اس پورے واقعے میں سب سے تشویش ناک بات یہی ہے کہ ملک کے موجودہ صاحب اقتدار گروہ نے اپنے نظریات کے تحت یا اپنے سیاسی اقتدار کی بقا کے لیے جان بوجھ کر عوام کے ایک طبقے کے دماغوں میں نفرت کا زہر بھر دیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مسلسل نفرت بھری تقاریر، میڈیا کے ذریعے نفرت کا پرچار کرکے جس طرح کا ماحول بنایا ہے، اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس طرح کے واقعات پیش آئیں۔ لوگ نفرت کے اس زہر کو اپنے سینے میں اتار کر مجسم شر و فساد بن جاتے ہیں۔ چناں چہ وہ اسی نفرت کے زہر کو دماغوں میں لیے زندگی گزار رہے ہیں اور جب بھی موقع ملتا ہے ان کی یہ نفرت اس طرح کے کسی واقعے کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ نفرت کا یہ زہر عوام کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے اہل کاروں اور افسروں کو بھی زہریلا بنا چکا ہے۔ چناں چہ اسی سبب سے پولیس کا ایک ذمہ دار افسر، جسے عوام کی حفاظت کرنے ذمہ داری سونپی گئی تھی، دہلی کے اندرلوک علاقے میں نماز ادا کرنے والوں کو لاتیں رسید کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ اس کا یہ مجرمانہ فعل کیمرے میں قید ہو رہا ہے جسے منٹوں میں پوری دنیا دیکھ لے گی۔ یہی نفرت کا لاوا ریلوے پولیس کے ایک جوان کا دماغ پکا دیتا ہے اور وہ بے دریغ مسلمان مسافروں پر گولی چلا دیتا ہے۔ اور یہی نفرت کی آگ گجرات یونیورسٹی میں نوجوانوں کو نماز پڑھنے والے طلباء پر غنڈہ گردی پر آمادہ کر دیتی ہے اور پولیس کو بھی اس بات کے لیے تیار کرتی ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنا بھول جائیں اور غنڈوں کو گرفتار نہ کریں بلکہ انہیں اپنا کام کر کے بحفاظت جانے دیں۔ جب ملک کے اعلیٰ ترین آئینی منصب پر فائز شخصیت لوگوں کو کپڑوں سے پہنچاننے کا مشورہ دے گی تو اس کے بھکت تو یہی کریں گے۔ وہ یہ تمیز کہاں کریں گے کہ ان کپڑوں میں ملبوس شخص ملکی ہے یا غیر ملکی؟ انہیں اس بات کی فکر کہاں ہوگی کہ ان کے شیطانی عمل سے دنیا میں ملک کی کیا امیج بنے گی؟ انہیں شب و زور جس بات کا پاٹھ پڑھایا جا رہا ہے وہ اسی پر عمل کریں گے۔
یہ مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ ملک کو آخر کہاں لے جا رہے ہیں۔ آج بھی تعلیم کے لیے مختلف ممالک کے ہزاروں طلبا بھارت آتے ہیں۔ ان میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں اور غیر مسلم ممالک بھی۔ ان سب میں ہمارے ملک کی ایک خاص پہچان ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ایک سیکیولر، روادار اور مہمان نواز ملک ہے اور اب تک ہمارے ملک کی پہچان بھی یہی رہی ہے۔ لیکن اگر اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے تو رفتہ رفتہ ہماری یہ پہچان مٹ جائے گی۔ وزیر اعظم مودی ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ بھارت بہت جلد وشو گرو بننے جا رہا ہے، لیکن کیا ہم اسی رویے کے ساتھ وشو گرو بن سکتے ہیں جہاں دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلبا کے ساتھ مذہب کے نام پر بد سلوکی کی جائے گی؟ ہمارے ملک نے اپنی کشادہ ظرفی، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ رواداری کی قدروں کے سبب دنیا میں شہرت حاصل کی تھی جس کو موجودہ قائدین اب قصہ پارینہ بنا دینے میں مصروف ہیں۔
ملک کے عوام کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے ملک کو اسی طرح غنڈوں کی بھیڑ کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ دنیا بھر میں اس کے امیج کو بگاڑ کر رکھ دیں یا اس صورت حال کو بدلنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کے لیے بھی اپنے آپ کو تیار کریں گے؟ آنے والا وقت فیصلے کا وقت ہے اور ملک کا مستقبل بنانا ان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔