قسط۔(4):علی گڑھ تحریک اور سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ

نعمان بدر فلاحی
(ریسرچ اسکالر ، شعبۂ عربی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )

لارڈ لوتھین کے خطبہ پر غیر معمولی تبصرہ۔ ’اسلام کے نظریہ سیاسی‘ کے زیر عنوان مقالے کی زبردست مقبولیت
32 صفحات پر مشتمل مولانا سید سلیمان ندوی کا رسالہ بعنوان ’ایمان‘ 1941ء میں انجمن اسلامی تاریخ و تمدن مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے شائع ہوا تو مولانامودودیؒ نے اس پر بھی ایک جامع تبصرہ کیا :
’یہ مقالہ انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی دعوت پر علی گڑھ میں پڑھا گیا ۔ اس میں مولانا نے بڑی خوبی کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ جماعتوں، قوموں اور ملتوں کا عروج و ارتقاء در اصل کسی عقیدے یا تخیل پر ایمان کا رہین منت ہوتا ہے۔ اسی ایمان پر ان کی پوری زندگی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ اسی کے استحکام پر ان کی تعمیر حیات کا استحکام موقوف ہوتا ہے اور اسی کے ضعف سے ان کے نظام ہستی کی بندشیں ڈھیلی ہوجاتی ہیں۔آگے چل کر مولانا نے مختلف قوموں اور ملتوں کے اساسی عقائد کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ اسلامی عقائد کے سوا اور کوئی دوسرا عقیدہ ایسا نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی عالمگیر اور صالح نظام تمدن کی بنیاد قائم ہوسکتی ہو۔ در حقیقت یہ پورا مقالہ اس لائق ہے کہ اس کا نہایت غور سے مطالعہ کیا جائے۔
آغاز میں مولانا محمد طیب صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند کی تقریظ میں یہ تمنا ظاہر کی گئی ہے کہ خدائے برتر’ہماری یونیورسٹی کے کار آمد اور کارکن اجزا و اعضاء کو اس مقدس پیغام کا علماًحامل ، عملاً قابل اور قولاً سچا داعی بنادے‘۔ بہتر ہوتا کہ صاحب تقریظ اس مقدس تمنا کا اظہار کرنے کے ساتھ اپنے مخاطب نوجوانوں کو اس تلخ حقیقت پر بھی متنبہ فرمادیتے کہ اگر کہیں واقعی یہ حرکت کرنے پر تم آمادہ ہوگئے تو سب سے پہلے وہی لوگ تمہیں فتنہ ثابت کرنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوںگے جو یہ بیش قیمت مقالہ تمہیں سنایا کرتے ہیں۔ عافیت چاہتے ہو تو ان مقالوں کو سنو اور صرف اسلام کی نظری کرامات پر سر دُھن کر اپنے اُنہی کاموں میں لگ جائو جو دنیا میں ہورہے ہیں‘‘۔ (30)
پروفیسر حیدر خان کے توسیعی لکچر کا تنقیدی جائزہ
جنوری 1937ء میں انگریزی روزنامہ’دی اسٹیٹس مین‘ میںمذہب کے موضوع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ کیمیا میں استادپروفیسر حیدر خان کے ایک توسیعی خطبہ(Extention Lecture) کا متن شائع ہوا تو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اس پرسخت تبصرہ کرتے ہوئے ایک طویل مضمون میں لکھا :
؎’’آپ کیمسٹری کے معلم ہیں اور مذہب پر کلام فرمارہے ہیں۔ سب سے پہلے ان سے دریافت کیجیے کہ آپ نے مذہب کا کتنا مطالعہ فرمایا ہے؟ کون کون سی کتابیں ملاحظہ کی ہیں؟ کتنا وقت مذہبی مسائل پر غور و خوض کرنے میں صرف کیا ہے؟ اگر ان کے اخلاق (جنت و دوزخ والے نہیں بلکہ ترقی پذیر اخلاق) میں صداقت کوئی چیز ہے تو وہ خود ہی اس بات کا اعتراف کرلیں گے جو ہم نے ان کا خطبہ پڑھ کر اخذ کی ہے۔ یعنی یہ کہ انہوں نے مذہب کا کچھ بھی مطالعہ نہیں کیا، صرف چند ایسے تنقیدی مضامین پڑھے ہیں جو بعض مغربی مصنّفین نے زیادہ تر عیسائی مذہب کو پیش نظر رکھ کر لکھے ہیں، اور اس خارجی و سرسری مطالعہ پر بھی تفکر اور محققانہ غور و خوض کے لیے ان کو کچھ زیادہ وقت نہیں ملا ہے۔ اس کے بعد کس نے کہا تھا کہ آپ مذہب پر اظہار رائے فرمائیں؟ کیا ایک ریشنلسٹ کا یہی کام ہے کہ وہ کسی ایسے مسئلہ پر اظہار خیال کرے جس پر اس نے کافی مطالعہ اور کافی غور و خوض نہ کیا ہو؟‘‘ (31)
یونیورسٹی کانووکیشن میں لارڈ لوتھین کے خطبہ پر تبصرہ
جنوری 1938 کے آخری ہفتہ میں علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے کانووکیشن (جلسۂ تقسیم اسناد ) کے موقع پرآکسفورڈ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، Round Table جیسے مشہور رسالے کے ایڈیٹر اورتقریباً ۲۲سال سے حکومت برطانیہ کے اعلیٰ سفارتی عہدوں پر فائز معروف برطانوی صحافی‘ سیاست دان اور سفیرلارڈ لوتھین( 1882ء- 1940ء) کے عالمانہ اور حقیقت پسندانہ خطاب پر مولانا مودودی نے’دورِ جدید کا اہم ترین مسئلہ مذہب کی ضرورت اور اس کا معیار‘ کے عنوان سے ایک مبسوط علمی تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’’ لارڈ لوتھین نے جو خطبہ دیاہے وہ درحقیقت اس قابل ہے کہ ہندوستان کے تعلیم یافتہ جدید اور قدیم دونوں اس کو گہری نظر سے دیکھیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔ اس خطبہ میں ایک ایسا آدمی ہمارے سامنے اپنے دل ودماغ کے پردے کھول رہا ہے جس نے علوم جدیدہ اور ان کی پیدا کردہ تہذیب کو محض دور سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ خود اس تہذیب کی آغوش میں جنم لیا ہے، اور اپنی زندگی کے ۵۶ سال اسی سمندر کی غواصی میں گزارے ہیں۔ وہ پیدائشی اور خاندانی پورپین ہے۔ وہ کوئی بیرونی ناظرنہیں بلکہ مغربی تہذیب کے اپنے گھر کا آدمی ہے اور ہم سے بیان کرتا ہے کہ اس کے گھر میں اصل خرابیاں کیا ہیں۔
ایک حیثیت سے یہ خطبہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے سبق آموز ہے ، کیونکہ اس سے ان کو معلوم ہوگا کہ مغربی علوم اوران کی پیدا کردہ تہذیب نری تریاق نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت کچھ زہر بھی ملا ہوا ہے۔ جن لوگوں نے اس معجون کو بنایا اور صدیوں استعمال کیا، وہ آج خود آپ کو آگاہ کررہے ہیں کہ ’’خبردار اس معجون کی پوری خوراک نہ لینا، یہ ہمیں تباہی کے کنارے پر پہنچاچکی ہے اور تمہیں بھی تباہ کرکے رہے گی۔ ہم خود اس وقت تریاق خالص کے محتاج ہیں ، اگرچہ ہمیں یقین کے ساتھ معلوم نہیں‘ مگر گمان ضرور ہوتا ہے کہ وہ تریاق تمہارے پاس موجود ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے تریاق کو خاک میں ملاکر ہماری اس زہرآلود معجون کے مزے پر لگ جائو۔‘‘ (32)
یونیورسٹی کورٹ کو تعلیمی نظام کے سلسلے میں مشورے
مسلم یونیورسٹی کورٹ نے اپریل1936ء میں جب اپنے سالانہ اجلاس میں یونیورسٹی میں دینیات اور علوم اسلامیہ کے ناقص طرز تعلیم کی اصلاح اور یونیورسٹی کے طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کے اہم مسئلہ کی طرف توجہ کی تو ابو الاعلیٰ مودودی نے حیدر آباد دکن سے شائع ہونے والے اپنے رسالے ’ترجمان القرآن‘ میں ’ہمارے نظام تعلیم کابنیادی نقص‘کے عنوان سے ایک مدلل علمی مضمون لکھ کر تعلیمی نظام کی تدوین کے سلسلے میں اپنے خیالات کا بے باکی سے اظہار کیا اور یونیورسٹی کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا :
’’ ایک مستقل قومی یونیورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بناپر مسلمانوں میں پیدا ہوا اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ ’مسلمان‘ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونیورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں جیسے سرکاری یونیورسٹیوں سے نکلتے ہیں اور وہاں بھی دیسی لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں تو لاکھوں روپے کے صرف سے ایک یونیورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کونسی خاص ضرورت ہے؟
یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میں کافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جب یونیورسٹی قائم کی جارہی تھی اس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھاکہ ہم کو ایک علیحدہ یونیورسٹی کی کیاضرورت ہے اور اس ضرورت کوپورا کرنے کی کیاسبیل ہے؟ مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔ جن لوگوں کو یونیورسٹی بنانے کی دھن تھی انہیں بس یونیورسٹی ہی بنانے کی دھن تھی،اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا ۔ یہ سوال سرے سے پیش نظر ہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونیورسٹی کیسی ہونی چاہیے اور کن خصوصیات کی بنا پر کسی یونیورسٹی کو ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ اس عمل بلا فکر کانتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونیورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہوگئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ اور تیسری ڈھاکہ میں ہے‘‘۔ (33)
مجلس اصلاح نصاب دینیات کو تجاویز
اپریل1936ء میں مسلم یونیورسٹی کورٹ کی توجہ اور فکر مندی کے بعد مسلم یونیورسٹی کی’ مجلس اصلاح نصاب دینیات‘ نے ملک بھر کے جید علماء ، دانشوروں اور ماہرین تعلیم سے یونیورسٹی میں دینیات اور علوم اسلامیہ کے طریقہ تعلیم اور طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کے ضمن میں منصوبہ بندی کے لیے تجاویز طلب کی تھیں۔اس موقع پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے سوالات کے جواب میں اسلامی نقطۂ نظر سے تعلیمی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے’مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل‘ کے عنوان سے ایک جوابی تحریر ارسال کی جو1957ء میں’ تعلیمات‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ۔ مولانا نے اس میں لکھا تھا :
’’اس وقت مسلم یونیورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیم جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دوبالکل متضاد اوربے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے۔ان میں یہ صلاحیت پید انہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطہ نگاہ سے بھی اگر دیکھاجائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصر کی آمیزش اصلاً غلط ہے اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا‘‘۔(34)
مسلم یونیورسٹی پریس سے مولانا کے مقالے کی اشاعت
دسمبر 1939ء میں’’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘‘ کے عنوان سے ماہنامہ’ ترجمان القرآن‘ لاہور میں شائع ہونے والے ان کے مقالے کی مسلم یونیورسٹی کے طلبہ میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1939ء میں مسلم یونیورسٹی میں سرگرم ’آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن‘ نے اپنے سہ ماہی انگریزی رسالے”The Awakening” کے پہلے شمارے میں 35 صفحات پر مشتمل مقالے کاانگریزی ترجمہ The Islamic Conception of State کے عنوان سے شائع کیا۔ مذکورہ بالاسہ ماہی رسالہ مسلم یونیورسٹی پریس علی گڑھ سے جنوری 1940ء میں ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں مذکورہ مضمون 14؍جنوری 1940ء کو مسلم یونیورسٹی پریس سے 2000 کی تعداد میں علیحدہ شائع ہوا جس کے نسخے قائد اعظم پیپرز سیل وزارت ثقافت ،اسلام آباد پاکستان میں نمبر ۷۵۹ اور نمبر ۹۵۲ پر محفوظ ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل یہ رسالہ اردو میں دس ہزار کی تعداد میں شائع ہو چکا تھا ۔ اس کے انگریزی کے علاوہ عربی‘ بنگالی‘انڈونیشی‘ملائی اور سندھی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوئے۔ (35)
انگریزی ترجمہ پرصدق‘ لکھنؤ کا تبصرہ
32 صفحات پر مشتمل ’اسلام کا نظریۂ سیاسی‘ کاانگریزی ترجمہ جب ’ اسلامک کنسیپشن آف اسٹیٹ ‘ کے نام سے دفتر رسالہ’ ترجمان القرآن ‘ لاہور سے شائع ہوا تو’ صدق‘ لکھنؤ کے مدیرمولانا دریابادی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :
’ اسلام کے نظریۂ حکومت ‘ کے عنوان سے مولانا مودودی نے کچھ عرصہ ہوا ایک خطبہ لاہور کی ایک جامع مسجد میں ارشاد فرمایا تھا ۔بعد کو وہ ان کے رسالہ’ ترجمان القرآن‘ میں چھپا اور اب یہ اس کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا ہے ۔ مولانا کے مبصرانہ و محققانہ خیالات اس باب میں معلوم و معروف ہیں ۔ بہ سبیل ایجاز جتنی اصولی بحثیں اتنی ضخامت میں آسکتی تھیں ،سب اس رسالہ میں موجود ہیں اور مقالہ کہیں سے تشنہ نہیں معلوم ہوتا ۔ ترجمہ کی زبان بھی بہت غنیمت ہے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہر جگہ محض اسم مبارک محمدؐ لاتے رہنا مترجم صاحب کا ایک غلط اجتہاد اور مسیحی اہل قلم کی بے معنیٰ تقلید ہے ۔ اسی طرح حاشیہ میں رسول کا ترجمہ جو ’’پرافٹ ‘‘ فرض کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔ پرافٹ لفظ نبی کا ترجمہ ہے، رسول کے لیے معروف و متداول لفظ Messenger ہے ۔ پکتھال مرحوم نے اسی آخری لفظ کو چلایا ہے ۔(36)
(باقی سلسلہ آئندہ شمارے میں ملاحظہ کریں)
حواشی و تعلیقات
(30) ماہ نامہ ’ترجمان القرآن ‘لاہور، بابت دسمبر 1941ء، جنوری فروری 1942ء،
(جلد 19عدد 4،5،6۔)
(31) ماہ نامہ’ ترجمان القرآن‘حیدر آباددکن ، فروری 1937ء
(32) ماہ نامہ’ ترجمان القرآن‘ محرم 135۷ھ، مطابق مارچ 1938ء ۔( ماہ نامہ ترجمان القرآن کی فروری 1933ء کی اشاعت میں شامل ایک رپورٹ کے مطابق : لارڈ لوتھیَن کی ایما پر اس کے ایک دوست نے جو انگلستان میں رہتا ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک چغہ ہدیہ کے طور پر دیا ہے جس پر تمام قرآن مجید لکھا ہوا ہے۔یہ چغہ غدر 1857ء کے دوران ہندوستان سے انگلستان بھیج دیا گیا تھا اور اب مسلمانوں کے ساتھ دوستی کی علامت کے طور پر ہندوستان کو واپس دیا گیا ہے ‘‘۔
(33) ماہ نامہ’ ترجمان القرآن‘، حیدر آباد دکن ، جمادی الاولیٰ 1355ھ / اگست 1936ء۔
(34) ماہ نامہ’ ترجمان القرآن‘، حیدر آباد دکن، جمادی الاولیٰ 1355ھ / اگست 1936ء۔
(مئی 1957ء میں یہ مقالہ تعلیمات کے نام سے مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ،رامپورنے شائع کیا تھا ۔ )
(35) ’تذکرۂ سید مودودی‘ اول ، صفحہ نمبر-107 114۔
(36) ہفت روزہ’ صدق‘ لکھنؤ، 28 ؍ اکتوبر 1940ء۔
[email protected]
***

 

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022