اداریہ

آزاد بھارت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کے ایک اہم تاریخی واقعہ کی یاد منانے کے متعلق مرکزی و ریاستی حکومتیں کے درمیان اختلاف ہوگیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں۔ یہ تاریخی واقعہ ہے ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام! ایک طرف خود مرکزی حکومت نے سرکاری سطح پراس سال ‘حیدرآباد لبریشن ڈے’ (یوم آزادی حیدرآباد) کی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا اور 17 ستمبر کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے سکندرآباد پریڈ گراونڈ پر ترنگا پرچم لہرا کر ان تقاریب کا آغاز بھی کردیا جو پورے سال جاری رہیں گی۔ واضح ہو کہ ریاست تلنگانہ میں دسبمر 2023 سے قبل تک نئی اسمبلی کے لئے انتخاب ہونے والے ہیں۔
دوسری طرف ریاستی حکومت نے اس دن کو یوم قومی یکجہتی تلنگانہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کرکے تین روزہ تقریبات کا اعلان کیا اور 16ستمبر کو منعقدہ ایک ریلی کے ذریعے ان تقریبات کا آغاز کردیا اور دوسرے دن ریاست کے وزیراعلیٰ کے چندرشیکھر راونے باغ عامہ میں ترنگا پرچم لہرایا۔ اس طرح 17ستمبر کی یہ تاریخ اور ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کا واقعہ بی جے پی اور ٹی آر ایس کےدرمیان سیاست کا شکار ہوچکا ہے۔
17ستمبر کا دن تلنگانہ کی جدید تاریخ میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ 1948 میں اسی دن حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کے ساتویں فرماں روا میر عثمان علی خان نے ہندوستان افواج کی جانب سے کیے گئے آپریشن پولو کےبعد ریاست کو انڈین یونین میں ضم کرنےکا اعلان کیا۔اس طرح آزادی کے وقت موجود شاہی ریاستوں میں سب سے بڑی اور طاقت ور ریاست حیدرآباد، جس کے حکمراں مسلمان تھے، بالآخر بھارت کا حصہ بن گئی۔گرچہ الحاق کی یہ کارروائی مزید ایک سال چارماہ بعد یعنی 26 جنوری 1950 کو باضابطہ طور پر مکمل ہوئی اور اس موقع پر حیدرآباد کے فرماں روا میر عثمان علی خان کو ریاست کے رسمی سربراہ کی حیثیت سے راج پرمکھ (گورنر یا کنسٹی ٹیوشنل ہیڈ) بنایا گیا۔
بی جے پی اور اس کی ہمنوا تنظیمیں اپنے حقیر سیاسی مفادات کے لیے ہمیشہ ہی سے اس واقعہ کا استحصال کرتی آئی ہیں۔اور اسے یوم آزادی تلنگانہ قراردیتی رہی ہیں۔حالانکہ اس کو یوم آزادی قراردینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ میر عثمان علی خان کوئی بیرونی حکمراں نہیں تھے وہ اسی طرح ایک دیسی فرماں روا تھے جس طرح ملک کے مختلف حصوں میں 500سے زائدالگ الگ دیسی حکمراں تھے۔اگر اس طرح ہر شاہی حکومت کے انضمام کے دن کو یوم آزادی قراردیا جاتا رہے تو ملک میں سینکڑوں یوم آزادی ہوجائیں گے۔مزید یہ کہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے خود میر عثمان علی خان کو راج پرمکھ بنایا۔ ان کی وفات پر حکومت آندھرا پردیش نے ایک خصوصی گزٹ شائع کیا، ان کے احترام میں ریاست کے تمام سرکاری ادارے بند رہے اور تمام اداروں پر قومی پرچم جھکادیے گئے۔ کیا کسی غیر ملکی حکمراں کے ساتھ خود بھارت کی حکومت اس طرح کا برتاو کرتی ہے۔یہ سب باتیں ماضی قریب کی تاریخ میں درج ہیں ان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، اس لیے ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے دن کو یوم آزادی قراردینا دراصل تاریخ کو مسخ کرنا ہے۔ سارے ملک کی یوم آزادی ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اس دن ہے جب ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔
اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ بی جے پی اس واقعے کو ہمیشہ ہندومسلم رنگ میں پیش کرتی رہی ہے۔یہ بات درست ہے کہ ریاست حیدرآباد میں بھی ایک شاہی و جاگیردارانہ حکومت قائم تھی جس کا سربراہ مسلم تھا۔ لیکن ریاست کے مختلف حصوں میں جن جاگیرداروں کا تسلط تھا ان میں مسلمان اور ہندو دونوں ہی شامل تھے۔جاگیرادارانہ نظام کی ساری غلط روایات یہاں بھی جاری و ساری تھیں۔اور اس نظام حکمرانی کے خاتمے کے لیے کمیونسٹوں کی قیادت میں غریب کسانوں نے زبردست عوامی جدوجہد کی جسے تلنگانہ مسلح تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ شاہی نظام حکومت کے خلاف ہونے والی اس عوامی تحریک کو بی جے پی ہمیشہ ہندومسلم تقسیم کے لیے استعمال کرتی رہی ہے چنانچہ اس وقت بھی وہ اس پروپگنڈے میں مصروف ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف ہندووں کی تحریک تھی جو حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔نظام کے خلاف ہونے والی یہ مسلح جدوجہد دراصل بادشاہت کے خلاف اور جمہوری حکومت کے قیام کے لیے تھی اس میں ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی شامل تھے۔ اس تحریک میں شامل ہونے کی پاداش میں ایک اردو صحافی شعیب اللہ خان کے بازو کاٹ کران کا قتل کردیا گیا، مشہور اردو شاعر مخدوم محی الدین کو قید و بند کا شکار ہونا پڑا۔ گویا یہ کوئی ہندو مسلم لڑائی نہیں بلکہ ایک عوامی تحریک تھی جس کے متعلق غلط بیانی کرکے ہندووں کو مسلمانوں کے خلاف یکجاکرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھا سکے۔ بی جے پی اور اس کے ہمنوا تنظیموں کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اس دن یوم آزادی منایا جائے لیکن عوام کی جانب سے اس کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہوتی۔ اس بار چوں کہ وہ مرکزی حکومت میں ہے تواس نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے نہ صرف ان تقاریب کا اعلان کیا بلکہ ریاستی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر یہاں ان تقاریب کا آغاز بھی کردیا۔ ایسا کرکے انہوں نے گویا ہندوستانی وفاقیت کی بنیادی روح کو نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے۔جہاں ریاست اور مرکز باہمی اعتماد کے ساتھ مختلف کاموں کو انجام دیتے ہیں یہ کس قدر مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ ایک ریاست کوئی خاص تقاریب ہیں ان تقاریب کو ریاستی حکومت الگ نام سے منارہی ہے اور مرکزی حکومت ایک الگ نام سے ۔
اس سلسلے کے آخری بات یہ ہے کہ تاریخ میں بہت سارے واقعات ہوتے ہیں ان میں کچھ خوش گوار ہوتے ہیں اور کچھ واقعات کی یادیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔ حیدرآباد پر ہندوستانی افواج کی فوج کشی اور حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد ریاست کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے قتل و خون کا ایک انتہائی دردناک سلسلہ چل پڑاجس میں ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتارےگئے۔ پنڈت سندر لال کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس دوران تقریباً چالیس ہزار افراد کا قتل ہوا۔ یہ وہ تعداد ہے جو کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بیان کی ورنہ حقیقی تعداد کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یقیناً یہ واقعات بہت تلخ ہیں ان کو یاد کرنے سے لوگوں کے دلوں پر لگے وہ زخم پھر سے ہرے ہوتے ہیں، ان واقعات کی یاد لوگوں کے درمیان خلیج کو بڑھاتی ہے، ان میں دوریاں پیداکرتی ہے۔اس لیے عقل مندی یہی ہے کہ ان واقعات کو یاد کرکے زخموں کو کریدنے کے بجائے ان سے سبق لیا جائے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے سماج کو محفوظ کیا جائے اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔