قرآن کو مطلوب انقلابی کردار

کتاب الٰہی سے عملی تعلق کے بغیر امّت کے حالات بدل نہیں سکتے

عشرت فاطمہ، بنگلورو

قرآن مجید انسان کے لیے اپنے رب سے کلامی رشتہ جوڑنے کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ بندے کو اُس کے ان دیکھے خدا سے ہم کلامی کا شرف بخشتا ہے۔ یہ عظیم کتاب خاکی مخلوق کو آسمانوں کی سیر کروانے، کائنات کے رازوں سے ہمکنار کرنے اور کامیابیوں کی کنجی دلوانے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس پر اہل ایمان کو ذرہ برابر بھی شک نہیں ہوتا۔ یہ حکمتوں اور عنایتوں کا ایک بحر بیکراں ہے، اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس میں غوطہ زن ہوتے ہیں یا نہیں؟
قرآن حکیم کی اصل بات یہ ہے کہ وہ شریعت دیتا ہے، نظام دیتا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں کسوٹی فراہم کرتا ہے۔ زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اس کی ہدایت و رہنمائی سے خالی رہ گیا ہو۔
اللہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن فرقان ہے یعنی حق اور باطل کے بیچ فرق کرنے کا واحد معیار ہے۔ ہمیں اپنے اعمال، اپنی نیتیں، اپنی کارگزاریاں اسی کسوٹی پر پرکھنی ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ صاف وشفاف ہیں یا گناہ آلودہ ہیں۔
یہی وہ انقلابی کتاب ہے جس نے عرب کی جاہل و اجڈ قوم میں سے ایسے لوگ پیدا کیے جو ’’اصحابِ رسول‘‘ کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہی وہ کلام ہے جس نے ان کے دل و دماغ اور روح کو یکسر بدل دیا۔ ان کے اخلاق و کردار میں، زبان و بیان میں، ظاہر اور باطن میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ وہ ایسے بدل گئے کہ ان کے والدین اور ان کے قبیلے والے حیران تھے کہ وفا کا کونسا معیار ہے جس نے انہیں فدائی بنا دیا اور یہ اپنی جان، مال، اولاد، سب کچھ اللہ اور اس کے رسول پر قربان کر دینے کے لیے لمحہ تیار ہو گئے۔
تئیس سال! صرف تئیس سال کے مختصر عرصے میں دنیا نے اسی قرآن کے بل پر برپا کردہ ایک ایسا بے نظیر انقلاب دیکھا جس نے مرد وعورت، بچے وبوڑھے، امیر وغریب، کالے اور گورے ہر بندش اور ہر فرق سے مبرا
ایسے قابلِ رشک انسان بنائے کہ رب کریم نے کہہ دیا ’’میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی۔ تمہارے لیے میں نے ایسی جنت تعمیر کی ہے جو دائمی ہوگی۔ تم نے مجھے بغیر دیکھے محبت، وفا، عشق کے وہ امتحان دیے ہیں کہ میں نے جنتیں انعام کردیں۔ نہ صرف جنت بلکہ اے میرے بندے میرا وعدہ ہے کہ میں تم سے ملوں گا بھی۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ کوئی قرآن دوسرا تھا جس کو پڑھ کر صحابہ نے فدائیت و فنائیت کی مثالیں قائم کیں تھیں؟ کیا قرآن صرف اس وقت کے لیے نازل ہوا تھا اور رسول کی وفات کے دو تین عشروں کے بعد ہی اس کا اثر ختم ہو گیا؟ کیا وجہ ہے جو ہم میں اور ان میں زمین آسمان کا فرق ہے؟ ان کی کونسی ادا اللہ کو پسند آئی تھی کہ دنیا کو ان کے قدموں میں لا کر رکھ دیا؟
ہمارا بھی دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کی بندگی کرتے ہیں، اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور قرآن کو آسمانی کتاب مانتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ذلیل و خوار ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو خود پر نافذ کیا تھا۔ وہ اپنے اخلاق و کردار کو، اپنے اعمال اور سوچ کو، قرآن کی کسوٹی پر رکھ کر تولتے تھے۔ انہوں نے اللہ اور رسولؐ کی رضا کو مرکز و محور بنالیا تھا۔ ان کی زندگی اسی کے ارد گرد ہوتی تھی۔ اور ہم نے قرآن کی کسوٹی کو اپنے سوا ہر ایک پر نافذ کیا۔ ہم دوسروں کے لیے تو مچھر چھانتے ہیں اور اونٹ نگل جاتے ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ہم نے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی تربیت چھوڑ دی، ہم نے منبر رسول کو مذاق بنادیا،ک اور ’’تو کافر تو کافر‘‘ کھیلنے لگ گئے۔ مسجدیں، مجلسیں، مدرسے، اسٹیج، ادارے ان سب کا استعمال، دین کے نفاذ کے لیے ہونا تھا مگر ہم ان سارے ذرائع کو ایک دوسرے پر لعنت ملامت کے لیے استعمال کیا۔ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کو پس پشت ڈال دیا۔ ’’سمعنا تو کہا، اطعنا‘‘ سے انکار کر دیا۔ بنی اسرائیل کے انحطاط کی شروعات امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے روگردانی سے ہی ہوئی تھی۔
آج ہم ذلت و خواری کا شکار بھی اسی فرض کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ہمارا رحیم و کریم معبود ہم سے بار بار کہہ رہا ہے ’’اے انسانو، میں نے تمہیں بہترین ساخت دی، پے در پے پیغمبر بھیجے، تمہیں اسلام کی نعمت سے نوازا، تمہارے اور میرے بیچ گفتگو و مکالمت کے لیے نماز و قرآن دیے۔ تمہیں پچھلی قوموں کی غلطیاں کھول کھول کر بتائیں، جنت اور جہنم کے نقشے تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیے۔ قبر کا معاملہ بتلا دیا، قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ کیا۔ تو لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو وہ تم پر آسمانوں کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ کرے گا۔‘‘
ہم جب تک اللہ سے معافی نہیں مانگیں گے، اپنے رب کی طرف رجوع نہیں ہوں گے ہمارے حالات نہیں بدل سکتے۔ ہمیں ہجرت کرنی ہو گی، گناہوں سے نیکیوں کی طرف، غیر ذمہ دارانہ طرزِ زندگی سے ذمہ دارانہ طرز حیات کی طرف، نفس پرستی سے خدا پرستی کی طرف۔ اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اللہ کی ضرورت ہے، ہمیں سیرت اور قرآن کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ اسی میں ہماری دائمی کامیابی مضمر ہے۔
مانا کہ بساطِ عالم پر مجبور ہے تو لا چار ہے تو
باطل کے عصا کر کے آگے ٹوٹی ہوئی تلوار ہے تو
لیکن یہ جہاں سب تیرا ہے تاریخِ سلف دہراتا چل
ایمان و عمل کے بربط پر اسلام کا نغمہ گاتا چل
(عامر عثمانی)

 

***

 ہمیں ہجرت کرنی ہو گی، گناہوں سے نیکیوں کی طرف، غیر ذمہ دارانہ طرزِ زندگی سے ذمہ دارانہ طرز حیات کی طرف، نفس پرستی سے خدا پرستی کی طرف۔ اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں اللہ کی ضرورت ہے، ہمیں سیرت اور قرآن کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ اسی میں ہماری دائمی کامیابی مضمر ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022